خطۂ دامان کے معروف شاعر سعید احمد اختر مرحوم کے انتخابِ کلام ''ثمرِحیات‘‘ کا نسخہ میرے پیشِ نظر ہے جس کے مقدمہ میں ان کے بیٹے خاور احمد نے اپنے والد کی مختصر سوانح اور اُس تہذیبی و تمدنی پس منظر کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جس سے نجات پانے کی تگ و دو نے سعید احمد اختر کو شاعر اور فلسفی بنا دیا تھا‘ تاہم اطاعت گزار بیٹے کی مانند خاور احمد نے اس خطے کے تاریخی مظاہر کو افسانوی رنگ دے کر اپنے والدِ بزرگوارکے خاندانی پس منظر کو سنوارنے کی کوشش میں کئی تاریخی حقائق مسخ کر ڈالے‘ بالخصوص پنجاب سے ڈیرہ اسماعیل خان تک آرائیں اقوام کے پہنچنے کے ذکر میں وہ یہ بھول گئے کہ پندرہویں صدی تک پنجاب نام کا کوئی خطہ وجود نہیں رکھتا تھا۔ برصغیر میں تین دوآبے تھے‘ پہلی بار مغلیہ عہد میں لکھی گئی تاریخِ شیر شاہ سوری میں پنجند اور پھر تزکِ جہانگیری میں پانچ دریاؤں کی نسبت سے جس خطہ کو پنجاب کے نام سے موسوم کیا گیا اس میں ہزارہ اور پشاور سمیت ڈیرہ اسماعیل خان بھی شامل تھا۔ علیٰ ہذالقیاس‘مارچ1932ء میں شمالی بلوچستان کے گاؤں قلعہ عبداللہ میں پیدا ہونے والے‘ ڈیرہ اسماعیل خان کے زمین زادے سعید احمد اختر کو ورثے میں ملنے والے طبقاتی تضادات اور طویل افلاس کی سرگرانی نے مذہبی و سماجی اقدار سے برگشتہ کرکے الٹرا جدیدیت کی طرف مائل کیا لیکن کسی نادیدہ خوف اور سماجی دباؤ کی زنجیروں کی وجہ سے ان کے پیچیدہ خیالات ہمیشہ اُن مذہبی و سماجی حدود و قیود کو توڑنے کیلئے تڑپتے رہے‘ بظاہر جو اُن کے سماجی مفادات کو رَد کرتی تھیں۔ اسی وجہ سے وہ لاشعوری طور پہ اپنے ہزاروں سال پرانے اوریجن کی طرف پلٹنے کی جستجو تک آ پہنچے۔
ان کے دھرم اور ان کے کلچر‘ بچوں کے افسانے
جب جی چاہے تیرتھ بدلیں جب چاہیں بت خانے
شہر پھرے یا بستی گھومے یا دیکھے ویرانے
بس جانے کی بات بھلا بنجارہ کیسے مانے
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سعید احمد اختر اگر زمانے سے خوفزدہ نہ ہوتے تو کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے‘لیکن ایک نادیدہ خوف کا احساس انہیں ہمیشہ کھلے اظہارِ خیال سے روکتا رہا۔ شاید اسی سماجی دباؤ کی وجہ سے انہوں نے اپنے فلسفۂ حیات کو ہر مرحلے پہ نقابِ ابہام میں رکھنے کی خاطر اس شعری رعایت کا سہارا لیا جس میں باتوں کے مفاہیم قطعیت کے ساتھ متعین نہیں کیے جاتے۔ اگرچہ وہ مروجہ سماجی و مذہبی حقائق کو ہماری مشترکہ خود فریبیوں کا سرمایہ سمجھتے تھے لیکن انہوں نے اپنے طلسماتی مقاصد کی آنکھیں میچ کے‘ سہمے سہمے اتباع کرنے میں ہی عافیت تلاش کی۔ پوری عمر وہ اپنے خیالات کو اپنی بیوی اور بچوں سے بھی چھپاتے رہے‘ اس لیے ان کے اصل نظریات اور فلسفۂ حیات بارے چند ہم خیال دوستوں کے علاوہ ان کے کچھ شاگرد ہی بہتر توضیح کر سکتے ہیں۔ بہرحال اختر صاحب انتہائی دیانتداری سے یہ سمجھتے تھے کہ ہم اپنی مذہبی اقدار اور جمود پرور سماجی روایات کی بدولت ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔
سب کٹ مرے وہ لوگ کہ جو سر کشیدہ تھے
وہ بچ گیا کہ فرش کا برگِ گیاہ تھا
صالح تھے جو لکیر کے پیچھے فقیر تھے
میں فکر راہ میں تھا سو گم کردہ راہ تھا
سعید احمد اختر ایلیٹ کی طرح جدت کو تکرار سے بہتر سمجھتے تھے اور وہ منجمد رسوم و رواج کی قید سے آزاد ایک ایسے متنوع معاشرے کے متلاشی تھے جس میں پوری بیباکی کے ساتھ زندگی کے جبلی تقاضوں کو برتا جا سکے‘ اس حوالے سے ان کی کتاب ''ورشنجلی‘‘ معنی خیز ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جس معاشرے میں وہ پروان چڑھے اس میں ارتقا کا عمل نہایت سست اور پیچیدہ تھا؛ چنانچہ آخری عمر میں وہ خود کو مایوسی کے آشوب میں ڈوبتا محسوس کرتے تھے۔
سفر کٹ گیا‘ فاصلے رہ گئے/رواجوں کے بندھن بندھے رہ گئے
گزرتی رہی زندگی بیچ میں/کناروں پہ ہم تم کھڑے رہ گئے
گرے ہوں گے آنسو کبھی ایک دو/گِلے تو لبوں پہ جمے رہ گئے
مرے لاکھ سجدے میرے بعد بھی/وہیں اس کے در پہ پڑے رہ گئے
سعید احمد اختر کے نظریاتی تضادات کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ اپنے الہیاتی عقائد اور سماجی جمود کے تو شاکی تھے لیکن ہندو ثقافت کی بوقلمونی انہیں پوری شدت کے ساتھ اپنی طرف مائل کرتی تھی‘ تاہم سماجی دباؤ بار بار ان کے قدموں کو روک لیتا تھا۔ چھوٹی بحر کی ایک نظم ''شوچیں‘‘ میں اپنی اسی کم مائیگی کا اعتراف کچھ اس طرح کرتے ہیں۔
پیار کا راہی چنچل ہے
آس کا ماجھی بالک ہے
سوچ کا ساتھی بزدل ہے
جسم کی کشتی نازک ہے
درد کی ٹیسیں ظالم ہیں
آنکھ کے دیپک سوکھے ہیں
شہر کا مندر اُجڑا ہے
گھاٹ کی راہیں سونی ہیں
رات کے رستے کاٹنے ہیں
پار کا ساحل جنگل ہے
وقت کا پتھر بھاری ہے
رام کی لِیلا نیاری ہے
سعید صاحب کی پوری زندگی مذہبی اور سماجی تنوع کے درمیان آزاد خیالی کیلئے گنجائش پیدا کرنے کی نفسیاتی کشمکش میں سرگرداں گزری۔ انہوں نے غربت اور سماجی ناہمواریوں کے کرب کو جھیلا۔ افلاس کے ہاتھوں مجبور ہو کر نقل مکانی کی کلفتیں اٹھائیں۔ آغازِ شباب میں تھڑوں پہ سوئے‘ مزدوریاں کیں‘ کلرک اور پرائمری سکول ٹیچر جیسی ملازمتیں اختیار کیں۔ پھر کالج میں لیکچررکا عہدہ پا کر اپنے عہد کے ذہین طلبہ کے ساتھ روحانی رشتے قائم کیے اور آخر کار سول سروس کا امتحان پاس کرکے ایڈیشنل کمشنر کے منصب تک پہنچے لیکن عمر بھر طبقاتی تفریق کی تلخیوں کا احساس ان کے ہمراہ رہا۔ نیم قبائلی معاشرے میں جنم لے کر اپنے زورِ بازو سے بلند تر مقام و مراتب حاصل کرنے کے باوجود سعید احمد اختر زندگی بھر اپنے سماجی پس منظر سے جان چھڑانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ پٹھان معاشروں میں سرائیکی بولنے والے کو جس احساسِ کمتری کا شکار ہونا پڑتا ہے‘ اسی احساس کو مٹانے کی خاطر انہوں نے مادری زبان کو پس پشت ڈال کر پشتو بولنے کو اولین ترجیح بنایا اور اپنے بچوں کے رشتے پشتون خاندانوں میں کرکے کسی حد تک اس تفاوت کو مٹانے کی کوشش کرتے رہے جس کا کرب ہمیشہ انہیں اور ان کے اجداد کو دامن گیر رہا تھا‘ تاہم بالا دست طبقات سے ہمسری کا مقام پانے کے باوجود بھی وہ سماجی ناہمواریوں کے موروثی احساسات کو مٹانے کی تگ و تاز سے باز نہ آئے۔ ہر چند کہ لاشعوری طور پہ افلاس کو اپنی عظمت کی راہ میں حائل سمجھ کر انہوں نے ہمیشہ خوشحال زندگی گزارنے کو فوقیت دی لیکن وہ ایسی غیرمشروط آزادی کے بھی متمنی رہے جس میں مذہبی اور سماجی پابندیاں عنقا ہوں‘ اسی لیے انہوں نے ہر مرحلہ پہ زندگی کی تفہیم کیلئے انتہائی سیکولر نظریات کو وسیلہ بنایا تاہم طبقاتی تقسیم کی بے رحم مشین میں کچلے ہوئے ذہن کے باعث وہ کبھی بھی ن م راشد‘ جوش ملیح آبادی‘ فیض احمد فیض اور فراز کی طرح کھل کے اپنے مافی الضمیر کا اظہار نہ کر سکے۔ (جاری)