جب یہ سطورلکھ رہا تھا تمام نظریں بٹگرام کے ریسکیو آپریشن پر جمی ہوئی تھیں۔ چیئر لفٹ ہوا میں معلق ہے‘ زمین سے دور آسمان سے دور۔ غالباً چھ بچے ہیں اور ایک ٹیچر گلفراز۔ ایس ایس جی کمانڈو آپریشن جاری ہے لیکن بہت مشکل پیش آ رہی ہے۔ دن کی روشنی بھی ہے اور کچھ ہی دیر میں شام ہو جائے گی۔ کیا اُن بچوں پر گزر رہی ہو گی اور جو اس آپریشن کا جاری رہنا خبروں میں دیکھ رہے ہیں‘ اُن کی بھی کیا حالت ہو گی؟ خدا خیر کرے یہ بچے بچ جائیں۔ سیلاب کے دنوں میں ہم نے دیکھا تھا کہ مانسہرہ میں ایک ندی میں کچھ لوگ پھنس گئے تھے‘ بیچ بہتے پانیوں کے ایک پتھر پر اُنہوں نے پناہ لی۔ اُن کو بچایا نہ جا سکا اور بپھرے پانیوں نے اُن کی جانیں لے لیں۔ ایک دو دن کچھ شور مچا اور اب اُس حادثے کی یاد مدھم ہو چکی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس ملکِ خداداد میں امیری اور پسماندگی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ بڑے شہروں کو دیکھیں اور ان شہروں میں اچھی بستیوں کو دیکھیں وہاں حالت اور ہے لیکن پسماندہ علاقوں میں جائیں تو وہاں زندگی کسی اور طرز سے ہی بسر کی جاتی ہے۔ بٹگرام میں جو بچے چیئر لفٹ میں پھنسے ہوئے تھے وہ سیرو تفریح کے لیے اس میں نہیں بیٹھے تھے بلکہ ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ تک پہنچنے کے لیے اُن کے لیے یہی ایک ذریعہ تھا جو وہ استعمال کر سکتے تھے۔ یعنی یہ ذریعہ استعمال کرنا اُن کی مجبوری تھی۔ یہ تو رہی پسماندگی کی ایک جھلک‘ دوسری طرف نظر دوڑائیں تو ہمارے اللے تللے ہی ختم نہیں ہوتے۔ ایسی بے سرو سامانی کا عالم بڑے شہروں کی اونچی بستیوں میں تو نہیں ملے گا۔ وہاں تو زندگی کسی اور ڈھنگ سے چلتی ہے۔ اُنہی شہروں کے پسماندہ علاقوں میں چلے جائیں وہاں کہانی بالکل ہی مختلف ہوتی ہے۔ جڑانوالہ میں دیکھ لیں کیا ہوا‘ وہ شہر لاہور سے کوئی اتنا دور نہیں ہے لیکن کیا بربریت کی داستان وہاں رقم نہیں کی گئی؟
اس لیے مجبوراً یہ سوچ ذہن میں اٹھتی ہے کہ کیسا معاشرہ ہم نے تشکیل دے دیا ہے جس میں اتنی ناہمواری ہے‘ امارت کی چوٹیاں اتنی بلند کہ اُن کو ماپا نہیں جا سکتا‘ پسماندگی اتنی گہری کہ آگ کے دریا یاد آ جاتے ہیں۔ یہ بٹگرام اور مانسہرہ کے علاقے‘ ان میں قدرتی خوبصورتی انتہا کی ہے لیکن پتا نہیں کن بنیادوں پر ہم نے اس معاشرے کی تشکیل کی ہے کہ اس دھرتی کے سب سے خوبصورت علاقے سب سے پسماندہ ہیں۔
یہ نہیں کہ ہم کچھ کر نہیں سکتے‘ کچھ کرنے کو آئیں تو بہت کچھ ہو جاتا ہے۔ لیکن یہاں ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔ بڑے بڑے محکمے اُن کاموں میں پڑ جاتے ہیں جو اُن کے کام نہیں۔ یہ تو کوئی بتائے محکموں کا کام ہے کہ شادی ہال بنائیں؟ جس ملک میں پسماندہ بچوں کے لیے کھیلوں کی جگہیں نہیں وہاں کوئی تُک بنتا ہے کہ گالف کورس بناتے جائیں؟ یہ تو ویسے ہی ایک دو مثالیں ہیں نہیں تو سب کچھ لکھنے بیٹھ جائیں کاغذ کم پڑ جائے۔ یہ کہانی کب ختم ہو گی؟ کب اس دھرتی پر کسی نئی روشنی کا ظہور ہوگا؟ نوجوان تو اپنا فیصلہ سنا رہے ہیں‘ جس کو موقع ملتا ہے باہر جانے کی کوشش کرتا ہے۔ مزدوری کے قابل ہے وہ جانے کی سعی کررہا ہے‘ جو پڑھ جاتے ہیں یا باہر کی یونیورسٹیوں میں تعلیم مکمل کرتے ہیں‘ اُن کا جی نہیں چاہتا کہ واپس اس ملک میں آئیں۔ یہ بھی ہے کہ آبادی کے کچھ حصے کے لیے یہاں عیاشی بہت ہے‘ ہر قسم کی عیاشی‘ ہر چیز اُن کی ضروریات کے تابع ہے۔ لگتا ہے ہر چیز کے مالک وہ ہیں۔ لیکن ان مراعات یافتہ دائروں سے نکلیں تو بس خباثت اور بیچارگی۔
دیگر قوموں کی حالت بھی بُری رہی ہے۔ انقلاب سے پہلے کا روس‘ انقلاب سے پہلے کا چین‘ کاسترو سے پہلے کا کیوبا‘ پھر ان قوموں نے اپنی حالت بدلی۔ ہندوستان کسی انقلاب سے دوچار نہیں ہوا‘ ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا لیکن دیکھ لیں وہ کہاں پہنچ چکا ہے‘ ہم کہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ سنگا پور‘ تائیوان‘ جنوبی کوریا‘ کوئی لینن وہاں انقلاب لے کر نہیں آیا لیکن اُن قوموں نے اپنے آپ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ اُن کی ترقی کا کوئی اور راز نہیں‘ فقط دو چیزوں پر توجہ دی‘ تعلیم اور محنت۔ ہم نے یقین کیا نعروں پر‘ اپنی ہی ایک نظریات کی دنیا میں ہم نے خیالی پلاؤ پکائے‘ دنیا کہیں اور جا رہی ہے اور جو ہماری گردنوں پر اکابرین سواری کر رہے تھے اُن کا فیصلہ تھا کہ ہم نے کوئی اپنی علیحدہ راہ اختیار کرنی ہے۔ نظریات کے نام پر ہم نے اپنے آپ کو برباد کیا‘ اوروں کی جنگوں میں جہاد کے نام پر ہم کود پڑے۔
کیسے کیسے حکمران یہاں رہے ہیں۔ اُن کی شکلیں میں کبھی دیکھتا ہوں تو اس سوچ میں ڈوب جاتا ہوں ان میں کیا رکھا تھا کہ اس قوم کی تقدیر ان کے ہاتھوں میں آئی۔ کن کن کے نام یہاں لیے جائیں‘ سب کی تصویریں دیوار پر آپ چسپاں کر دیں‘ انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا اور اس قوم کی قسمت میں کیا لکھا تھا۔
کن کن باتوں کا ذکر کیا جائے؟ اسلام آباد کی کسی نوجوان خاتون وکیل کی گرفتاری مطلوب ہو تو پولیس دھاوا بول کر دیواروں کو پھلانگ کر بیڈروم تک پہنچ جاتی ہے۔ لڑکی کہتی ہے کپڑے تو تبدیل کر لوں‘ اُسے ایسا نہیں کرنے دیا جاتا اور رات کے اُس پہر اُسے سیدھا تھانے لے جایا جاتا ہے۔ اسلام کو چھوڑیے یہ کہاں کی اخلاقیات ہے؟ لیکن رویے ایسے بن چکے ہیں‘ یہی اب نارمل طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ جڑانوالہ کا واقعہ اکیلا نہ تھا‘ ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ بعد از واقعہ مذمتیں آنے لگتی ہیں لیکن ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ہم میں ہمت نہیں۔ انگریز اپنی حکمرانی کے لیے ضرور ظلم کرتے تھے لیکن جڑانوالہ یا گوجرہ یا سینٹ جوزف کالونی جیسے واقعات کا تب تصور تک نہ ہو سکتا تھا۔ پتا نہیں ہم کہاں پہنچ چکے ہیں کہ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں‘ لاؤڈ سپیکروں سے اعلانات ہوتے ہیں‘ زعمائے پارسائی جو کچھ ذہن میں آتا ہے کہتے رہتے ہیں لیکن مصلحت سے کام لیا جاتا ہے‘ حکام ہمت دکھانے سے قاصر ہوتے ہیں‘ احتیاط کا دامن ہی پکڑے رہتے ہیں۔ لیکن ترجیحات کچھ اور ہوں تو وہاں کسی حربے سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ یعنی کسی کو کچلنا مقصود ہو تو پھر ہر ترکیب بروئے کار لائی جا سکتی ہے۔ پر کتنا رونا روئیں اور محض رونے کا فائدہ بھی کیا؟
لینن کی پوری تصانیف میں ماضی کے بارے میں کوئی رونا دھونا نہیں‘ پرانے وقتو ں کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ ہر تحریر اس بارے میں ہے کہ انقلاب کیسے لایا جائے اور انقلاب کامیاب ہو تو نئے معاشرے کی تشکیل کیسے کرنی ہے۔ چیئرمین ماؤ کی بھی تمام تحریریں انقلاب اور تشکیلِ نو پر ہیں۔ ہمیں بھی کچھ ایسا ہی کرنا چاہیے۔ جو حالات ہیں وہ تو ہیں لیکن ہماری تمام توانائیاں ان حالات کو تبدیل کرنے پر صرف ہونی چاہئیں۔ صحیح معنوں میں انقلابی تحریک تو یہاں کبھی پیدا نہیں ہوئی لیکن جیسا اوپر عرض کیا ہندوستان یا سنگاپور یا جنوبی کوریا میں بھی کوئی انقلاب برپا نہیں ہوئے۔ ہمیں بھی دیکھنا چاہیے کہ ہمارے عمومی مزاج میں کون سی خرابیاں ہیں جو ہمارا آگے جانے کا راستہ روکے ہوئے ہیں۔ ایک تو ہماری معاشی پسماندگی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ہم ذہنی طور پر پسماندہ ہیں۔ ہماری سوچیں پست قسم کی ہیں۔
رونا البتہ یہ ہے کہ ہمیشہ ایسا نہ تھا۔ اسی ملک میں‘ اسی دھرتی پر پروگریسو سوچ رکھنے والے لوگ ہوا کرتے تھے۔ شعرو شاعری کی باتیں ہوتی تھیں‘ کتابوں اور پڑھنے کا ذکر ہوتا تھا۔ لیکن پتا نہیں کون سی نظرِ بد لگی کہ یہاں تک پہنچ گئے ہیں۔