یہاں برطانیہ آ کر تعلیم و تحقیق سے وابستہ بے پناہ مصروفیات کے سبب وطنِ عزیز پاکستان میں دوست، احباب اور بہت سی قابلِ قدر شخصیات کے ساتھ مسلسل رابطہ نہیں رہ پاتا۔ فاصلوں کی دوریاں اپنی جگہ‘ وقت بھی پاکستان سے مختلف ہے۔ اکثر شام کو یونیورسٹی سے فراغت کے بعد پاکستان میں کسی سے بات چیت کا خیال آئے بھی تو وہاں رات ڈھلنے کے قریب ہوتی ہے جس پر مجھے اپنا ارادہ ترک کرنا پڑتا ہے۔ زمان و مکان کے اس تغیر نے مجھے اپنے محسن و مربی پروفیسر رحمت علی المعروف ''بابا جی‘‘ کی فکر و دانش اور علم و فضل سے آراستہ روح پرور محافل سے فیضیابی کی سعادت سے بھی محروم کر دیا ہے جسے میں نے ہمیشہ اپنے لیے ایک بیش قیمت متاعِ حیات گردانا ہے۔
گزشتہ کالم میں برطانیہ کے بلدیاتی انتخابات پر مبنی اپنے مشاہدات و تجربات قارئین کے سامنے رکھے تو جہاں بہت سے احباب نے اپنی آرا اور تجربات کی روشنی میں اپنے خیالات سے نوازا وہاں ''بابا جی‘‘ کی ڈانٹ ڈپٹ بھی سننے کو ملی۔ میں جب سے گزشتہ سال کے آخر میں یہاں آیا ہوں‘ انہیں ہمیشہ ایک ہی کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں میں پاکستان سے اپنی والہانہ محبت کھو نہ دوں اور اسی لیے وہ مجھے یہاں کے ''پیٹر، ہیری، رابرٹ، ولیم اور جیمز ‘‘سے مرعوب ہو کر اپنے دیس کے ''گامے، ماجے اور ساجے‘‘ کو کمتر نہ سمجھنے کی بابت تلقین کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ کالم پر ان کا ردعمل یقینی تھا اور میں اس کے لیے ذہنی طور پر تیار تھا مگر رہی سہی کسر جیدی میاں کی شرارت آمیز لقمہ بازی سے نکل جاتی ہے جو جلتی پر تیل چھڑکنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ بابا جی کے شدید ردِعمل کے جواب میں آج کا کالم میں اپنے پیارے پاکستان کے کھیت کھلیانوں، زمین سے سونا اگلوانے والے کسانوں اور دورِ جدید کی تمام تر رعنائیوں سے میلوں دور اُن سادہ لوح انسانوں کے نام کر رہا ہوں جو اپنی محنتِ شاقہ سے مشکل ترین حالات کے باوجود وطنِ عزیز کے پچیس کروڑ نفوس کے لیے غلہ، اناج، پھل، سبزیاں اور دیگر اشیائے خور و نوش پیدا کرنے میں دن رات ایک کیے رکھتے ہیں۔
آج بھی پاکستان کی لگ بھگ 70 فیصد آبادی دیہی معاشرے پر مبنی ہے اور بیشتر لوگ زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ حالیہ سالوں میں ہمارے دیہات کا کلچر بلاشبہ تیزی سے تبدیل ہوا ہے‘ تعلیم عام ہوئی ہے اور ملازمت کے مواقع بڑھنے سے ہر گائوں میں مختلف سرکاری، نیم سرکاری اور نجی شعبے میں نوکری کرنے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ دیہات کا پختہ سڑکوں کے سبب قصبات اور شہروں کے ساتھ رابطہ زیادہ فعال اور مضبوط ہوا ہے۔ ذرائع آمد و رفت، زرعی مشینری اور جدید آلات نے دیہی معاشرے میں پہلے سے زیادہ خوشحالی کے دروازے کھولے ہیں۔ دو دہائیاں پیچھے چلے جائیں تو سماجی پسماندگی اور معاشی بدحالی کے ڈیرے چہار سو نظر آتے تھے۔ غربت، افلاس، جرم، جہالت اور بیروزگاری کے بسیرے ہمارے دیہات کا مقدر بنے ہوئے تھے۔ آج کے دیہات وہ پہلے والے دیہات نہیں رہے، اب کافی حد تک شہری اثرات نے اپنا رنگ جمانا شروع کر دیا ہے۔ اب ہمارے گائوں تیزی سے قصبوں میں بدلتے جا رہے ہیں۔ انٹرنیٹ، موبائل فون، سوشل میڈیا، موٹرسائیکل، پکے مکانات، وسیع و عریض ڈیرے، ٹریکٹر، کاریں اور کیٹرنگ کی سہولتیں اب ہمیں دیہات کی ایک نئی اور خوش رنگ تصویر دکھاتی ہیں۔ دو دہائیوں قبل تک یہ سب چیزیں محض خواب و خیال اور سراب تھیں؛ البتہ ان ساری تبدیلیوں اور سہولتوں نے ہمارے دیہی معاشرے کے بنیادی ڈھانچے پر کوئی خاص اثر نہیں ڈالا۔ آج بھی ہمارے دیہات میں حسب نسب، ذات پات، خاندانی برتری اور سماجی تفاوت کی لکیریں واضح ہیں اور طبقاتی تقسیم کے خدوخال نمایاں ہیں۔ ایک ہی نام کے تین مختلف افراد دراصل تین مختلف طبقات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ زمیندار گھرانے میں پیدا ہونے والا ''غلام محمد‘‘ درمیانی طبقے کا ''چاچا گاماں‘‘ اور نچلے طبقے کا ''گاموں‘‘ کہلاتا ہے۔ بات یہاں پر ہی نہیں رکتی۔ نام کے ساتھ مختلف سابقے اور لاحقے بھی شامل ہو جاتے ہیں جو اس فرد کی خاندانی عظمت اور قبیلے کی شان و شوکت کی علامت بن جاتے ہیں۔ اصل نام سے پہلے رانا، ملک، مہر، چودھری، نواب، نوابزادہ، سردار، سردار زادہ، سید، سید زادہ، خان اور خانزادہ جیسے الفاظ لکھے اور بولے جاتے ہیں جبکہ آخر میں چیمہ، چٹھہ، تارڑ، جپہ، سیال، بھروانہ، بلوچ، لغاری، مزاری، زرداری، نون، لک، گجر، گوندل اور دیگر ذات برادریوںکا تفاخر شامل ہو جاتا ہے۔ یوں اصلی نام کے ساتھ کئی سابقے اور لاحقے مل کر اس فرد کی سماجی و سیاسی حیثیت اور معاشی مقام و مرتبہ پر دلالت کرتے ہیں۔ حج و عمرہ کی سعادت پانے والے ''الحاج‘‘ کا سابقہ بطورِ خاص اپنے نام کے ساتھ لکھوانا پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح آپ شادی بیاہ کی تقریبات کے دعوت ناموں، سیاسی اشتہارات اور دیگر سماجی تقریبات کے منتظمین، مہمانانِ خصوصی اور معاونین کے اسمائے گرامی پڑھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان شخصیات کے قد کاٹھ میں ان کے اصلی ناموں کے ساتھ درجن بھر سابقوں اور لاحقوں کا کتنا عمل دخل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک ہی نام ہمیں دیہی معاشرے میں پائی جانے والی طبقاتی تقسیم کے خد و خال واضح کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ''الحاج نواب زادہ سردار غلام محمد لاشاری بلوچ‘‘ درمیانے طبقے کا ''چاچا گاماں‘‘ اور نچلے طبقے کا ''گاموں‘‘ بن جاتا ہے حالانکہ پیدائش کے وقت تینوں بچوں کا نام ماں باپ نے ''غلام محمد‘‘ ہی رکھا تھا مگر حسب نسب اور ذات برادری کی اونچ نیچ ایک ہی نام کی تین مختلف شکلیں ہمارے سامنے لاتی ہے۔ اسی طرح شیر محمد، چاچا شیرا، اور شیرو۔ رحمت علی، چاچا رحماں اور رحموں۔ احمد یار، چاچا احماں اور احموں جیسے ناموں کے تین مختلف رنگ ہیں۔ یہ محض تین منفرد رنگ ہی نہیں بلکہ تین مختلف کلاسز ہیں‘ تین مختلف طبقات ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اب ان ناموں کے ساتھ جڑی کلاس کے اثرات اتنے راسخ ہو چکے ہیں کہ اگر ''غلام محمد‘‘ کہلوانے والے کسی چودھری، مہر، رانا، یا ملک کو ''گاماں‘‘ یا ''گاموں‘‘ کہہ کر پکارا جائے تو یقینا وہ اس بات کو سنا ان سنا کر دے گا کہ شاید پکارنے والا کسی اور سے مخاطب ہے۔ البتہ اگر اسے یہ یقین ہو جائے کہ اس طرزِ تخاطب سے اسے ہی پکارا گیا ہے تو پھر پکارنے والے کی شامت کا آ جانا لازم ہے اور اس کے خطرناک نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر ''گاموں‘‘ کو کوئی 'غلام محمد‘ کہہ کر آواز لگائے تو وہ بھی یقینا پکارنے والے کی اس ''غلط فہمی‘‘ پر متوجہ نہیں ہو گا اور یہی سمجھے گا کہ پکارنے والے کا مخاطب کوئی اور ہے۔
قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ جس ''گاموں‘‘ کا ہم اصل نام تک پکارنا پسند نہیں کرتے‘ وہی ہمارے دیہی معاشرہ کا اصلی ہیرو ہے جو دن رات مٹی سے سونا تلاش کرنے میں مصروفِ عمل رہتا ہے۔ جو دسمبر کی یخ بستہ راتوں میں کھیتوں کو پانی سے سیراب کرتا ہے، جو خوفناک کالی راتوں اور وحشت ناک راستوں پر پائے جانے والے سانپوں، بچھوئوں اور دیگر خطرناک مخلوقات کا دلیری سے مقابلہ کرتا ہے، جس کی کل کائنات اس کے کھیت کھلیان، جانور اور ان کی دیکھ بھال ہی ہوتی ہے، جسے ناشتے میں رات کی روکھی سوکھی روٹی کے ساتھ لسی ملتی ہے اور جس کی رات جانوروں اور ڈھور ڈنگروں کی حفاظت میں گزر جاتی ہے۔ وہی 'گاموں‘ ہمارے کھانے کی ٹیبل پر سجنے والے انواع و اقسام کی اشیائے خور و نوش کی پیداوار اور ترسیل کا بنیادی ذریعہ اور ضامن ہے۔ 'گاموں‘ عمر بڑھنے پر بزرگی کے ایام میں ترقی پا کر 'چاچا گاماں‘ تو بن جاتا ہے مگر شاید وہ 'غلام محمد‘ کبھی نہیں بن پاتا‘ وہ سدا اس نام سے محروم رہتا ہے جو اس کی پیدائش پر اس کے ماں باپ نے رکھا ہوتا ہے۔