40روپے کی ایف آئی آر

آج سے لگ بھگ دو دہائیاں قبل میں جب انسپکٹر کے رینک پر فائز تھا‘ فیصل آباد کے ایک شہری علاقہ میں بطور ایس ایچ او تعینات تھا ۔ ایک روز حسبِ معمول بسلسلہ تفتیش مقدمہ کچھ زیرِ حراست ملزمان سے پوچھ گچھ میں مصروف تھا کہ اچانک ایس ایس پی صاحب کے ریڈر نے مجھے بذریعہ ٹیلیفون اطلاع دی کہ صاحب مجھے فوری اپنے دفتر طلب فرما رہے ہیں۔ لہٰذا میں سرکاری گاڑی پر سوار ہو کر فوراً ایس ایس پی صاحب کے دفتر کی جانب روانہ ہو گیا۔ ایس ایس پی صاحب کے دفتر کے باہر موجود اہلکار نے مجھے دیکھتے ہی اندر جانے کا اشارہ کیا اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ صاحب میرا انتظار کر رہے ہیں۔ میں نے اندر جاتے ہی سلیوٹ کیا۔ ایس ایس پی دفتر سائلین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ دفتر میں دونوں اطراف میں لگائی گئی کرسیوں پر مختلف لوگ براجمان تھے جبکہ ایس ایس پی صاحب کے میز کی دائیں طرف لگائی گئی ایک خصوصی کرسی پر ایک صاحب ٹانگ پر ٹانگ دھرے دوسروں سے منفرد اور کچھ نمایاں دکھائی دے رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی وہ صاحب پولیس کے تمام کردہ اور ناکردہ ''جرائم‘‘ کی تفصیلات گنوانے لگے اور فیصل آباد شہر کی ''بگڑتی‘‘ ہوئی امن عامہ کی صورتِ حال پر بے لاگ تبصرہ کرنے لگے۔ اسی دوران ان صاحب نے اپنی ڈائری میں رکھی ہوئی ایک درخواست نکالی اور ایس ایس پی صاحب کے سامنے پیش کر دی۔ ایس ایس پی صاحب نے اسے پڑھنا شروع کیا اور پھر وہ صاحب گویا ہوئے کہ جناب! پرچہ درج کرنے کے احکامات جاری کریں اور ایس ایچ او کو تاکید کریں کہ وہ ملزم کو فوری گرفتار کرے اور ریکوری بھی کرائے۔ ایس ایس پی صاحب نے درخواست پر چند جملے لکھے اور درخواست میرے حوالے کرتے ہوئے ان صاحب کا تعارف کرایا کہ یہ ایک قومی جریدے کے بیورو چیف ہیں اور جرائم کی بیخ کنی میں پولیس کی معاونت کرتے رہتے ہیں۔ میں نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ میں حسبِ ضابطہ کارروائی عمل میں لاتے ہوئے بہت جلد اس درخواست کو نمٹا دوں گا اور ایس ایس پی آفس کو اس سے مکمل طور پر آگاہ بھی رکھوں گا۔ میں نے ان صاحب سے موبائل نمبر لے کر درخواست کے پیچھے لکھ لیا اور ایس ایس پی دفتر سے نکل آیا۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی میں نے درخواست کو نکال کر پڑھا کیا تو معلوم ہوا کہ سائل کا سکریپ کا کاروبار ہے اور دو روز قبل دوپہر کے وقت اس کے کباڑ خانے سے کچھ لوہا چوری ہوا ہے جس کی مالیت کم و بیش دس ہزار روپے درج تھی۔ درخواست میں مشتبہ ملزم کا نام اور ایڈریس بھی درج تھا اور بتایا گیا تھا کہ چوری والے دن وہ کباڑ کے گودام کے اردگرد منڈلاتا نظر آیا تھا لہٰذا سائل کو پختہ یقین تھا کہ اس کے سکریپ کا چور وہی لڑکا ہے جس کی عمر لگ بھگ بیس‘ بائیس درج تھی۔ بطور ایک پولیس آفیسر اس درخواست میں موجود کھلا تضاد دیکھ کر میں دل ہی دل میں مسکرانے لگا۔ دو دہائیوں قبل دس ہزار مالیت کا لوہا اٹھانے کے لیے کم از کم تین‘ چار افراد کا ہونا ضروری تھا۔ یہ ناممکن تھا کہ ایک لڑکا اتنا بھاری مال اکیلے اٹھا سکتا اور وہ بھی دن دہاڑے‘ دوپہر کے وقت جبکہ اس کباڑ کے گودام کے چہار اطراف دکانیں کھلی تھیں اور کاروبارِ حیات معمول کے مطابق چل رہا تھا۔ خیر میں نے تھانے پہنچتے ہی تین‘ چار چاق و چوبند ملازمین پر مشتمل ایک مستعد ریڈنگ پارٹی تشکیل دی اور انہیں احکامات دیے کہ وہ ہر حالت میں ملزم کو گرفتار کر کے میرے سامنے پیش کریں تا کہ ایس ایس پی صاحب کو بروقت کارروائی کر کے آگاہ کیا جا سکے۔
تقریباً ایک گھنٹے بعد ریڈنگ پارٹی ناکام واپس لوٹی اور بِیٹ افسر منہ لٹکائے میرے سامنے موجود تھا۔ میرے استفسار پر وہ بتانے لگا کہ ہم اس ملزم کے گھر تک پہنچنے میں تو کامیاب ہو گئے تھے مگر اس چھوٹے سے کچے گھر میں موجود بوڑھے والدین سے پتا چلا کہ ان کا بیٹا محنت مزدوری کے لیے صبح سویرے گھر سے نکل جاتا ہے اور شام ڈھلے ہی واپس لوٹتا ہے لہٰذا اس وقت اسے گرفتار کرنا ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ اے ایس آئی کی وضاحت خاصی معقول تھی مگر میں ایس ایس پی صاحب کی تاکید اور ان کے لب و لہجے کی سنگینی کے سبب شام تک انتظار کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا لہٰذا میں نے اے ایس آئی کو ڈانٹتے ہوئے دوبارہ مشن پر روانہ ہونے کے لیے سختی سے حکم دیا اور یہ بھی باور کرایا کہ اب وہ ملزم کو گرفتار کر کے ہی میرے سامنے آئے۔
تقریباًتین گھنٹے بعد مجھے محرر تھانہ نے اطلاع دی کہ ریڈنگ پارٹی نے مطلوبہ ملزم کو گرفتار کر لیا ہے اور اب وہ اسے تھانے کی طرف لا رہے ہیں۔ میں نے درخواست پر درج مدعی کا نمبر ڈائل کر کے اسے یہ خوشخبری سنائی کہ ملزم گرفتار ہو چکا ہے اور وہ تھانے آ جائیں تاکہ ان کی موجودگی میں اس مبینہ واردات سے متعلق تفتیش کر کے اصل حقائق تک پہنچا جا سکے۔ یہ خبر سن کر موصوف کافی خوش ہوئے اور کچھ ہی دیر بعد میرے دفتر آن پہنچے۔ کچھ دیر بعد ریڈنگ پارٹی بھی ملزم کو لے کر تھانے پہنچ گئی اور اے ایس آئی مطلوبہ ملزم کے ہمراہ میرے دفتر میں داخل ہوا۔ وہ لڑکا پسینے سے شرابور تھا۔ بغیر قمیص کے‘ صرف مٹی آلود بنیان اور شلوار پہنے‘ جو اس نے گھٹنوں تک اوپر چڑھائی ہوئی تھی‘ وہ میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ اس کے پائوں گارے سے اَٹے ہوئے تھے۔ میں نے اسے غور سے دیکھا تو اے ایس آئی نے وضاحت پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وہ فلاں علاقے میں ایک زیرِ تعمیر بلڈنگ میں مزدوری کر رہا تھا جب اسے گرفتار کیا گیا اور اسی حالت میں ہمارے جوان اسے دبوچ کر تھانے لائے ہیں۔ میں ملزم سے مخاطب ہوا اور درخواست میں درج کباڑ کے گودام سے چرائے گئے لوہے کے بارے میں دریافت کیا۔ اس نے بلا تاخیر اپنے ''جرم‘‘ کا اعتراف کر لیا اور کہنے لگا ''جی صاحب! میں نے ہی وہاں سے لوہا اٹھایا تھا‘‘۔ میں نے اگلا سوال پوچھا کہ کیا وہ اکیلا تھا یا اس کے دیگر ساتھی بھی اس جرم میں شریک تھے؟ جس پر اس نے جواب دیا کہ ''نہیں صاحب! اور کوئی نہیں تھا اور میں اکیلا ہی اس ''واردات‘‘ کا مرتکب ہوا تھا۔
میں نے مزید پوچھا کہ اس نے کتنا لوہا اٹھایا اور اسے کہاں بیچا تاکہ اس کی برآمدگی کی جا سکے۔ اس پر اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے اور وہ روتے ہوئے کہنے لگا کہ صاحب! پرسوں میں دوپہر تک دیہاڑی کے انتظار میں پھرتا رہا مگر کوئی کام نہیں ملا۔ سخت بھوک لگی تھی‘ گودام کے پاس سے گزرا تو سکریپ کی دکان پر بیٹھے بابا جی کی آنکھ لگی دیکھ کر مجھے وہاں سے کچھ لوہا چوری کرنے کا موقع مل گیا۔ وہ لوہا میں نے وہیں پر چند دکانیں چھوڑ کر ایک دوسری سکریپ کی دکان پر چالیس روپے میں بیچ دیا تھا اور اس کے بعد ان پیسوں سے خود بھی روٹی کھا لی اور اپنے بوڑھے ماں باپ کے لیے بھی کھانا گھر لے گیا۔ بس اتنا ہی لوہا اٹھایا تھا جس سے ہم تینوں نے اس دن کھانا کھا لیا تھا۔ اس کا جواب سن کر میں لرز گیا اور اے ایس آئی کو کہا کہ وہ اسے باعزت اس کے گھر چھوڑ کر آئے۔ اس کے بعد میں اس سفارشی شخصیت کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ وہ میری راہ نمائی کریں کہ چالیس روپے کے لوہے کی چوری‘ جو اس نے اپنی بھوک مٹانے کے لیے کی‘ اس پر تعزیراتِ پاکستان کی کون سی دفعہ کے تحت پرچہ درج کیا جائے۔ میں نے انہیں یہ بھی پیشکش کی اگر مالِ مسروقہ کی برآمدگی ہی درکار ہے تو چالیس روپے میں اپنی جیب سے ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔ موصوف نے کوئی جواب نہیں دیا اور اپنی ڈائری اٹھا کر جانے لگے، اس پر میں نے دوبارہ سوال کیا کہ اس مختصر تفتیش کے متعلق ایس ایس پی صاحب کو وہ خود بتانا پسند کریں گے یا میں ہی یہ کشٹ اٹھا لوں؟ اس پر انہوں نے نظریں چرائیں اور تیزی سے میرے دفتر سے نکل گئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں