خودنوشت

آج کا کالم میں نے اپنے قارئین کے نام کیا ہے جن کے ساتھ مسلسل رفاقت کے تین برس گزشتہ ماہ مکمل ہو گئے اور ہمارا یہ قلمی تعلق اب قلبی رشتہ بن چکا ہے۔ میرے کچھ پڑھنے والے خصوصی شکریے کے مستحق ہیں جنہوں نے گزشتہ مہینے کی 12 تاریخ کو میرے کالم کی تیسری سالگرہ کے موقع پر اپنے پیار بھرے پیغامات ارسال کیے اور مجھے اپنی خاص دعائوں میں شامل رکھا۔ تمام قارئین کی محبتوں کا قرض میرے لیے لوٹانا ممکن نہیں‘ خصوصاً جنہوں نے ہر ہفتے میرے کالم کو توجہ سے پڑھا، اپنے تبصرے، اپنی آراء اور مثبت تنقید سے اس میں بہتری کے پہلوئوں کی نشاندہی کی اور جہاں تعریفی کلمات ادا کرنے کا موقع آیا تو دل کھول کر داد و تحسین سے بھی نوازا۔ میرے لیے جو امر سب سے زیادہ باعثِ افتخار ہے وہ پڑھنے والوں کی عملی زندگی پر مثبت اثرات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی وہ تبدیلیاں ہیں جن سے ان کی سوچ کا دھارا بدلا اور وہ یاس و ناامیدی کے دشتِ ویراں سے نکل کر امید و آزو کا جہان آباد کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ کئی نوجوانوں نے اپنے وقت اور صلاحیتوں کا بہترین استعمال کرنے کا عزم صمیم کیا تو درجنوں میں شعر و ادب کا شغف پیدا ہوا اور لگ بھگ دو درجن نوجوان اب مسلسل لکھنے کی عادت راسخ کر چکے ہیں۔ میرے پاس اپنے قارئین کی جتنی تحریریں جمع ہو چکی ہیں ان پر مشتمل ایک ضخیم کتاب مرتب کی جا سکتی ہے۔ گزشتہ برس جولائی میں میری پہلی کتاب ''دیہاتی بابو‘‘ شائع ہوئی تو اسے پاکستان بھر میں اور بیرونِ ملک جہاں جہاں پاکستانی اور اردو پڑھنے والے موجود ہیں‘ ان کی طرف سے بے پناہ پسندیدگی اور پذیرائی ملی۔ مگر میرے بہت سے پڑھنے والوں کی طرف سے ایک سوال مطالبے کی شکل میں مسلسل مجھ تک پہنچتا رہا جس میں گزشتہ چند دنوں میں شدت آ چکی ہے اور اس کی وجہ میری دوسری کتاب ''خاکِ بطحا‘‘ ہے جو ایک نعتیہ مجموعہ کی شکل میں رواں ماہ کے آخر تک طباعت و اشاعت کے تمام مراحل عبور کر کے قارئین کے لیے میسر ہو جائے گی۔ یہ کتاب بارگاہِ رسالت میں عقیدت کے پھول ہیں اور اس میں شامل نعتیہ اشعار کی واضح اکثریت روضہ رسولﷺ کی حاضری کے دوران میرے قلب و روح کی کیفیات کی عکاس ہے کیونکہ ان کی آمد میں اذنِ حضوری کی عطا شامل ہے۔ لہٰذا ''خاکِ بطحا‘‘ میرے لیے سرمایۂ زیست بھی ہے اور اخروی زندگی کا زادِ سفر بھی۔ اس کتاب کی اشاعت کی خبر نے قارئین کے اس سوال میں شدت مزید بڑھا دی ہے کہ میں اپنی خودنوشت کب تحریر کر رہا ہوں‘ جسے پڑھنے کے لیے ان میں بے پناہ تجسس بھی ہے اور شوق و ذوق بھی۔ اس سوال کے ساتھ جڑے دو سوالات اور بھی ہیں۔ چند احباب یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ میں اپنی سوانح عمری کس طرح کی لکھنا چاہوں گا اور دوسرا یہ کہ سرکاری عہدوں پر براجمان افراد اپنی سوانح حیات ریٹائرمنٹ کے بعد ہی کیوں لکھتے ہیں؟ اب ان تینوں سوالات کا جواب دینا ضروری ہو گیا ہے۔
آخری سوال سے شروع کرتے ہیں۔ سرکاری ملازمت کے قواعد و ضوابط کے مطابق لکھنے والا ایک جامع ضابطہ اخلاق کا پابند ہوتا ہے جس کی موجودگی میں سرکاری عہدیداران اپنی خودنوشت کے لیے ریٹائرمنٹ کا انتظار کرتے ہیں۔ کئی معاملات اور مشاہدات بطور سول سرونٹ دورانِ ملازمت زیرِ بحث نہیں لائے جا سکتے۔ کنڈکٹ رولز اس ضمن میں بڑے واضح ہیں۔ دوسری بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ملازمت کے ہوتے ہوئے ابھی کئی اہم واقعات اور معاملات وقوع پذیر ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں جن سے پہلے خودنوشت مکمل کر لی جائے تو شاید بہت سے اہم ابواب اور مشاہدات اس سوانح حیات کا حصہ نہ بن سکیں‘ لہٰذا کہانی مکمل نہیں ہو پائے گی اور نہ ہی اس سے کماحقہٗ انصاف ہو سکے گا لہٰذا یہی وجہ ہے کہ تقریباً سب بیورو کریٹس اپنی سوانح عمری ریٹائرمنٹ کے بعد ہی قلم بند کرتے ہیں۔
