کچھ ہمارے گھڑے ہوئے مفروضے تھے‘ کچھ الف لیلوی داستانیں جو ہمارے قومی وجود کو سہارا دیتی تھیں۔ مثلاً یہ کہ یہ ملک کسی خاص مقصد کیلئے معرضِ وجود میں آیا ہے جس کا معنی یہ نکلتا ہے کہ پروردگارِ عالم نے نعوذ باللہ تمام کام چھوڑ کر اس ملک کو ترتیب دیا تھا۔ اس مفروضے سے یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ اس دھرتی کے باسی اقوامِ عالم میں کوئی منفرد مقام رکھتے ہیں۔ یہ ایسی لایعنی باتیں ہیں جن پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جا سکتا‘ لیکن ایسی باتوں پر ہی ہمارا قومی وجود قائم رہا اور ایسی کہانیوں پر ہی ہم ناز نخرے کرتے رہے۔ اب جبکہ ہمارا روپیہ ردی کے کسی ٹکڑے کے برابر ہوتا جا رہا ہے ایسی کہانیوں کا کھوکھلا پن ہر کس و ناکس پر عیاں ہورہا ہے۔ اب شاید ہی کوئی یہ کہتا سنائی دے کہ اس ملک کے معرضِ وجود میں آنے کے پیچھے کوئی خاص مقصد تھا۔
دوسری اہم کہانی نظریات کے حوالے سے تھی۔ غیروں کو ہم نے کیا یقین دلانا تھا لیکن ہم نے خود کوقائل کر لیا تھا کہ ہم خاص نظریات کے منفرد رکھوالے ہیں۔ دنیاوی مسائل حل کرنے میں ہم اتنے ماہر نہ تھے اور اگرسچ پوچھا جائے تو دنیاوی مسائل کے حوالے سے ہم خاصے نکمے نکلے ہیں لیکن دنیاوی مشکلیں سامنے آتیں تو ہم نظریات کی تلوار کو نیام سے نکال لیتے۔ مسئلہ تو کوئی حل نہ ہوتا لیکن اپنے پیدا کردہ جذبات سے ہم مغلوب ہوکر رہ جاتے۔ مغربی دفاعی معاہدوں میں گئے تو عذر نظریات میں تلاش کیا۔ مغربی طاقتوں کیلئے چوکیداری کے فرائض انجام دیے تو جواز پھر نظریات میں ڈھونڈا۔ افغانستان میں حماقت کی فصلیں بوئیں تو بھی عذر نظریات سے نکالا۔ ہمارے پالسیی ساز چالیس سال تک افغانستان کے مسائل کا بوجھ اٹھاتے رہے اور اس کاوش کا نتیجہ آج طالبان کی صورت میں ہم بھگت رہے ہیں ۔ افغانستان کے حوالے سے جو بھی پالیسیاں رہیں یا یوں کہنا زیادہ درست ہوگا کہ اُس حوالے سے جو بھی ہم نے غلطیاں سر زد ہوئیں‘ اُن کے موجد کچھ پالیسی ساز ہی تھے‘ لیکن اس دھرتی پر غلط مفروضوں کا حساب کس سے لیا جا سکتا ہے؟
تیسرا وہم جو ہم نے اپنے ذہنوں میں بٹھایا وہ یہ تھا کہ ہم مسلمان ہیں اس لیے ہم بہادر اور دلیر ہیں اور وہ جن سے ہم نے اذلی دشمنی پال رکھی ہے وہ ہندو ہیں اور اس لیے کمزور اور بزدل ہیں۔ 1965ء کی جنگ تک ہم یہی سمجھتے آ رہے تھے کہ ایک مسلمان دس ہندوؤں کے برابر ہے۔ 1965ء اور71ء کی جنگوں میں جو کچھ ہوا اُس کو تو ایک طرف رہنے دیجیے لیکن آج کل کے حالات میں جہاں ہم ہیں اورہمارا کشکول ہے‘ لوگ یہ دیکھ حیران ہیں کہ ہندوستان کہاں جا رہا ہے اور کن دلدلوں میں ہم پھنسے ہوئے ہیں۔
ان الف لیلوی مفروضوں کے ختم ہونے کا مطلب ہے کہ بطورِ قوم ہم اپنے نفسیاتی سہاروں سے محروم ہو گئے ہیں۔ کس بات پر ناز کریں؟ کچھ بھی تو نہیں رہ گیا۔ ہماری قومی نفسیات اب گدا گروں والی بن چکی ہے کہ اگلے کچھ سالوں میں پچیس بلین ڈالر ہمیں سعودی عرب اورگلف کی امارات سے ملیں گے اور پچھتر سے لے کر سو بلین ڈالر تک انویسٹمنٹ اگلے سالوں میں پتا نہیں کہاں سے آئے گی۔ دوسری جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد جرمنی اور جاپان یہ نہیں کہتے تھے کہ فلاں جگہ سے ہمیں اتنی امداد کی توقع ہے بلکہ وہ اس عزم کا اظہار کرتے تھے کہ اپنی محنت کے بل بوتے پر ہم نے ملکی تعمیر نو کرنی ہے۔ ہماری سوچ اُس کے برعکس ہے‘ گداگری کے چکروں میں ہم پھنسے ہوئے ہیں‘ وہ اس لیے کہ اپنے آپ پر اور اپنی محنت پر ہمیں کوئی اعتماد نہیں۔ اعتماد آئے گا بھی کہاں سے؟ کسی مارکیٹ میں چلے جائیں‘ چھوٹی سے لے کر بڑی چیز تک سب باہر کی آپ کو ملے گی۔ کچھ نہ کچھ اندرونی انڈسٹری یہاں ہوا کرتی تھی لیکن ہمارے ہاتھوں وہ بھی تباہ ہو گئی اور آج سینٹری سے لے کر بجلی کے سامان تک ہر چیز چائنہ سے آ رہی ہے۔ پہلے انحصار ہمارا مغرب پر ہوا کرتا تھا اب انحصار چین پر ہے۔ ہندوستان میں سب کچھ بنتا ہے‘ وہاں کے تعلیمی ادارے عالمی سطح کے ہیں۔ ہمارے ہاں علم و تدریس کا کام ویسے ہی ٹھپ پڑا ہوا ہے‘ تعلیمی نصاب میں بھی زور سائنس اور ٹیکنالوجی پر نہیں بلکہ نظریات اور فضول کے مضامین پر ہے۔ ہندوستان چاند پر گیا ہے تو تُکے سے نہیں گیا۔ 70‘ 75 سال کی کوششیں ہیں جن کی وجہ سے وہ اس قابل بنا کہ خلا میں جا سکے۔ یہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کو کس نے گھاس ڈالی؟ ہم نظریات کے رکھوالے تھے اور آج نظریات کا پھل ہی کھا رہے ہیں۔
یہ جو حالت ہم نے اپنی کر لی ہے اس سے یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ ہم شروع سے ہی غلط راستے پر تو نہ تھے؟ ہمارے اکابرین کی نظریں تو قومی نشوونما پر مرکوز ہونی چاہئیں تھیں‘ ملک کو بنانا کیسے ہے‘ ترقی کی راہ پر اسے کیسے ڈالنا ہے۔ وہ نظریات کی کن جنگوں میں پڑے رہے؟ اُن کی سطح کیا تھی اورکس سوچ کے وہ مالک تھے؟ پنڈت جواہر لال نہرو کو دیکھیے اور اُن کے سامنے غلام محمد یا اسکندر مرزا کو کھڑا کر دیجیے‘ کوئی مقابلہ بنتا ہے؟ ایوب خان کی وفات کے کافی سال بعد اُن کی ایک ڈائری کی اشاعت ہوئی تھی۔ سطحی باتیں آپ کو اُس ڈائری میں ملیں گی‘ کوئی گہرائی والی بات نہیں۔ مرغابیوں کے شکار کا بہت ذکر ہے‘ فلاں جگہ شکار کرنے گئے اتنی مرغابیاں ماریں‘ فلاں جگہ ریسٹ ہاؤس میں رات گزاری اور صبح اتنا شکار کیا۔ اور یہ شخص دس سال اس ملک کے سربراہ رہے۔ ضیا الحق نے اس ملک کو افغانستان کے تنور میں دھکیل دیا اور گیارہ سال اس بدنصیب قوم کو اعتقاد کا وعظ سناتے رہے۔ ضیاالحق نے ایک مہربانی قوم پر کی کہ کوئی کتاب نہیں لکھی ورنہ وہ بھی ایک شاہکار ہوتی۔ پرویز مشرف نے البتہ معاونین کی مدد سے ایک کتاب لکھی‘ اُسے پڑھیں تو سر چکرا جاتا ہے کہ یہ ملک کیسی دانشوری کا شکار رہا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر یہاں بے جا نہ ہوگا۔ بہت ذہین تھے لیکن اُن کی ذہانت کس کام آئی؟ اُنہیں ولی خان اور قوم پرست بلوچ سرداروں کو اپنا قدرتی حلیف سمجھنا چاہیے تھا‘ لیکن اُنہیں دشمن بنا بیٹھے اور بلوچستان میں خواہ مخواہ کی مہم جوئی کی طرف چل پڑے۔ ایک اور اُن کا مسئلہ تھا کہ ذرا سی مخالفت بھی برداشت نہ کر سکتے تھے اور اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ اُن کا بہت ناروا سلوک رہا جس کی بھاری قیمت اُنہیں بعد میں ادا کرنا پڑی۔ لیکن یہ بھی ہمارے ہاں ہے کہ نظام ہمارا ایسا بن گیا کہ اُس میں کسی مقبول سیاستدان کی گنجائش ہی نہ رہی۔ بھٹو کو اُن کے گناہوں کی وجہ سے سولی پر نہ جانا پڑا بلکہ مقبولِ عام لیڈر تھے اس لیے اُنہیں برداشت نہ کیا گیا۔ نواز شریف کے اور بہت سے قصور ہوں گے لیکن اُن کا بڑا قصور بھی یہی تھا کہ مقبولِ عام لیڈر تھے۔ جہاں تک آج کی صورتحال ہے اُسے رہنے ہی دیں تو بہتر ہے۔ مولانا کوثر نیازی نے ایک تقریب میں ٹھیک ہی کہا تھا کہ اسلام آباد میں سابقہ وزرائے اعظم کا ایک الگ قبرستان ہونا چاہیے۔
جس تباہ حال موڑ پر ہم پہنچ چکے ہیں اس کا تقاضا تو یہی ہے کہ قوم میں ایک نئی سوچ پیدا ہو اور بھرپور عزم کے ساتھ ایک نئی قیادت سامنے آئے۔ لیکن جو حالات بن چکے ہیں اُن میں کوئی امید کی کرن نظر نہیں آتی۔ یہاں تو یہ لگتا ہے کہ وقت کے دھارے کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ قومی اُمنگیں کچھ اور نوعیت کی نظر آتی ہیں لیکن جو روشیں کار فرما ہیں وہ ان امنگوں سے یکسرمختلف ہیں۔ یعنی حالات کی پکار کچھ اور ہے اور ہم کر کچھ اور رہے ہیں۔ خرابی کہاں ہے؟ یقین سے اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ خطرناک راستوں پر ہم چل رہے ہیں۔