ملک بھرکی طرح خیبر پختونخوا کے سیاسی ڈھانچے میں برپا ہونے والا ارتعاش کسی نئے بندوبست کی تشکیل کا نقیب ثابت ہو گا یا پھر یہی تغیرات نو سال تک صوبے میں حکمرانی کا ناقوس بجانے والی پی ٹی آئی کا تنظیمی ڈھانچہ تتربتر کرکے نئی پیچیدگیاں پیدا کرے گا‘ جو دہشت گردی کے ہاتھوں پامال اس حساس صوبے کو تا دیر وقفِ اضطراب رکھیں گی ؟ پنجاب اور سندھ میں تو روایتی سیاسی قوتیں اس کشمکش کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلا کو پُر کر سکتی ہیں لیکن خیبرپختونخوا میں جے یو آئی سمیت کوئی پارٹی اس اونچ نیچ کو سنبھال نہیں پائے گی کیونکہ سوشل میڈیا ٹیکنالوجی کے اس عہد میں سیاسی عوامل کی من مرضی کی تعمیرِ نو ممکن نہیں رہی؛ چنانچہ داخلی و خارجی عوامل از خود نئے عہد کی تشکیل کا تعین کریں گے۔ تاہم ان ساری لن ترانیوں کے باوجود خطے کی سیاست میں کارفرما روایتی قوتیں خاص طور پر جے یو آئی، پیپلزپارٹی اور کسی حد تک مسلم لیگ نواز پیدا ہونے والے خلا سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔
شمالی خیبرپختونخوا میں نواز لیگ کے صوبائی صدر امیرمقام نے پارٹی کا دائرہ اثر بڑھانے کیلئے کئی مؤثر گروپوں کو ہمنوا بنا لیا ہے، اسی طرح مولانا فضل الرحمن بھی وسطی اضلاع میں چند الیکٹ ایبلز کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہوئے ہیں؛ تاہم تمام تر خوف و ترغیب کے باوجود پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کم ہوا ہے نہ ہی اب تک کسی رہنما نے‘ پارٹی چھوڑنے کے باوجود‘ کسی دوسری جماعت میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے۔ خیبرپختونخوا کے ماحول پہ ایک قسم کی بے یقینی کی تاریکی فگن ہے۔ یار لوگوں کو ساری امیدیں سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک سے وابستہ ہیں۔ یہ بجا کہ کئی ملک گیر جماعتوں کی طرف سے پرویز خٹک کو اپنانے کی افواہیں گرم ہیں لیکن کسی بھی بڑی جماعت کیلئے اتنی نمایاں پوزیشن رکھنے والی شخصیت کو پارٹی میں ایڈجسٹ کرنا دشوار ہوگا‘ سوائے پی پی پی کے‘ جو خیبر پختونخوا میں کم و بیش ناپید ہو چکی ہے۔ دوسری کوئی بھی جماعت خٹک صاحب جیسے لیڈرکو وزارتِ اعلیٰ کا منصب پیش نہیں کر سکتی۔ اس لیے غالب امکان ہے کہ پرویز خٹک نوزائیدہ استحکام پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر جوڑ توڑ کی سیاست میں اہمیت پانے کی کوشش کریں گے۔ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع خاص طور پر ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں مولانا فضل الرحمن اُس سیاسی خلا کو پُر کرنے میں مصروف ہیں جو علی امین گنڈا پور جیسے پی ٹی آئی کے فعال رہنما کے پس منظر میں جانے کے بعد پیدا ہوا۔
پچھلے ڈیڑھ سال میں مولانا صاحب کی دعوت پہ وزیراعظم شہبازشریف نے ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے تین دورے کرکے کئی ترقیاتی منصوبوں کا سنگِ بنیاد رکھا ہے۔ خاص طور پر اس خطے میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے چند بڑے پروجیکٹس‘ جن میں پنجاب کے ضلع سرگودھا کو کلور کوٹ کے راستے سی پیک سے ملانے سمیت ڈیرہ غازی کو سی پیک کے مغربی روٹ سے جوڑنے کی خاطر براستہ رمک‘ اربوں روپے مالیت کے بڑے منصوبے‘ جو اس وقت زیرِ تعمیر ہیں۔سی پیک پروجیکٹ کے تحت ڈیرہ اور لکی مروت کے سنگم پہ کارگو ایئرپورٹ بنانے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ دو ماہ قبل مولانا فضل الرحمن نے ڈی آئی خان میں واپڈا کا نیا سرکل آفس بنوا کر شہریوں کا دیرینہ مطالبہ پورا کیا، ٹانک کو سی پیک سے ملانے والی دو رویہ سڑکوں کی تعمیر کے علاوہ بائی پاس روڈ توسیع منصوبے پر بھی جنگی بنیادوں پہ کام شروع کر دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے نو سالہ دورِ حکومت میں بلند آہنگ نعروں اور سیاسی مخالفین کے خلاف جارحانہ میڈیا مہمات کے الرغم جنوبی اضلاع بالخصوص ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کو نظرانداز رکھا گیا۔ بیوٹیفیکیشن اور نکاسیٔ آب کے نالوں کے سوا اس خطے کو کوئی قابل ذکر پروجیکٹ نہیں ملا۔ پی ٹی آئی کے پہلے دورِ حکومت میں جب مرکز میں نواز لیگ کی حکومت تھی‘ تب بھی مولانا صاحب کی مساعی کی بدولت وزیراعظم نوازشریف نے اپریل 2016ء میں سی پیک کا سنگ بنیاد رکھتے وقت یہاں زرعی یونیورسٹی اور دریائے سندھ پہ لدھو مارجنل بند جیسے دو بڑے منصوبوں کا وعدہ کیا تھا۔ اُس وقت وفاقی حکومت نے سی پیک کے مغربی روٹ پر تو کام شروع کرا دیا تھا لیکن زرعی یونیورسٹی اور بند کی تعمیر کی راہ میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے ایسے روڑے اٹکائے کہ وہ آج تک سٹریم لائن نہیں ہو سکے۔ اس سے قبل متحد ہ مجلس عمل کے دورِ حکومت میں بھی ڈی آئی خان میں گومل میڈیکل کالج، بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکشن، مفتی محمود لائبریری، ڈویژنل ہیڈکوارٹر ہسپتال اور مفتی محمود پبلک سکول سمیت دو بوائز اور ایک گرلز ڈگری کالج بنوائے گئے۔ بلاشبہ مولانا صاحب کی ترقی پہ مبنی سیاست ہی ڈی آئی خان جیسے نظرانداز کردہ خطے کو مرکزی دھارے میں لانے کا وسیلہ بنی۔ خاص طور پر انفراسٹرکچر کی تعمیر سے مقامی معیشت کے علاوہ تہذیب و ثقافت کا تنوع بڑھا۔
دنیا بھر کے ماہرین ترقی پذیر ممالک میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو اقتصادی ترقی کے بڑے محرک کے طور پہ دیکھتے ہیں مگر یہاں کمزور گورننس، مسخ شدہ عوامی سرمایہ کاری اور بدعنوانی جیسے منفی عوامل بنیادی ڈھانچے کی توسیع کے فوائد کو پراگندا رکھتے ہیں؛ تاہم پھر بھی انفراسٹرکچر کی تعمیر کے نتیجے میں بین الاضلاعی روابط یا باہمی آمدنی بڑھنے سے اقتصادی جمود ٹوٹ سکتا ہے بلکہ شاہراہیں، پل، بندرگاہیں، نقل و حمل کے نیٹ ورکس، ٹیلی کمیونیکیشن سسٹم، تعلیم اور صحت کا بنیادی ڈھانچہ کافی حد تک عدم مساوات سے نمٹنے میں مدد دیتا ہے، البتہ جنگِ دہشت گردی کی وجہ سے پامال اِس خطے میں سیاسی، سماجی اور اقتصادی تعمیرِ نو کیلئے تین بڑے اقدام لازمی ہیں؛ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے علاوہ سیاسی نظم و ضبط، ترقیاتی منصوبوں سے ریاستی اداروں کی علیحدگی اور سرکاری اداروں کے مابین کوآرڈی نیشن کے فقدان کو دور کرنا از بس ضروری ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو یہ بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ تعمیرِ نو سے مقامی باشندوں کو زیادہ فائدہ پہنچے کیونکہ ضم شدہ اضلاع میں صنعتی ترقی، نقل و حمل کی آزادی، زمین کی نجی ملکیت اور تعلیمی اداروں میں ترجیحی بنیادوں پہ توسیع نہایت اہمیت کی حامل ہو گی۔ پچھلی دو دہائیوں کے دوران یہاں خوف کی وجہ سے نسلی و قبائلی تعصبات گہرائی تک سرایت کر چکے ہیں اس لیے غیرمشروط آزادی ہی خوف پہ مبنی ان جبلی تعصبات کو تحلیل کر سکے گی۔ ضم شدہ اضلاع کی معیشت اندرون و بیرون ملک مشقت اور چھوٹی موٹی تجارت پہ منحصر ہے، اس لیے باغبانی اور جنگلات کی افزائش کے علاوہ کاشتکاری کی حوصلہ افزائی کے ذریعے متبادل ذرائع پیدا کرکے بڑھتی ہوئی نقل مکانی کے رجحان پہ قابو پایا جائے۔ تشدد کو روکنے اور تعمیرِ نو کے سیاسی و مادی فوائد کے تحفظ کی خاطر امورِ مملکت میں عوام کی شرکت اور غصب شدہ سماجی آزادیوں کی بحالی ضروری ہوگی لیکن بوجوہ حکومت تشدد پہ قابو پانے کیلئے عوامی پشت پناہی کی حامل پالیسی اور ادارہ جاتی ہم آہنگی پیداکرنے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔
مغرب کی جدید فن حکمرانی کے تحت یہاں بھی دائیں بازو کے غلبے کا خوف پھیلانے والی قوتوں کو ابھرنے کا موقع دے کر تضادات پہ قابو پانے کی کوشش کی گئی۔ پی ٹی ایم نے بھی دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کی طرف سے تشدد اور بنیادی آزادیوں کو محدود کرنے کی روش کے نتیجے میں پیدا ہونے والے احساس کو غصے اور ردعمل کے طور پر ظاہر کرکے نیا بیانیہ بنا لیا لیکن یہی غصہ دائیں بازو کی جماعتوں کی پیش دستی کو مزید بڑھانے کا جواز بھی بنتا ہے۔ چنانچہ ایک عملی معاملے کے طور پر غیر یقینی حالات میں ابھرنے والے خدشات کو دور کیے بغیر سیاسی اصلاحات کی راہ ہموار نہیں ہو پائے گی کیونکہ فضا جذبات سے لبریز ہے اور نیورو سائنس کے محققین کہتے ہیں کہ جذبات جو کچھ کرتے ہیں وہ ہمارے شعور کے لیے ناقابل رسائی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جذبات اتنی سرعت سے کام کرتے ہیں کہ شعوری ذہن اسے سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ اس تفہیم سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہم نمایاں طور پر اپنی پالیسی پہ نظر ثانی کریں تاکہ جذباتی عوامل کو ریگولیٹ کرنے کی خاطر جمہوری شہریت پر سوچ کو تشکیل دیا جا سکے۔