باقی مسائل تو اپنی جگہ رہے لیکن ہمارے معاشرے میں ذوق کی اتنی کمی کیوں ہے؟مثال کے طور پر ہمیں گندگی سے اتنا شغف کیوں ہے؟ شہر صاف کیوں نہیں رکھ سکتے‘ گندگی کے ڈھیر کیوں ہر جگہ پڑے رہتے ہیں؟ بطور معاشرہ درختوں اور سبزے سے ہمیں بہت چِڑ ہے۔اس چِڑ کی وجہ کبھی سمجھ نہیں آئی۔ہمارے ماحول میں سفیدے کے درخت کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے لیکن کسی امداد ی پروگرام کے تحت باہر کے لوگوں نے ہماری قوم کو یہ سبق دیا کہ سفیدہ بہت فائدہ مند درخت ہے اور ہمارے متعلقہ محکمے وسیع پیمانے پر سفیدہ لگانے لگے۔ایک اور مثال بھی دی جاسکتی ہے‘ کونوکارپس کا درخت ساحلِ سمندر کا پودا ہے‘ اُس کاکوئی فائدہ یا کام نہیں کہ پنجاب وغیرہ میں لگایا جائے۔لیکن اس ساحلی پودے کی نشوونما اب ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہے۔
ایک دو روز پہلے مضمون پڑھ رہا تھا کہ جرمنی کے شہر میونخ کے درمیان سے جو دریائے '' اِسار‘‘ گزرتا ہے اُسے اتنا صاف کر دیا گیا ہے کہ لوگ اُس میں تیرتے ہیں اور تفریح وغیرہ مناتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے کئی شہر ہیں جن کے دریاؤں کو یا تو صاف کیا جا چکا ہے یا کیا جا رہا ہے۔ یہ ہمیں آسمانوں نے بتانا ہے کہ دریاؤں کو صاف رکھنا ایک اچھا عمل ہے؟لاہور کی نہرشہرکے بیچ میں سے گزرتی ہے۔ کسی اور ملک میں یہ نہر ہوتی تو اُس کا پانی اتنا صاف رکھا جاتا کہ چہرے نظر آتے۔ نہرِ لاہور میں غریب و لاچار لوگ تیرتے اور نہاتے ضرور ہیں لیکن سچ میں وہ پانی اتنا گندا ہے کہ تیرنے کے قابل نہیں۔معلوم نہیں کتنا گند اُس میں روزانہ کی بنیاد پر پڑتا ہے۔کئی آس پاس کی سوسائٹیوں کی گندگی اس بدنصیب نہرمیں جاتی ہے۔جب میں خواب دیکھنے لگتا ہوں تو ایسا منظرآنکھوں کے سامنے آتا ہے کہ اس دھرتی پر عوامی راج کچھ ایسا آئے کہ ایک دن اعلان ہو کہ کوئی گند اُس نہر میں نہیں ڈالا جائے گا۔اور یہ اعلان بھی ہو کہ لاہور کی آباد ی آگے آئے اور اس واٹر وے کی صفائی کا کام سنبھالے۔ لاکھوں لوگ لگ جائیں اور بالٹیوں میں نہر کی گندگی باہر کھڑے ٹریکٹرٹرالیوں اور ٹرکوں میں ڈالیں۔ایک ہفتے میں نہر اتنی صاف ہو جائے کہ نیچے لگی اینٹیں نظر آنے لگیں۔اور پھر لاہو رکی آبادی کو اجازت ہو کہ گرمیوں کے دنوں میں اس نہر کے پانی کو سکون اور راحت کا ذریعہ بنائے۔
خوابوں میں یہ مناظر بھی شامل ہیں کہ جوانتظامی زور عوام کی آوازوں کو دبانے میں لگایا جاتا ہے اس بات پر صرف ہو کہ دھرتی سے پلاسٹک شاپروں کی لعنت یکسر ختم ہو جائے۔اس حوالے سے یہاں وہ قانون نافذ ہو جائے جو کینیا میں رُو بہ عمل ہے۔ شاپروں کے استعمال پر وہاں قید ہوسکتی ہے اور بھاری جرمانے لگتے‘ہیں خواب ایسے بھی ہیں کہ اگر دکاندار حضرات سراپا احتجاج ہوں تواُن کے ساتھ وہ کیا جائے جو ہماری ریاست بے راہ روؤں کے ساتھ کرتی ہے۔یہ بات نہیں کہ ہماری حکومتوں میں زور نہیں‘ مسئلہ یہ ہے کہ زور لگتا غلط کاموں پر ہے۔جو ڈنڈے احتجاج کرنے والوں کے سروں پر استعمال ہوتے ہیں وہ صفائی کے حوالے سے کیوں نہیں استعمال ہوسکتے؟جب ہمارے معاشرے میں ہرآواز دبائی جاسکتی ہے تو کیا امر مانع ہے کہ پلاسٹک شاپر وں کا استعمال اس دھرتی سے ختم نہ ہو؟یہ جو بارشیں ہوتی ہیں اور سڑکوں پر پانی کھڑا ہو جاتا ہے آدھی وجہ اس کی یہ ہے کہ زیرزمین نالیاں ان پلاسٹک شاپروں کی وجہ سے بند پڑی رہتی ہیں۔ نیچے کے پائپ بند ہوں توپانی نے کہاں جانا ہے؟
نفاست نام کی چیز ہمارے معاشرے میں کوئی ہے ؟کھانے پینے کے انداز‘ شادی بیاہوں پر جس طرح عوام کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں‘ دیگر ہمارے رسم و رواج جن میں وقت اور پیسے کا ضیاع ہوتا ہے۔جس معاشرے میں چھوٹی اور معمولی چیزوں کے بارے میں ذوق نہ ہو وہ بڑے مسائل کے بارے میں صحیح سوچ کیسے رکھ سکتا ہے؟ حالت یہ ہے کہ بڑے شہروں کو ہم خودصاف رکھ نہیں سکتے اور صفائی کے ٹھیکے بیرونی کمپنیوں کو دیے ہوئے ہیں۔جو معاشرہ صفائی کے قابل نہیں وہ آئین اور قانون کی پاسداری کیسے کرسکتا ہے؟کیا وجہ ہے کہ انگریز جب اس زمین کے حاکم تھے تو بڑے شہروں کو صاف رکھا جاتا تھا؟ میونسپل سروسز گند اٹھاتی تھیں اور سڑکوں پر پانی کا چھڑکاؤ ہوا کرتا تھا۔باغات اور درختوں کے تقدس کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا تھا۔آزادی ملنے پر وہ سب چیزیں آہستہ آہستہ کیوں برباد ہونے لگیں؟ انگریزوں کے دور میں میلوں کے پتھر یا مائلز سٹون ہر سڑک پر باقاعدگی سے لگے ہوتے تھے۔لال پگڑیاں پہنے ورک مینوں کے گینگ سڑکوں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ دیہاتوں میں چوکیداری نظام ہوا کرتا تھا۔ نمبرداری نظام بھی مؤثرتھا۔لوکل حکومتیں ہوا کرتی تھیں۔ منتخب شدہ ڈسٹرکٹ بورڈ کا نظام پہلی عالمی جنگ کے بعد متعارف ہوچکا تھا۔ ہمیں کہاں سے یہ سبق ملا کہ اِن سب چیزو ں کو تہس نہس کرنا ہے؟
آزادی ملی تو پہلا کام آئین سازی ہونا چاہئے تھا۔ آئین بنانے کی بجائے نظریات کے تعین میں قانون ساز اسمبلی لگ گئی۔نظریاتی بحثوں میں قوم کو الجھا دیا گیا۔کسی بھی ریاست کا مقصد کیا ہوتا ہے ؟ عوام کی فلاح و بہبود۔ اس جواب پر پہنچنے کیلئے کسی بڑے فلسفے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اکابرینِ ملت نے جہاں پریکٹیکل کام کرنا تھا‘ ہوائی باتوں میں پڑے رہے اور آج تک ہم انہی باتوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ ایوب خان خود ساختہ فیلڈ مارشل تھے‘ کسی جنگ کی وجہ سے وہ فیلڈمارشل نہ بنے۔ اور تو اُنہوں نے جوکچھ بھی کیا دارالحکومت کو کراچی سے یہاں منتقل کرنے کی کون سی اتنی بڑی ضرورت تھی ؟کراچی ایک ماڈرن اور انٹرنیشنل قسم کا شہر تھا۔ اُس کی آؤٹ لُک کاسموپولیٹن تھی۔ وہیں دارالحکومت رہتا توشاید ہم 65ء کی جنگ سے بچ جاتے۔کراچی میں بیٹھ کر ہندوستان دشمنی ہمارے اعصاب پر اتنی بھاری نہ پڑتی۔بڑی بڑی بندرگاہیں جہاں دنیا بھر سے تجارت ہوتی ہے عموماً جنگجوانہ ذہن نہیں رکھتیں۔یہ سوچیں جو ہم نے پالیں کہ ہندوستان سے یہ کرنا ہے‘ کشمیرکا مسئلہ اس انداز سے حل کرنا ہے اور افغانستان میں فلاں جہاد شروع کرنا ہے یہ اسلام آباد کی آب وہوا کی پیداوار ہیں۔کراچی میں روکڑا یعنی روپیہ چلتا ہے‘ لوگ پیسے کمانے کی سوچتے ہیں نہ کہ جنگوں کے بارے میں۔لیکن خودساختہ فیلڈ مارشل صاحب نے سمجھا کہ میں بڑا کام کررہا ہوں۔آخر میں اُن کے خلاف اتنی نفرت پیدا ہوئی کہ گھر سے باہر نکلنے کے قابل نہ رہے۔
دیکھا جائے تو ہم نظریات کی ماری قوم ہیں۔قوم بنا سکے نہ ڈھنگ کا کام کرسکے لیکن ہرموڑ پر‘ہر موقع پر نظریات کا جھنڈا ہم نے بلند کیا۔ اپنی ہی دنیا بنائی باقی دنیا سے الگ۔ لیڈر کوئی کام کے نہ ملے جو آگے کا راستہ دکھا سکتے۔درست کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو بڑے ذہین اور پڑھے لکھے تھے‘ اس لیے زیادہ افسوس ہوتا ہے کہ اُس جیسے ذہین فطین انسان نے ہندوستان دشمنی میں اپنا بڑاحصہ ڈالا۔بمبئی میں پڑھے تھے‘ وہاں ان کے خاندان کی جائیدادیں تھیں۔1958ء تک بمبئی آتے جاتے رہے۔ یہ بھی کہاوت ہے کہ مدھوبالا کے بڑے پرستار تھے‘ اُن کی کوئی شوٹنگ ہوتی توسیٹ پر جاکر مدھوبالا کو دیکھنے کی کوشش کرتے۔اس بیک گراؤنڈ کے ساتھ وہ اس ہندوستان دشمنی میں کیسے پڑگئے؟
کسی نئی چیز کا سب سے بڑا جواز یہ ہونا چاہئے کہ وہ پرانی چیز سے بہتر ہے۔ نیا ملک ہمارا تھا‘ ہرلحاظ سے اپنے ہندوستانی کزنوں سے ہمیں آگے اور بہتر ہونا چاہئے تھا۔ ہماری یونیورسٹیاں اُن سے بہترہوتیں‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کی دوڑ میں ہم آگے ہوتے‘ طرزِ حکمرانی ہماری زیادہ مؤثر ہوتی‘ شہر ہمارے صفائی اور خوبصورتی کا نمونہ ہوتے۔ لیکن اب کہاں وہ اور کہاں ہم۔