ماں جی

ہماری فیملی کے واٹس ایپ گروپ میں تین نسلیں موجود ہیں۔ ہماری والدہ محترمہ ہیں، ہم ساتوں بھائی اور ہمارے بچے۔ اس گروپ کا ایڈمن میرا بھتیجا ضرار ہے جو طرح طرح کی دلچسپ وڈیوز، میمز اور دیگر معلومات شیئر کرتا رہتا ہے۔ اسے اس معاملے میں دوسرے کزنز پر اس لیے برتری حاصل ہے کہ اسے سوشل میڈیا کی سوجھ بوجھ دوسروں سے زیادہ ہے اور شوق بھی ۔اپنی اسی فوقیت کو ثابت کرنے کے لیے اس نے بہت کم عمری میں ہی اپنا ایک یوٹیوب چینل بنا لیا تھا اور اپنے وی لاگز اَپ لوڈ کر کے وہ ہم سب سے زبردستی لائک اور کمنٹس کے لیے بھی اصرار کرتا تھا۔ یوں وہ ہمارے اس فیملی گروپ کی جانِ محفل ہے۔ اس کے اس شغل میلے کے سبب ہمارا دل بھی لگا رہتا ہے اور خاندان کے ساتھ مسلسل اور مربوط رابطہ استوار رہتا ہے۔ اس کی تکنیکی مہارتوں کے سامنے ہم سب بے بس بھی ہیں اور قدرے پسماندہ بھی۔ صرف اس کی دادی یعنی ہماری والدہ ماجدہ ہی اس کے فنی کمالات کا کسی حد تک مقابلہ کر پاتی ہیں۔ وہ بھی گروپ میں بہت سی معلوماتی پوسٹس شیئر کرتی ہیں، قرآنی آیات، احادیث اور اقوالِ زریں ہمیں اُن کے توسط سے ملتے رہتے ہیں۔ اُن کے پاس بچوں کی تصاویر کا ایک نادر خزانہ موجود ہے جن کا 'کولاج‘ بنا کر وہ گروپ میں وقتاً فوقتاً بھیجتی رہتی ہیں۔ کبھی کبھار وہ ہمارے بچپن کی تصاویر بھی کھوج لاتی ہیں اور اس طرح ہمارا ماضی ہمارے سامنے دوبارہ سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ یوں ضرار اور امی جان کے مابین ایک صحت مندانہ مقابلہ تسلسل کے ساتھ جاری و ساری رہتا ہے۔ مگر اس کھیل تماشے میں دو پہلو نہایت لطیف ہیں۔ اکثر ہم تمام بھائی اپنی سرکاری مصروفیات اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سبب مختلف مقامات اور مختلف ممالک میں ہوتے ہیں مگر امی جان کانفرنس کال کے ذریعے ہمیں آپس میں ملوا دیتی ہیں جبکہ ضروری امور پر باہمی صلاح مشورے اور مشترکہ حکمتِ عملی کو حتمی شکل بھی دی جاتی ہے جو ایک اہم انتظامی پہلو ہے۔بلاشبہ امی جان ہمارے خاندان کا مرکزی ستون ہیں اور ہمارے اتحاد و اتفاق کی ضمانت بھی۔ دوسرا باریک نکتہ ہر روز صبحِ کاذب کے وقت اُن کی طرف سے گروپ میں آنے والا دعائوں کا وہ خزانہ ہے جس میں ہم سب کی صحت، سلامتی، زندگی اور خیر و عافیت کے لیے ربِ کریم کی بارگاہ میں التجائیں ہوتی ہیں۔ بے شک ماں جی کی انہی دعائوں نے بلائوں اور مصیبتوں کے شر سے ہم سب کو محفوظ رکھا ہوا ہے۔ یہ انہی دعائوں کا ثمر ہے کہ مالکِ کائنات نے ہمیں ہم سب کو بے پناہ نعمتوں سے سرفراز کر رکھا ہے۔ ان کے اِن پیغامات پر ردِ عمل دینا لازمی ہوتا ہے۔ البتہ میسج پر بلیو ٹِک کو دیکھ کر وہ یہ سمجھ جاتی ہیں کہ پڑھنے والا بخیر و عافیت ہے جس سے انہیں ہماری خیریت سے آگاہی رہتی ہے اور اطمینان بھی۔ اگر کوئی بھائی ان کے میسج پر ردِ عمل نہ دے یا بلیو ٹک نہ آئے تو وہ دوسرے بھائیوں سے باقاعدہ دریافت کرتی ہیں کہ کس کا کب اس سے آخری رابطہ ہوا تھا اور یوں انہیں تسلی ہو جاتی ہے کہ معاملات معمول کے مطابق ہیں۔ محض سستی یا مصروفیت کے سبب اس نے ان کے میسج پر اپنا ردِ عمل نہیں دیا۔ محض ایک میسج کے بلیو ٹک نہ ہونے پر صرف ایک ماں ہی بے چین ہو سکتی ہے۔بلاشبہ خالقِ دو جہاں نے اسے اخلاق، پیار، شفقت و محبت اور ایثار و قربانی کی مٹی سے گوندھ کر تخلیق کیا ہے۔ خلیل جبران نے سچ ہی تو کہا تھا کہ انسانیت کے ہونٹوں سے ادا ہونے والا سب سے خوبصورت لفظ ''ماں ‘‘ہے۔
چند روز قبل ماں جی نے وٹس ایپ گروپ میں ہم سب بھائیوں اور کزنز کی‘ عید کے موقع پر لی گئی ایک نایاب تصویر شیئر کی۔ یہ تصویر قریب بتیس سال قبل گائوں والے آبائی گھر میں اتاری گئی تھی۔ میں اور سیف بھائی اس وقت گورنمنٹ کالج لاہور میں زیرِ تعلیم تھے جبکہ ہمارے چھوٹے بھائی اپنی ابتدائی تعلیم کے مراحل میں تھے۔ یہ تصویر دیکھتے ہی میرے سامنے گزشتہ تین دہائیاں اور کٹھن، صبر آزما اور مشکلات سے بھرپور لمحات پر مبنی داستانِ حیات تازہ ہو گئی۔ ایامِ لڑکپن میں ملنے والے دورِ یتیمی کے صدمات اور اُن سے جڑے بے پناہ حوادثِ زمانہ پوری آب و تاب کے ساتھ میری چشمِ تصور میں مچل گئے۔ بے بسی، بے کسی اور اپنوں کی بیگانگی اور اُس سرد مہری کے ساتھ جڑی تلخ نوائیوں کے شیش ناگ ایک بار پھر پھنکارنے لگے۔ مرحوم و مغفور والدِ گرامی کے وہ سارے ادھورے خواب اور ہمارے سنہرے مستقبل سے وابستہ منصوبہ جات ایک مرتبہ پھر مجھے امیدو آرزو کے اس جہان میں لے گئے جہاں ایک ایک دن صدیوں کی مسافت پہ بھاری تھا۔ سفر تھا کہ کٹنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ راستے تھے کہ کانٹوں سے لدے ہوئے اور کوئی راہبر تک میسر نہ تھا۔ محض ربِ کریم پر توکل اور ماں جی کی دعائوں کی ڈھارس ہی ہماری کل متاعِ حیات تھی اور یہی ہمارا رختِ سفر تھا۔
1986ء کے ستمبر کی وہ سیاہ رات میں کیسے بھول سکتا ہوں جب پاکستان ٹیلی وژن پر خبر نامے کے بعد ٹی وی کی نشریات بند ہوئیں تو ہماری زندگی سے بھی روشنی جاتی رہی۔ اگلے چند لمحات میں ابا جان ایک جان لیوا ہارٹ اٹیک کے سبب اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے اور یوں ہم سات بھائی پدری شفقت کی نعمت سے محروم ہو گئے۔ والدہ محترمہ نے محض 35سال کی عمر میں بیوہ ہونے کے باوجود اپنی جوانی کی ایک ایک ساعت ہمارے نام لگا دی اور اپنی پوری توجہ ہمارے عظیم باپ کے نقشِ پاکی کھوج میں صرف کر کے ہماری مثالی تربیت کے لیے وقف کر دی۔ انہوں نے ہمارے لیے باپ کا کردار بھی خوب نبھایا اور ایک مثالی ماں بن کر ہمیں اپنی بے پناہ محبت اور بے حساب خود اعتمادی کی دولت سے مالامال رکھا۔ انہوں نے زمانے بھر کے تمام بے رحم موسموں اور خزائوں سے ہمیں محفوظ کر کے ہمہ وقت اپنی آغوش کی بہاروں کے حصار میں رکھا۔ یہ ان کی دانشمندانہ سوچ اور دور اندیشی ہی تھی جس کے سبب انہوں نے ہمیں گورنمنٹ کالج لاہور جیسی عظیم تعلیمی درسگاہ کی راہ دکھائی جہاں سے ہم نے اکتسابِ فیض کر کے عملی زندگی میں کامیابیاں اپنے نام کیں۔ یہ انہی کا دیا ہوا اعتماد تھا جس کے سبب ہم یتیم ہونے کے باوجود کبھی بے آسرا نہیں ہوئے اور نہ ہی کسی احساسِ کمتری کا شکار ہوئے بلکہ تمام عمر اپنے عظیم باپ کی قبر کو گواہ بنا کر کارِ جہاں میں ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھتے رہے تا کہ ماں جی کی عظیم قربانیوں اور اٹھائی جانے والی تکالیف کا ازالہ کیا جا سکے۔
جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو یہاں برطانیہ کی سرد ہوائیں میرے بیڈ روم کی کھڑکی سے بار بار ٹکرا رہی ہیں۔ میں بیٹھا یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر آج سے 36 برس قبل ہماری والدہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اپنا تن، من ،دھن وارفتگی کے ساتھ وار نہ دیتیں اور یکسوئی، استقامت، جرأت اور اخلاص کے ساتھ اپنا سب کچھ ہم پر قربان نہ کر دیتیں تو کیا ہم اس مقام پر پہنچ سکتے تھے؟ یقینا ماں کا دنیا میں کوئی نعم البدل نہیں۔ یہ ربِ کریم کی سب سے بڑی عطا ہے۔ یہ سب سے سچا رشتہ اور سُچا ناتا ہے جس میں صرف بے لوث محبت ہے، اپنی اولاد کے لیے بے پناہ جذبۂ ایثار اور ان کے بچوں کے لیے سراپا شفقت ہے۔ اپنی ماں کا قرض بھلا کوئی اتار سکتا ہے؟ ماں جی سمیت دنیا کی ہر ایک ماں کو سلام۔وصی شاہ کے یہ دو اشعار میرے جذبات کی حقیقی ترجمانی کرتے ہیں:
یہ کامیابیاں‘ عزت یہ نام تم سے ہے
اے میری ماں مرا سارا مقام تم سے ہے
تمہارے دم سے ہیں میرے لہو میں کھلتے گلاب
مرے وجود کا سارا نظام تم سے ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں