فی الوقت ہماری مملکت کو چالیس سالوں پہ محیط جنگوں کے نتیجہ میں منہدم انفراسٹرکچر کی تعمیرِنو اور سیاسی و مذہبی جدلیات میں منقسم قوم کو وسیع تر سیاسی مفاہمت تک لانے جیسے چیلنجز درپیش ہیں۔پچھلے پچیس سالوں سے معاشی مشکلات کے باعث عالمی مالیاتی اداروں کا دباؤ‘سیاسی تضادات اور دہشتگردی کے عفریت نے اجتماعی حیات کو وقفِ اضطراب رکھا اور اب آئی ایم ایف کی ہدایت پر جاری اقتصادی اصلاحات کے باعث ایسا عوامی ردعمل پنپ رہا ہے جو پہلے سے موجود سیاسی عدم استحکام کو دوچند کر سکتا ہے۔ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی کم ہوتی قدر اور بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھنے سے روز مرہ استعمال کی اشیا بتدریج مہنگی ہو رہی ہیں۔ اگرچہ سڑکوں پہ کوئی احتجاج نظر نہیں آتا تاہم زیادہ تر لوگ غربت کی لکیر سے نیچے اُتر رہے ہیں‘یہ تعداد اگلے چند سالوں تک مزید بڑھ جائے گی‘بالخصوص خواتین کیلئے تعلیم‘صحت اور روزگار کا حصول دن بدن دشوار ہو رہا ہے۔بے نظیر انکم سپورٹ سکیم نہ صرف ناکافی ہے بلکہ انتظامی پیچیدگیوں اور استفادہ کرنے والوں کے امتیازی انتخاب بارے شکایات سے بھری پڑی ہے۔سرکاری سکولز اور یونیورسٹیز کا گرتا ہوا معیارِ تعلیم‘انتظامی بحران اور مالیاتی زبوں حالی نے طلبہ کیلئے تعلیمی عوامل کو بے سود بنا دیا ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں ضرورت سے کم سہولیات‘ ڈاکٹروں اور نرسوں کی بدعنوانی و نااہلی کے علاوہ ناقص ادویات جیسا سنگیں بحران‘ آئے روز مریضوں کی اموات کی شرح بڑھا رہا ہے۔ان تمام مسائل کی تہہ میں ایک بہت بڑی اکثریت کو درپیش کم آمدنی کا آشوب کار فرما ہے؛ چنانچہ وہ قطاریں جو کبھی یوٹیلیٹی سٹورز کے سامنے نظر آتی تھیں اب غیر ملکی سفارت خانوں کے سامنے ویزا حاصل کرنے والوں کی دکھائی دیتی ہیں۔آئی ایم ایف کے کفایت شعاری کے اقدامات جنہوں نے پہلے ہی معاشرے کے متوسط گھرانوں کے علاوہ کمزور طبقوں کو بھی غیر متناسب طور پر متاثر کیا‘ایسے اقدمات نچلے طبقوں کے معاشی حالات کو مزید بگاڑ رہے ہیں‘ بلکہ معاشی بحرانوں کے سبب طبقاتی تضادات بڑھ کر معاشرے کو متلاطم رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کوئی ان حقائق کو نظر انداز کر کے آئی ایم ایف کی ہدایات کو تھوڑا سا کریڈٹ بھی دے تو کرپشن کا کلچر اِن تمام معاشی اصلاحات کو بے اثر کر دے گا۔بدعنوانی ایک ایسی بائنڈنگ فورس بن چکی ہے جو اقتدار پہ متصرف گروہوں کو آرگنائز رکھتی ہے۔اس لئے ماضی میں انسدادِ بدعنوانی کی بہت سی قانون سازی نفاذ کے مراحل میں اپنی تاثیر کھو بیٹھی۔اس میں کوئی تعجب نہیں کہ اوپر سے نیچے تک پھیلی کرپشن نے اربابِ بست و کشاد کی بصیرت کو کند کر دیا‘اسی طرح‘ بدعنوانی نہ صرف ایک ادارے کے طور پر پروان چڑھ کر گورننس کا حصہ بن گئی بلکہ ملک کے سیاسی کلچر کا ایک لازم و ملزوم عنصر بھی بن چکی ہے‘لہٰذا جب تک اس برائی کو جڑ سے اکھاڑا نہیں جاتا کسی قسم کی معاشی اصلاحات کارگر ثابت نہیں ہو سکیں گی۔
کراچی جو ملک کا ستّر فیصد ریونیو فراہم کرنے والا میٹروپولیٹن شہر ہونے کے ناتے ہماری قومی معیشت کی شہ رگ ہے‘ وہاں کے تاجروں‘ صنعتکاروں اور بلڈرز نے ریاستی اداروں سے اعلیٰ سطحی رابطوں میں سیاسی بدعنوانی پہ گہرے تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر سندھ پھر زرداری صاحب کے حوالے کیا گیا تو وہ اپنی صنعتوں اور سرمایہ کو دوسرے ممالک منتقل کرنے پہ مجبور ہوں گے؛چنانچہ مقتدرہ کراچی اور حیدرآباد کے صنعتی کاروباری ڈھانچہ کے تحفظ کیلئے قانون سازی کے علاوہ ایسی سیاسی اصلاحات پہ کام کر رہی ہے جس سے سندھ کے اقتصادی نظام پہ مسلط''سسٹم‘‘ کو کاؤنٹر کیا جا سکے۔سسٹم کی یہ اصطلاح سندھ میں وفاقی اور صوبائی انتظامیہ کے متوازی ایک ایسا مبینہ نظام تھا جسے'' انگوروں سے رس کشید کرنے‘‘ کیلئے پوری مہارت سے استعمال کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں اندرون سندھ کی زراعت سے جڑے کاروبار کو فریال تالپور‘ شہری زمین اور تعمیرات سے وابستہ دھندہ کو علی حسن زرداری اور بیوروکریسی میں پوسٹنگ ٹرانسفر کو مینج کرنے کی خاطر آصف علی زرداری کے سابق اے ڈی سی جلال خان کو ڈیفیکٹو پاور حاصل تھیں۔اسی سسٹم کی چونکا دینے والی تفصیلات جلد منظر عام پہ آنے والی ہیں۔اقتصادی برادری اس سسٹم سے نجات پانے کی خاطر گاہے گاہے آرمی چیف کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرتی رہی۔اس لئے سندھ میں معاشی اصلاحات کے ساتھ ساتھ سیاسی جمود کو توڑنا ناگزیر ہے۔
ذرائع کے مطابق ایس آئی ایف سی کی چھتری تلے گلف کی ایک بڑی تعمیراتی کمپنی کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد میں 16بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کیلئے تیار ہے۔7 نومبر کو متذکرہ بالا کمپنی کے نمائندے کراچی میں آل پاکستان بلڈرز ایسویسی ایشن کے نمائندوں سے اعلیٰ سطحی مذاکرات کریں گے۔اسی طرح یو اے ای کے سلطان النہیان بھی یہاں جدید زراعت کے شعبہ میں 20 بلین ڈالر سے زائدکی سرمایہ کاری پہ راضی ہیں۔معتبر ذرائع بتاتے ہیں کہ اس اہم اقتصادی پیش رفت کے دوران گلف کی چار بڑی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پہ آمادہ کرنے میں سابق گورنر سندھ عشرت العباد کا کردار اہم ہے؛چنانچہ یہ عین ممکن ہے کہ اگلے سیاسی بندوبست میں عشرت العباد کو زیادہ اہم رول دیا جائے۔تین کروڑ کے لگ بھگ اُردو بولنے والوں کی نمائندہ پارٹی ایم کیو ایم کو دوبارہ منظم ہونے کے مواقع فراہم کرنے کے علاوہ اس جماعت کا سافٹ امیج ابھارنے کی خاطر عشرت العباد سارے دھڑوں کو یکجاکرکے متحدہ قومی موومنٹ کو معروف جمہوری عمل کے ذریعے سندھ کی وزارت اعلیٰ یا ممکنہ طور پہ کراچی کا پورا اختیار یا پھر دوبارہ سندھ کی گورنری تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی برگشتہ سیاست کو ریگولیٹ کرنے کی خاطر ملک گیر جماعتوں کے دائرہ اثر کو بڑھانے کیلئے (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے راہیں کشادہ کی جا سکتی ہیں کیونکہ علاقائی اور نسلی عصبیتوں پہ استوار جماعتوں سے بے زار متذکرہ بالا دونوں صوبوں کے عوام اب قومی دھارے کی سیاست سے منسلک ہونے کو بیتاب ہیں۔ حساس اداروں نے ریاستی مقتدرہ کو رپوٹ دی ہے کہ بلوچستان میں شفاف الیکشن ہی سیاسی اصلاحات کا محرک اور اس نظراندازہ کردہ صوبے کو ملک کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کا وسیلہ بن سکتے ہیں‘ بصورت دیگر روایتی سرداروں کی جمود پرور سوچیں دونوں حساس صوبوں میں سیاسی وسماجی ارتقا اور معاشی اصلاحات کے ثمرات عام آدمی تک پہنچانے کی راہ میں حائل رہیں گی۔خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کئی صاحب الرائے رہنماؤں نے میاں نوازشریف کو مشورہ دیا کہ وہ خیبر پختونخوا کے بعد بلوچستان کا دورہ کرکے پون صدی سے مسائل کی چکی میں پستے عوام کی دلجوئی کریں۔جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی(BAP) کے لیڈراور سابق وزیر اعلیٰ جام کمال نے آصف علی زرداری سے ملاقات کرکے انہیں بلوچستان کی سیاست میں فعال رول ادار کرنے کی ترغیب دی تاکہ بلوچ عوام کو ملک گیر جماعتوں سے منسلک کرکے ترقی کے مرکزی دھارے کا جُز بنایا جا سکے۔
ہر چند کہ سیاسی مفاہمت کا معاملہ حالات کے جبر کے تحت وجود پاتا ہے‘اسی لئے مقتدرہ نے سیاسی عوامل سے نمٹنے کی خاطر قومی مفاہمت کی ایسی قابلِ عمل سکیم تیار کر لی ہو گی جو ملکی گیر ایشوزکے علاوہ نسلی و لسانی مفاہمت کے امور پر بھی لاگو ہو گی۔ درحقیقت‘آزادی کے بعد نسلی و لسانی کشمکش کوئی حادثاتی عمل نہیں تھی بلکہ یہ عالمی طاقتوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے قوم کو داخلی طور پہ منقسم رکھنے کی پالیسی کا لازمی نتیجہ تھا۔سرد جنگ کے دوران عالمی طاقتوں نے اپنے مہروں کو نوزائیدہ مملکت پہ حتمی تصرف کے لائسنس سے نوازا تاکہ وہ کسی کو جوابدہ نہ ہوں‘ یوں کرپشن آمریتوں کی گود میں پروان چڑھی۔ یہاں تک کہ اسی تال میل میں عدلیہ بھی اپنی آزادی کھو بیٹھی اور اسے پاورکرپشن اور سیاست کے درمیان تعلق کو مضبوط بنانے کا آلہ بنا لیا گیا۔