ایک سیلفی ہو جائے!

انٹرنیٹ، اینڈرائیڈ فون اور سوشل میڈیا کے حسین امتزاج سے بہت سی منفرد عادات نے جنم لیا ہے جن میں سیلفی کو امتیازی مقام حاصل ہے بلکہ اسے اگر عادت کے بجائے وبائی مرض کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ اس کے مضمرات سے شاید ہی کوئی شخص محفوظ ہو۔ روز مرہ کے معمولاتِ زندگی میں سیلفی ایک ٹھوس حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔ شروع سے محض شوبز سٹارز، قومی ہیروز، میڈیا اینکرز، معروف سیاسی شخصیات، مشہور کھلاڑیوں اور نمایاں سماجی کرداروں کے ساتھ سیلفی کا رواج پڑا۔ عوامی اجتماع، جلسے، جلوسوں، شاپنگ مالز اور ایئر پورٹس پر ملنے والی شخصیات کے ساتھ سیلفی کو اپنے لیے اعزازسمجھا گیا۔ پھر سیلفی کو کیمرہ کے فلٹرز سے گزار کر بنائو سنگھار کر کے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس پر قابلِ فخر انداز سے پوسٹ کیا جانے لگا بلکہ پوسٹ میں اپنے احباب کو مرعوب کرنے کے لیے انہیں ٹیگ بھی کیا جاتا۔ مگر گزشتہ چند سالوں سے سیلفی کا معیار بھی اتنی ہی تیزی سے زوال پذیر ہوا ہے جتنی تیزی سے ہمارے معاشرے کے دیگر شعبہ جات اور اخلاقی قدروں میں بگاڑ کے اثرات نمایاں ہوئے ہیں۔
اب سیلفی کے لیے کوئی خاص پیمانہ ہر گز لازم نہیں بلکہ سرِ راہ جو بھی مل جائے‘ اس کے ساتھ ایک کلک کو غنیمت سمجھنے والوں کی کمی نہیں۔ ہاں البتہ سیلفی کی ایک بنیادی شرط بدستور موجود ہے اور اس کا ہر صورت میں خیال رکھا جاتا ہے کہ جس شخص کے ساتھ سیلفی لی جا رہی ہے وہ آپ کا کتنا نقصان کر سکتا ہے اور کتنا فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ اس کی طاقت، عہدہ اور جاہ و حشمت کو اپنے ساتھ منسوب کر کے دوسرے لوگوں پر اپنی دھاک کس طرح بٹھائی جا سکتی ہے۔ اپنے محلے داروں، رشتہ داروں اور شریکا برادری میں اس سیلفی کا پرچار کر کے اپنے تعلقات اور وسیع حلقہ احباب کا سکہ کس قدر بٹھایا جا سکتا ہے یہ یقینا سیلفی کے حصول کے بنیادی اغراض و مقاصد ہو سکتے ہیں۔
بات یہاں تک بھی رہتی تو خیر تھی‘ حالات اس وقت سنگین ہونے لگتے ہیں جب سیلفی کے سیاق و سباق کی وضاحت میں الفاظ کا چنائو کیا جاتا ہے اور سرِ راہ ہونے والی ایک اجنبی شخصیت سے اس دو سیکنڈ کی ملاقات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مثلاً اکثر احباب کی فیس بک ٹائم لائن پر اس طرح کی عبارت دیکھنے کو ملتی ہے: ''بھائی جان، برادرم، چاچو جان، انکل، عزیزم سے تفصیلی ملاقات، بہت سے اہم امور پر ضروری مشاورت کی گئی جن میں کئی معاملات زیرِ بحث لائے گئے ،ان میں سے اکثر میری طرف سے پیش کی گئی تجاویز سے اتفاق کیا گیا اور کئی نازک امور طے کر لیے گئے‘‘۔ گویا وہ شخصیت اس سیلفی لینے والے کے ساتھ ملاقات کے ؛ہے جتن کر رہی تھی اور اسے اس سے زیادہ ذہین، دانشمند اور زیرک مشیر میسر نہیں تھا۔ اس ساری جھوٹ موٹ کی کارروائی کا مقصد اس سیلفی کو ذاتی تعلق کی ملمع کاری سے سوشل میڈیا کی زینت بنانا، اپنے دوست احباب میں اپنی دھاک بٹھانا اور اپنے پیج پر لائکس اور کلکس کو بڑھانا ہوتا ہے۔ بات یہاں پر بھی نہیں ختم ہوتی۔ بعض شاطر حضرات ان سیلفیوں کی بنیاد پر باقاعدہ دھندا کرتے ہیں۔ مختلف سرکاری افسران اور سیاستدانوں کے ساتھ لی گئی سیلفیوں کو وہ لوگوں کے ساتھ فراڈ، لوٹ مار، جعلسازی، دھوکا دہی اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں میں استعمال کرتے ہیں۔ نوکری کے حصول کی یقین دہانی سے لے کر، تبادلے، نوکری میں بحالی اور بیرونِ ملک بھجوانے کے جھانسے تک جو شخص جہاں پھنس جائے اس ضرورت مند دیوانے کو لوٹ لیا جاتا ہے۔
بعض اوقات ان معصوم لوگوں کی یقین دہانی کرانے کیلئے ان کو اس شخصیت کے سرکاری دفتر میں ساتھ لے جایا جاتا ہے اور استقبالیہ میں بٹھا کر خود اندر جا کر عمارت کی راہداریوں میں کچھ وقت گزار کر واپس آکر انہیں پرانی سیلفیاں دکھائی جاتی ہیں اور یہ بتایا جاتا ہے کہ بات ہو گئی ہے، معاملات طے پا گئے ہیں اور بہت جلد خوشخبری مل جائے گی جو کبھی نہیں ملتی۔ صرف جیب پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے۔
بات یہاں پر بھی نہیں رکتی، کچھ استاد قسم کے لوگ ایک سیلفی کو دوسری شخصیات تک پہنچنے کیلئے سیڑھی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً کسی ایک بیچ میٹ کے ساتھ لی گئی سیلفی کو دوسرے بیچ میٹس کے ساتھ شیئر کیا جاتا ہے اور اس سیلفی کی بنیاد پر تعلقات کو مزید فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ایسے کئی عناصر سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔ بسا اوقات میری پروفائل سے ڈھونڈ کر‘ میرے کسی بیچ میٹ کے ساتھ لی گئی سیلفی مجھے میسنجر کے ذریعے ارسال کی جاتی ہے اور اس دوست کے ساتھ اپنی خاص دوستی کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ پھر چند دن بعد کسی تیسرے بیچ میٹ کے ساتھ اپنے کام کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور موصوف کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ میں اس کا کام ہر صورت کرادوں۔ یہی معاملہ میرے بھائیوں کیساتھ لی گئی سیلفی کی وجہ سے بھی پیش آتا رہتا ہے۔ میسنجرمیں بھیجی گئی سیلفی میں موصوف میرے بھائی کے ساتھ اپنے دیرینہ اور مضبوط تعلقات پر مبنی ایک متاثر کن تحریر کے ذریعے مجھ سے آفس میں ملاقات کرنے کا متمنی پایا جاتا ہے۔ کئی مرتبہ سرکاری مصروفیات کی وجہ سے ملاقات میں تاخیر کی وجہ سے اضطراب کی کیفیت بڑھ جاتی ہے جو تواتر سے نمایاں ہونے لگتی ہے۔ جب دوسری طرف صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے تو اگلی صبح میسنجر کے انباکس میں کسی سینئر سول سرونٹ کے ساتھ تعلقات کا حوالہ دیا جاتا ہے جس کی بنیاد یقینا کچھ وہ تصاویر ہو سکتی ہیں جو میری فیس بک ٹائم لائن پر موصوف نے دیکھ رکھی ہوتی ہیں۔ اس عبارت میں ایک دکھ بھری داستان اور اس آفیسر سے متعلقہ کام کی اہمیت اجاگر کی گئی ہوتی ہے اور ایک ہی اصرار کہ میں اس سیلفی والی سرکار کا کام کروا کر سرخرو ہو جائوں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہی سیلفی جب میں اپنے بھائی یا کسی بیچ میٹ کو بھیج کر تصدیق کروں تو اکثر وہ موصوف کو پہچان ہی نہیں پاتے اور اس سے لاتعلقی کا اظہار کر دیتے ہیں۔ اب ایسی تفتیش اور تصدیق ہر روز کون کرے؟
لہٰذا سوشل میڈیا کی اس یلغار میں شادی بیاہ یا کسی بھی دوسری سماجی تقریب میں سیلفی لینے والے حضرات سے باقاعدہ محتاط رہنا پڑتا ہے۔ بظاہر آپ کو ایک سیلیبرٹی بنا کر آپ کے ساتھ سیلفی لینے والے کے درپردہ مقاصد بھی ہو سکتے ہیں‘ اس کا ادراک ہونا ضروری ہے۔ خاص طور پر ایسے حضرات جن سے آپ واقف نہ ہوں‘ ان سے ضرور محتاط رہیں۔ ایک سینئر سول سرونٹ جو میرے مہربان بھی ہیں‘ مجھے گزشتہ برس اس حوالے سے اپنا ایک ذاتی تجربہ بتا رہے تھے کہ ان کے آفس میں ایک صاحب انہیں ملنے آئے‘ اس کے ساتھ ایک اور شخص بھی تھا۔ چائے کا کپ پی کر اٹھتے ہوئے انہوں نے ایک سیلفی کی فرمائش کر ڈالی جسے وہ ازراہِ مروت نہ ٹال سکے۔ کچھ عرصہ بعد انہیں ایک شخص ملنے آیا جس سے تین لاکھ روپے اس فراڈیے نے ہتھیا لیے تھے جو تقریبا ایک ماہ قبل ان کے ساتھ سیلفی لے کر گیا تھا۔ میرے اس سینئر مہربان نے ایف آئی اے کے ذریعے اسے گرفتار کرایا اور بیرونِ ملک نوکری کے جھانسے سے لوٹی گئی رقم واپس نکلوائی اور اس مظلوم شخص کی داد رسی کی۔
وہ مجھے اپنی اس آپ بیتی کے ذریعے متنبہ کر رہے تھے کہ میں ہر اس شخص سے احتیاط کروں جو ملتے ہی یہ کہے کہ سر ایک سیلفی ہو جائے۔ یقینا سیلفی سے انکار تکبر، رعونت اور گھمنڈ کی علامت بھی سمجھا جا سکتا ہے اور اس کا یہ بھی ہر گز مطلب نہیں کہ ہر سیلفی لینے والا شخص مجرمانہ سرگرمیوں کا ارتکاب کرتا ہے۔ کچھ لوگ صرف اپنا شوق پورا کرتے ہیں، کچھ واقعی آپ سے انسپائر ہوتے ہیں، کچھ آپ کے ساتھ اخلاص اور سچائی پر مبنی ایک صاف ستھرا تعلق استوار کرنا چاہتے ہیں، کچھ اپنے سوشل نیٹ ورک میں ایک اچھے انسان کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔اس ضمن میں مَیں خاصا عوامی مزاج کا حامل واقع ہوا ہوں اور حسنِ ظن رکھتا ہوں مگر اس قسم کے شاطر فنکاروں کی استادی سے احتیاط بہرطور لازم ہے جو آپ کو اگر کسی جنازے پر بھی مل جائیں تو یہی کہتے ہیں: سر‘ ایک سیلفی ہو جائے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں