کیا حالات خراب ہیں؟نہیں نہیں ابھی تو بہت گنجائش پڑی ہے۔ پٹرول پمپ کھلے ہوئے ہیں‘ گاڑیاں چل رہی ہیں۔ ریستورانوں میں بھیڑ اب بھی پرانی جیسی ہے۔ شاپنگ وغیرہ بھی ہو رہی ہے۔صحیح معنوں میں حالات تو تب خراب ہوں جب تیل کی ترسیل بند ہو جائے اور پٹرول پمپ چل نہ سکیں۔سری لنکا میں پٹرول کی کمی واقع ہوئی تو پٹرول پمپوں پہ لمبی قطاریں لگ گئیں۔ابھی تک ایسا تو یہاں نہیں ہوا۔بھلے خبریں آتی رہیں کہ زرِمبادلہ کے ذخائر چار بلین سے بھی نیچے جانے کو ہیں‘کیا فرق پڑتا ہے۔کراچی بندرگاہ میں ہزاروں کنٹینرز رکے ہوں کیونکہ ایل سیاں نہیں کھل رہیںکہ ڈالر ہی نہیں ہیں‘ پھر بھی کیا فرق پڑتا ہے۔جیسے بھی ہے شہری زندگی تو جاری ہے۔
اس غیور قوم کو پتا تب چلے گا جب پٹرول کیلئے لائنیں لگ جائیں۔اور جو ہماری بھاری بھرکم سرکار ہے اُسے تو حالات کا تب اندازہ ہوگا جب تنخواہوں کیلئے پیسے نہ ہوں یا یہ اعلان ہو جائے کہ پنشنوں کی مد میں کمی لائی جا رہی ہے۔تنخواہیں مل رہی ہوں‘ پنشن کا نظام جو ایک دن ہمیں ڈبو دے گا‘ وہ بھی چل رہا ہو تو بحران کیسا۔ بڑے اثاثے ہمارے دو ہی تو ہیں‘ ایٹم بم اوربھاری بھرکم سرکار۔ایٹمی ذخیرے کی بڑھوتی میں کوئی کمی نہیں آئی اور سرکار کی اکڑ بھی اپنی جگہ قائم ہے۔تو پھر حالات اتنے خراب تو نہ ہوئے۔
ہم ایک بہادر قوم ہیں۔اپنے حالات کو زیادہ سنوار نہیں سکے لیکن ہماری تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اوروں کی چوکیداری کا موقع ہمارے سامنے آیا ہم نے لبیک کہا اور اوروں کی جنگیں ایسی لڑیں کہ وہ حیران ہو گئے۔اصل بحران تو ہمارا یہ ہے کہ چوکیداری کے مواقع ختم ہو گئے ہیں۔ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم محنت کرکے اپنا کچھ کریں گے۔ ہم نے ہمیشہ اس امرپر ناز کیاکہ ہمارا بطورِ ملک محلِ وقوع بڑی اہمیت کا حامل ہے‘ یعنی بڑی سٹریٹیجک نوعیت کا ہے۔اور اس سٹریٹیجک اہمیت کو بھانپتے ہوئے امریکہ ہمارے ناز نخرے اٹھاتا رہے گااور ہمارا کشکول کبھی خالی نہ ہوگا۔محلِ وقوع اب بھی وہی ہے لیکن ہمیں کچھ ملنے کا عمل یکسر ختم ہو گیا ہے۔صحیح معنوں میں محنت ہم نے کبھی کی نہیں‘ ہمارے مزاج میں ہی یہ بات نہ تھی۔اب بھی دراصل ہم معجزوں کی تلاش میں ہیں کہ کچھ وہاں سے مل جائے گا کچھ فلاں ملک سے‘جس سے موجودہ بحران ٹل جائے گا۔اور پھر اللہ مالک ہے‘آگے دیکھا جائے گا۔زرِمبادلہ کے ذخائر اب بھی چار بلین سے کچھ زیادہ ہیں۔ جب تک پٹرول کی سپلائی بالکل بند نہ ہو جائے دنیا مت توقع رکھے کہ پاکستان کے حکمران طبقات کے چہروں پر پشیمانی آئے گی۔
آٹے کی لائنیں لگی ہوئی ہیں لیکن آٹا مل تو رہا ہے۔دالوں کی باتیں لوگ کررہے ہیں‘ مانا قیمتیں بڑھ گئی ہیں لیکن دالیں دستیاب تو ہیں۔ ہمارے بڑے شہروں میں جہاں لائق حکمرانی کرنے والے بستے ہیں اُن میں گالف کلبوں کی کوئی کمی نہیں۔گالف ہرروز وہاں کھیلی جا رہی ہے یا نہیں؟بڑے شہروں کے پسماندہ علاقوں میں‘ جسے سٹریٹ کرائم کہتے ہیں‘ اُس میں اضافہ ہو رہا ہے۔لیکن جو خوشحال علاقے ہیں‘ جہاں پرائیویٹ سیکورٹی گارڈ دیکھے جاتے ہیںوہ تو نسبتاً محفوظ ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ زندگی چل رہی ہے‘ مفلوج نہیں ہوئی۔اور جہاں تک غیورعوام ہیں چپ چاپ جی رہے ہیں‘ وہ تو سڑکوں پر نہیں آئے نہ کوئی اندیشہ ہے کہ آئیں گے‘ تو پھر فکر کس بات کی ؟
سیاسی محاذ پر بھی ہمت کی کمی دکھائی جا رہی ہے۔ اکابرینِ ملت کی سوچ ایک نکتے پر یکجا ہے کہ جو بھی ہو عوام سے رجوع نہیں کرنا۔دلوں میں ڈر ہے کہ عوام سے رجوع کرنے کی غلطی سرزد ہوئی تو ایک توعوام کا کوئی بھروسا نہیں کہ کس رائے کی طرف چل پڑیں گے اور دوم حالات کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے۔لہٰذا جن کو حکومت میں لایا گیا اُن سے کام نہیں چل رہا تو کوئی پروا نہیں۔ان سرخیلوں کو ہی حکومت میں رکھنا ہے اور ہر قیمت پر عوام کی طرف نہیں جانا۔دلوں میں یہ خواہش بھی ہے کہ جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ عوام میں مقبولیت رکھتے ہیں اُن کا کچھ علاج ہونا چاہئے۔ہم تو کہتے ہیں کہ اس علاج میں دیر نہ کی جائے۔ دلوں میں اگر ایسا ارمان بھڑک رہا ہے کہ فلاں کو نااہل کرنا ہے‘ فلاں کو اندر کرنا ہے تو ایسا کیا جائے۔جمہوریت بس ایک اصطلاح ہے اس سے مرعوب ہونے کی اتنی ضرورت نہیں۔ کیجئے جو دل میں ہے کیونکہ جب تک یہاں حالات انتہا کو نہ پہنچیں نہ کچھ احساس پیدا ہونا ہے نہ کچھ اور ہونا ہے۔ابھی تک حالات انتہا کو نہیں پہنچے۔پہنچائیے حضورتاکہ صحیح معنوں میں تماشا لگے۔چیئرمین ماؤ کا یہ مقولہ تو ہم نے سنا ہے '' آسمانوں کے نیچے بہت افراتفری ہے اور حالات بہت اچھے ہیں‘‘۔ یعنی افراتفری اور ہنگامہ ہو تب ہی حالات بہتری کی طرف جاسکتے ہیں۔ابھی تو اتنی افراتفری کے حالات یہاں پیدا نہیں ہوئے‘ تو ہم بہتری کی طرف کیسے جاسکتے ہیں؟ لہٰذا حضور کیجئے‘ جو کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بغیر نئی صبح کا آغاز نہیں ہو سکے گا۔
ایک خیال البتہ دل میں اٹھتا ہے کہ معرضِ وجود میں آنے سے لے کر آج تک ہمارا بھروسا کسی چیز پر تھا تو وہ ہمارے نظریات پر تھا۔کیوں نہ عقل کی پکار ہمیں کوئی اور راستہ دکھائے‘ہماری یہ ضد رہی کہ وہی بیوقوفی کرنی ہے جو مزاجِ یار میں آئے اور اس کا عذر ہم نے اپنے نظریات میں ڈھونڈا۔عجیب بات ہے کہ موجودہ بحران میں نظریات کا کوئی ذکر نہیں سنا جا رہا۔ مفتیانِ ملت و ٹھیکیدارانِ قوم‘ جن کے وعظ سن سن کر ہمارے کان پک چکے تھے‘ نے بھی اس ضمن میں مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔یعنی جو بات ہمیں عقل نہ سمجھا سکی حا لتِ مجبوری سکھا رہی ہے۔کیا یہ احساس آخرکار اکابرینِ ملت کو ہو گیا ہے کہ نظریات کے کھیت سے ڈالر نہیں اُگتے؟ویسے تو ہمارے ہوش ٹھکانے نہیں آنے تھے‘یہ جو ملک و قوم کا حشر ہو رہا ہے اس سے ہمارے دماغ کچھ صاف ہور ہے ہیں۔
یہ بھی کتنی دلچسپی کی بات ہے کہ ایک غیر ملکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم پاکستان پکار اٹھتا ہے کہ ہم ہندوستان سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں کیونکہ ہم نے اپنا سبق سیکھ لیا ہے۔میں نے جب یہ خبر پڑھی تو اپنی گناہگار آنکھوں پر یقین نہ آیا کہ وزیراعظم کیا کہہ رہے ہیں۔کچھ وقت پہلے ایسی بات کوئی پاکستانی وزیراعظم کہتا تو ملک میں ایسا ہنگامہ برپا ہوتا کہ تھمنے کا نام نہ لیتا۔صرف یہ نہیں محافظانِ ملت بھی آنکھیں دکھاتے۔ لیکن شہبازشریف کے اس بیان پر ملک میں ذرا برابر ردِعمل دیکھنے میں نہیں آیا جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کا جو حال ہوچکا ہے اُس سے ہماری قومی سوچ بدل رہی ہے۔
لیکن اب بھی بہت کچھ اور سیکھنا ہے۔پاکستان کی جوموجودہ حالت ہے اُس نے راتوں رات جنم نہیں لیا۔سترسال پہ محیط غلط سوچ اور غلط فیصلوں کا نتیجہ ہے کہ ہم یہاں تک پہنچے ہیں۔قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اب بھی ہمیں نہیں سمجھ آرہی کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔اب بھی سوچ ہے کہ ڈنڈے سے کام چلانا ممکن ہوگا۔کئی کونوں میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ الیکشن کسی چیز کا حل نہیں‘ ہمیں کسی اور راستے پر ہی چلنا چاہئے۔معاشی اصلاح کا ایجنڈا بھی کسی کے پاس نہیں۔عجیب قوم ہیں ہم‘ اتنے دعوے اتنا اچھل کود لیکن جنہیں صحیح معنوں میں آپ اکانومسٹ کہہ سکتے ہیں‘ وہ پورے ملک میں دو تین بھی نہیں۔اسی لیے عرض کیا کہ اب بھی بات ہم مکمل طور پر سمجھ نہیں رہے۔ سمجھنے کی گنجائش ا ب بھی باقی ہے۔