اب آتے ہیں اگلے سوال کی طرف کہ میں اپنی خودنوشت کیسے تحریر کروں گا اور اس کے اسلوب کے خدوخال کیا ہوں گے۔ اس ضمن میں میرا رول ماڈل زمانہ طالب علمی سے ہی ''شہاب نامہ‘‘ رہا ہے جسے میں نے کئی بار پڑھا اور سی ایس ایس کے انٹرویو میں بھی یہ کتاب میری پسندیدہ کتابوں کی فہرست میں اول پوزیشن پر تھی۔ اس شہرہ آفاق خودنوشت کے ایسے کئی پہلو ہیں جن میں مجھے اپنی سوانح عمری کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ کتاب کے مصنف قدرت اللہ شہاب بطور سول سرونٹ میرے آئیڈیل رہے ہیں جن کی ذہانت، متانت اور دیانت نے انہیں ایک منفرد شخصیت و کردار کے اعلیٰ درجے پر فائز کر دیا تھا۔ دوسرا معتبر حوالہ گورنمنٹ کالج لاہور کا ہے جہاں سے قدرت اللہ شہاب نے ایم اے انگلش کیا‘ جس ادارے کے در و دیوار سے ہمیں بھی عشق کی حد تک لگائو ہے۔ ہو سکتا ہے کہ شہاب صاحب کی طرح میری خودنوشت کے صفحات میں بھی کوئی ''چندراوتی‘‘ شامل ہو جائے جس کا تعلق گورنمنٹ کالج لاہور سے ہو لیکن شاید میں اس کی کردار نگاری میں رومانویت کے وہ رنگ نہ بھر سکوں جو شہاب نامے میں ہمیں بدرجہ اتم ملتے ہیں۔ ایک حوالہ شہاب صاحب کا بطور ڈپٹی کمشنر جھنگ ہے جو میرا آبائی ضلع ہے اور جس کے پانیوں کے پاتال میں میرے آبائو اجداد کی کئی نسلوں کی جڑیں دفن ہیں۔ یہ سارے حوالے مجھے شہاب نامہ کے ادبی فن پارے کے بہت قریب کر دیتے ہیں جس میں معرفت اور روحانیت کے گہرے اثرات موجود ہیں جو میرے اسلوبِ بیان کا بھی خاصہ ہیں۔ لہٰذا اب تک میں نے یہی سوچ رکھا تھا کہ میں اپنی خود نوشت شہاب نامہ کے اندازِ بیان کی تقلید میں تحریر کروں گا۔ مگر...!
آج کل مگر ایک اور سوانح حیات نے مجھے اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے جو گزشتہ چند دنوں سے میرے زیرِ مطالعہ ہے۔ یہ کسی معروف لکھاری یا نامور ادیب کی خود نوشت ہے اور نہ ہی کسی شہرت یافتہ یا طاقتور بیوروکریٹ کی کہانی ہے۔ یہ ایک عام آدمی کی سوانح حیات ہے جو عام فہم زبان اور نہایت سادہ طرزِ تحریر میں قلمبند کی گئی ہے ۔ اسے ہر کوئی پڑھ سکتا، سمجھ سکتا ہے اور مزے لے لے کر ان واقعات اور مشاہدات کو اپنی کہانی کے ساتھ ریلیٹ کر سکتا ہے۔ اس دلچسپ خود نوشت کا سب سے خوبصورت پہلو اس کی بے باکی، برجستگی اور سادگی کے ساتھ ساتھ برمحفل لطائف اور اشعار کا تڑکا ہے جو اسے بارہ مسالے والی چاٹ بنا دیتا ہے اور جسے کھاتے ہوئے بیک وقت کئی ذائقے آپ کے حلق میں اترتے محسوس ہوتے ہیں اور جس کے ختم ہونے کے بعد بھی ہم اپنی زبان ہونٹوں پر پھیر کر مزہ دوبالا کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ اس کتاب کے مصنف بھی میری طرح ایک سادہ لوح دیہاتی ہیں اور گزشتہ دو دہائیوں سے کینیڈا میں ایک کامیاب بزنس مین ہونے کے باوجود ہر لمحہ وطنِ عزیز پاکستان کی محبت کا دم بھرتے رہتے ہیں جس کا اظہار ان کی خودنوشت میں بار بار ہوتا ہے۔ ان کی سادگی اور برجستگی میں بھی قیامت کی دلکشی ہے جو پڑھنے والے کو اپنے حصار میں جکڑ لیتی ہے اور میں خود گزشتہ چند دنوں سے ''آوازِ مسعود لِلہ‘‘ کے سحر میں گرفتار ہوں۔ مجھے خدشہ یہ ہے کہ کہیں میں اس کتاب کو مکمل پڑھ لینے تک شہاب نامہ کے ساتھ گزشتہ تین دہائیوں سے جاری اپنے شدید رومان سے ہاتھ ہی نہ دھو بیٹھوں۔ اگر میں اس ''گناہ‘‘ کا مرتکب ہوا تو اس کی مکمل ذمہ داری اس خوبصورت سوانح عمری کے مصنف مسعود لِلہ پر عائد ہو گی جس کا ''حساب‘‘ آگے چل کر انہیں دینا پڑے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں