سیاست کے ذکر سے دامن بچانا ہو تو کدھر جائیں؟ لوٹ کے پھر ماضی کی یادیں نہ صرف یاد آتی ہیں بلکہ ستاتی ہیں کہ ہم سے کیا بھول ہوئی کہ وہ اچھے زمانے ایسے گئے کہ واپس آنے کا نام نہیں لیتے۔ آج کے نوجوانوں کو کیا بتائیں کہ پرانا پشاور کس قسم کا ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر پشاور کلب میں بیٹھے اور شام کے سائے تھوڑے گہرے ہوئے اور خیال اٹھا کہ بیشتر شام ابھی باقی ہے اور ہم یہاں پیاسے وقت کیسے گزاریں گے تو اچانک گاڑی میں بیٹھا جاتا اور جمرود کی طرف چل پڑتے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ جمرود پشاور کے بالکل قریب ہے۔ اس زمانے میں اتنی ٹریفک بھی نہ ہوتی تھی تو گویا جمرود کا سفر چند منٹوں میں طے ہو جاتا تھا۔
اس زمانے میں کیا بازار تھا جمرود کا۔ سرِعام چھوٹی چھوٹی دکانیں‘ اسلحہ لٹکا ہوتا اور جسے ہم چرس کہتے ہیں‘ وہ بھی اس انداز سے لٹکی ہوتی جیسے بکرے قصائی کی دکان میں آویزاں ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی کاؤنٹر پر وہ اشیائے شب ایک قطار میں لگی ہوتیں۔ افغانستان میں روسی فوج آ چکی تھی اور روسی سامان کھلے عام پشاور کے بازاروں میں بکتا تھا۔ اب میں کیا بتاؤں کہ روس کا سب سے مقبول مشروب کیا ہے۔ وہاں کے باسیوں کی شامیں اس کے بغیر گزرتی نہیں۔ بہرحال جمرود بازار میں سستے داموں وہ سامانِ راحت مل جاتا تھا‘ آپ نے لیا اور پشاور کلب چند ہی منٹوں میں واپس لوٹے۔ جیسے عرض کیا‘ ٹریفک کی کمی کی وجہ سے پشاور شہر میں ڈرائیونگ بہت آسان ہوا کرتی تھی۔ شب کی گھڑیاں گزریں اور کچھ کھانے کا جی چاہا تو گاڑی میں بیٹھے اور نمک منڈی چلے گئے۔ موٹر وے تب تھی نہیں‘ پشاور کا سفر جی ٹی روڈپر ہوا کرتا تھا اور اس زمانے میں یہ سفر نہایت ہی رومانٹک ہوتا تھا۔ نوشہرہ پہنچے تو دریائے سندھ کے پرانے پل سے ہوتے ہوئے پنجاب میں داخل ہوتے۔ بڑا ہی بھلا سفر تھا۔ ایک تو ہم نے آبادی بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جنرل ضیا الحق کی وفات اگست 1988ء میں ہوئی تو پاکستان کی آبادی دس کروڑ تھی‘ آج ماشاء اللہ چوبیس‘ پچیس کروڑ تک پہنچ چکی ہے‘ یعنی ہماری زندگیوں میں ہم نے اپنی آبادی کو ڈبل سے زیادہ ہوتے دیکھا ہے۔ اور پھر ظاہر ہے ٹرانسپورٹ بھی بڑھ گئی ہے‘ اب تو موٹروے نہ ہو تو ایک شہر سے دوسرے شہر جانا محال لگتا ہے۔
آبادی کی بڑھوتی ہو یا ٹرانسپورٹ کی‘ جمرود بازار تو اپنی پرانی شکل میں رہ سکتا تھا‘ لیکن جو اُن دنوں میں وہاں چیزیں فروخت ہوتی تھیں‘ کیا آج کے ڈھابوں کے کاؤنٹروں پر اُنہیں سجایا جا سکتا ہے؟ طوفان آ جائے‘ ہنگامے برپا ہو جائیں‘ گولیاں چل جائیں‘ لاؤڈ سپیکر پر کسی جانب سے اعلانِ جہاد ہو جائے۔ آج کل کے نوجوانوں کو یہ گزری باتیں بتائیں تو اُن کے کانوں کو یقین نہیں آتا کہ کیا سُن رہے ہیں۔ تو پرانے جمرود بازار اور ان جیسی دیگر جگہوں کے ساتھ کیا ہوا؟ ان کے ساتھ فقط ایک چیز ہوئی کہ ان کے اوپر پارسائی کی ایک موٹی چادر اوڑھ دی گئی۔ اس لیے کہ افغان جنگ نے شدت اختیار کی تو سرکاری سرپرستی میں کہا گیا کہ یہ جنگ صرف روسیوں کے انخلا کے لیے نہیں ہو رہی بلکہ نظریات کی سربلندی بھی اس کا ایک مقصدِ اعلیٰ ہے۔ پاکستان کو اسی سرکاری سرپرستی نے مار دیا۔ سرکاری سرپرستی میں ہم نے کیا کچھ نہیں کیا۔ کبھی امریکہ کے حمایتی کہلائے‘ کبھی اُن کی گود میں چھلانگ کو ترجیح دی۔ کبھی افغانستان کو میدانِ جنگ بنایا‘ کبھی عالمی آزادی کے نام پر اور گل کھلائے۔
سرکاری سرپرستی بڑی اچھی چیز ہے۔ جنگِ عظیم دوم کے بعد جاپان‘ جو شکست کی راکھ سے ایک بار پھر ایک بڑی انڈسٹریل قوت کے طور پر ابھرا‘ نے سرکاری سرپرستی کے تحت ہی یہ سفر طے کیا۔ قومی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں ان کا تعین سرکاری یا حکومتی سرپرستی میں ہوا۔ جنگ کی آگ سے جنوبی کوریا نکلا تو اس کی بطورِ قوم سمت سرکاری سرپرستی میں طے ہوئی۔ سنگاپور میں اس جزیرے کا عظیم رہنما لی کوآن یو کسی آمر سے کم نہ تھا۔ منتخب شدہ لیڈر تھا لیکن اس نے اپنی قوم کو ہانک ہانک کر ترقی کی راہ پر ڈالا۔ لیکن ہماری قسمت پتہ نہیں کیسی رہی‘ ترقی کی راہ پر ہم نے کیا ڈلنا تھا تباہی کی وسعتیں ڈھونڈنے چلے تو یہ سب کام سرکاری سرپرستی میں ہوا۔ کوئی تو ہمیں صحیح راستے پر ڈالتا‘ کوئی رہبر تو ہوتا جو ہمیں دورِ حاضر کے تقاضوں سے آشنا کرتا۔ فرسودہ باتوں کے اندھیروں سے نکالنے کی کوشش کرتا۔ لیکن جو آیا بیکار کے وعظ کرتا گیا اور آج کے زمانوں کی باتیں تو ایسی ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے کہ اتنی بڑی قوم اور رہنما اسے کیسے نصیب ہوئے۔اپنے ہی کاموں میں لگے رہے‘ اپنی ہی پشتوں کی عاقبت سنوارتے گئے۔
ہم جیسے گناہگار تو ایسے شخص کو لیڈر مانیں جو بھاشن چھوڑے اور ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کرے کہ صفائی واقعی ہی نصف ایمان ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں‘ جس مخلوق کو صفائی کی سمجھ نہیں‘ اس نے اور کیا تیر چلانے ہیں۔ جو قوم یہ نہ جان سکے کہ درختوں اور ہریالی سے بیر اچھی چیز نہیں‘ اس سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ مسائل ہیں‘ ان سے انکار کون کر سکتا ہے لیکن محض باتوں سے یا پھونکیں مارنے سے نہ مہنگائی میں کمی ہونی ہے نہ کارخانوں نے چلنا ہے۔ پر اتنا تو ہم کر سکتے ہیں کہ بڑے مسائل جیسے بھی ہوں‘ زندگی کی چھوٹی چیزوں پر احسن توجہ دے سکیں۔ کئی قومیں ایسی ہیں جو اتنی بڑی انڈسٹریل قوت نہیں لیکن ان کے لوگوں کی عام زندگیوں میں نفاست نظر آتی ہے۔ 1975ء میں ایک بار میرا تاشقند جانا ہوا۔ پرانے شہر میں گیا تو دیکھ کر حیران ہوا کہ ہر چھوٹے گھر کے سامنے گلابوں کی ایک کیاری سجی ہوئی ہے۔ کسی کسی گھرکے سامنے نہیں بلکہ ہر گھر کے سامنے۔ صاف پانی گلیوں کی نالیوں میں بہہ رہا تھا‘ نتیجتاً پورے پرانے شہر سے ایک عجیب بھینی مہک اُٹھ رہی تھی۔ چلتے چلتے ایک چھوٹے سے باغ سے گزر ہوا‘ اندر قدم رکھا تو پوچھا یہ کیا جگہ ہے؟ بتایا گیا کہ مسجد ہے۔ ہر طرف پھول‘ خوبصورت درخت‘ درمیان میں چھوٹی سی بنگلہ نما عمارت جو کہ مسجد تھی‘ منظر ایسا کہ ہم جیسا مستند گناہگار بھی بوقتِ نماز عبادت کی طرف مائل ہو جائے۔ تاشقند کی ہزار سال سے زائد پرانی تاریخ‘ صدیوں کی تہذیب‘ پرانے شہر میں نظر آ رہی تھی۔ ہماری تاریخ بھی کوئی کم پرانی نہیں۔ تاشقند والی مہک ہمارے شہروں سے کیوں نہیں اٹھتی؟ اس قسم کی نفاست یہاں کیوں نظر نہیں آتی؟ ہندوستان کا ذکر تزکِ بابری میں عجیب انداز سے ہوتا ہے۔ بابر لکھتے ہیں کہ گندے شہر ہیں‘ باغات کم ہیں‘ آنکھ کو بھلی کوئی چیز نہیں لگتی۔ ہندوستان میں کابل کے خربوزوں کی مٹھاس انہیں یاد آتی ہے۔
مغل آئے تو یہاں کے ہو گئے اور فارسی اور ہندوستانی تہذیبوں کی آمیزش سے ایک نئی تہذیب نے جنم لیا جس کا ایک اظہار اُردو زبان میں ہوا۔ اس تہذیب کو گنگا جمنا تہذیب بھی کہتے ہیں۔ یہ نہ ہندوؤں کی میراث تھی نہ مسلمانوںکی بلکہ یہ ورثہ ہندوستان کے باسیوں کا مشترکہ تھا۔ بڑے بڑے ہندو خاندانوں میں اُردو بولی جاتی تھی۔ جواہر لال نہرو کی شادی کا دعوت نامہ اُردو میں لکھا گیا تھا اور ایسی خوبصورت اُردو میں کہ پڑھ کر مزہ آتا ہے۔ لیکن حالات ہی کچھ ایسے بنے کہ ایک علیحدہ دیس کا بننا ناگزیر سمجھا گیا۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں ہونا چاہیے تھا کہ ذہن بند کر دیے جائیں‘ سوچ پر تالے لگ جائیں اور نفاست نام کی ہر چیز سے دشمنی کر لی جائے۔ نئے نشیمن کو تو پرانے نشیمن سے بہتر ہونا چاہیے تھا۔