تب ہی تو وقت ہوتا ہے کھڑا ہونے کااور ڈٹ جانے کا۔ جب حالات اچھے ہوں تب تو ہرکوئی نہ صرف میدان میں اترتا ہے بلکہ اترنے کے لیے بے تاب ہو تا ہے۔بات تو تب ہے کہ سامنے مصیبتیں اور دشواریاں ہوں اورپھر بھی آپ عزمِ مدافعت باندھیں۔
آج کے حالات کہتے ہیں کہ ایک جماعت زیرِبار ہے‘ ساری مشکلات اُس کے لیے ہیں۔لوگ دھرے گئے ہیں یا بھاگے ہوئے ہیں۔قانونی مشکلات ایسی ہیں کہ کم از کم اس دیس میں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئیں۔کہنے کو تو الیکشن کا میدان سجایا جا رہا ہے لیکن ایسالگتا ہے کہ سرکاری اشیربادحاصل کرنے والی جماعتوں کے لیے ہر آسانی ہوگی اور ایک گروہ کے لیے تمام دشواریاں۔ یعنی دوڑ تو ہوگی لیکن ایک فریق کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہوں گے۔اس صورتحال کو لیول پلیئنگ فیلڈ کا نام دیاجا رہا ہے۔اور اب تویوں لگتا ہے کہ اس کی تیاری ہو رہی ہے کہ زیرِبار جماعت کو اُس کی پسند کا الیکشن نشان بھی الاٹ نہ کیا جائے۔قانون کی کتابوں میں سے عذر تو نکل ہی آتے ہیں اور الیکشن نشان والے مسئلے پر کچھ عذر سامنے آ چکے ہیں۔ حیرانی کی بات البتہ یہ ہے کہ تمام مشکلات کے باوجود مطعون جماعت ڈٹی ہوئی ہے۔موسمی پرندے تو ہوتے ہی ہیں اور جب جبر کارفرماہو تو کئی بھلے لوگ بھی موسمی پرندوں کا روپ اختیار کرلیتے ہیں۔ ایسے لوگ اس جماعت کو چھوڑ کر ضرور گئے ہیں لیکن عوامی سطح پر جماعت کا حمایتی حلقہ قائم ہے۔سرکاری حلقوں کیلئے یہ امر یقینا باعثِ تشویش ہوگا۔
بنیادی بات البتہ یہ ہے کہ سرکارکو جو بھی کڑوا گھونٹ نگلنا پڑے الیکشن ہونے چاہئیں۔جس دلدل میں ملک پھنسا ہوا ہے‘ اس سے نکلنے کا اورکوئی راستہ نہیں۔الیکشن میدان میں کھڑی کی گئی دشواریوں کا تو عوام کو بخوبی علم ہے لیکن یہ جانتے ہوئے بھی عوام انتخابات کے منتظر ہیں تاکہ اظہارِرائے کا کوئی ایک موقع تو ملے۔رجیم چینج کے بعد اب تک یک طرفہ کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ قانون بھی مصلحت کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔ بہت حد تک عدالتیں بے اثر ہوکے رہ گئی ہیں کیونکہ عدالتی نظام کے باوجود وہی کچھ ہو رہا ہے جو سرکار چاہتی ہے۔لیکن الیکشن ہوئے توتمام تر قدغنوں کے باوجود پرچی ڈالنے کا ایک موقع ملے گااوریہی ڈرہے کہ بپھرے ہوئے عوام کا فیصلہ پتا نہیں کیا ہو۔ بہرحال یہ تو محض قیاس آرائیاں ہیں ‘ کون جانے عوامی فیصلہ کیا ہوتا ہے۔ فیصلہ جو بھی ہو‘ وسوسوں اور اندیشوں پر قابو پانا چاہئے۔ بہت کچھ ہو چکا ہے ‘ بہت کچھ کا مذاق اُڑایا گیا ہے۔ اب ملک کو نارمل حالات کی طرف جانا چاہئے‘ اسی میں قوم کی بہتری ہے۔
البتہ ایک بات حیران کن ہے ‘ محترم میاںصاحب کو ہر قسم کی ڈرِپ لگ رہی ہے‘ ہر قسم کا ٹانک اُن کیلئے مہیا کیا جا رہا ہے‘ لیکن پھر بھی چین نہیں آ رہا‘ نہ میاں صاحب کی جماعت کو نہ ان کے خیرخواہوں کو۔ زرداری صاحب فرما رہے ہیں کہ کوئی جماعت سادہ اکثریت نہیں لے سکے گی اورآنے والے دنوں میں کوئی مخلوط قسم کی حکومت ہی بنے گی۔ اگر یہی کچھ ہونے کا خدشہ ہے توپھر ساری ڈرِپوں اورٹانکوں کا فائدہ کیا۔ مقصد تو اس ساری مشق کا یہ تھا کہ میاں صاحب کو اتنی آکسیجن دی جائے کہ اکثریت میں سیٹیں جیت جائیں۔لیکن اگر تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود ایسا ہوتا نظرنہیں آ رہا توپھر اکابرینِ ملت سے پوچھنا بنتا ہے کہ آپ کرکیا رہے ہیں اور کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ایک اور حیران کن بات یہ ہے کہ سلاخوں کے اُس پار ایسا کوئی واویلا نہیں مچایاجا رہا کہ ہم تکلیف میں ہیں‘ ہم سے برا سلوک ہو رہا ہے‘ ہمیں فلاں فلاں سہولیات سے محروم رکھا جا رہا ہے۔کوئی ایسا شور نہیں سنائی دے رہا کہ صحت خطرے میں پڑ گئی ہے ‘ پلیٹ لیٹ کاؤنٹ ہمارا گِررہا ہے اور علاج کیلئے ہمیں باہر نہ بھیجا جائے تو ہماری قیمتی جان کو خطرہ ہے۔ یہ عجیب قسم کے ڈھیٹ ہیں‘ اطلاعات کے مطابق اندر ورزش کئے جا رہے ہیں ‘ کچھ ٹائم عبارت میں گزرتا ہے‘ کچھ کتب بینی میں اور ٹھیک شام آٹھ بجے نیند کا غلبہ ہوجاتا ہے اور نمازِ فجر تک خوب گہری نیند رہتی ہے۔ اٹک جیل جب خبروں کی زینت تھی تو یہ حیران کن خبر آئی کہ جیل کے حالات سے ہم مانوس ہوچکے ہیں اورہمیں یہاں سے کسی اور جیل منتقل نہ کیا جائے۔ اب اڈیالہ خبروں کی زینت ہے اوروہاں سے بھی ایسا کوئی شور نہیں آ رہا کہ ہائے ہائے ہم مارے گئے‘ ہمارے ساتھ بہت زیادتی ہو رہی ہے۔یہ ڈھیٹ لوگ تمام مشکلات کے باوجود سکون میں لگتے ہیں۔ وہ زمانہ بھی تھاجب میاں صاحب اندر گئے اور اُن کی چیخ و پکار ختم ہی نہیں ہوتی تھی۔ ہمیں یہ سہولت نہیں ملی ہمیں وہ چیز دستیاب نہیں۔اورپھر جو پلیٹ لیٹ ڈرامہ ہوا‘ میاں صاحب کو معائنے کیلئے سروسز ہسپتال لے جایا گیا اور جیل روڈ پرٹی وی کیمروں کی لمبی لائنیں لگ جاتی تھیں اور خبروں کا ایک ہی موضوع ہوتا تھا کہ میاں صاحب کی صحت کن حالات سے گزررہی ہے۔ ماننا پڑے گا یہ لوگ فنکاری کے ماہر ہیں‘ ایسا ماحول تب بنایا گیا کہ متعلقہ عدالت نے بھی باہر جانے کی اجازت دے دی۔ کچھ ہفتوں کی مہلت ملی تھی اور جنابِ شہباز شریف نے پچاس روپے کے اشٹام پر عدالت کو یہ ضمانت دی کہ محترم میاں صاحب مقررہ وقت کے اندر ملک واپس آ جائیں گے۔وہ چار یا چھ ہفتے چارسال پر محیط رہے۔اب جب ملکی موسم بدلا ہے اورمحترم میاں صاحب وطن واپس لوٹے ہیں تو صحت بھی بحال اور قانونی دشواریاں ایک ایک کرکے ختم ہو رہی ہیں۔
البتہ بات وہی ہے کہ اتنی آسانیوں کے ہوتے ہوئے ڈر پھر کاہے کا؟ وسوسے اور اندیشے تو زائل ہونے چاہئیں۔ لیکن نہیں ‘ ملکی صورتحال تھوڑی گمبھیر ہے۔ عوامی موڈ کچھ خطرناک لگتا ہے‘ جیسے عوام کسی لمحے کے انتظار میں ہوں۔ ٹی وی پروگراموں میں مَیں ایک دو بار کہہ چکا ہوں کہ گوگل میپ سے پاکستان کے تمام نقشے اتارلیے جائیں اورپاکستان کے کسی قصبے یا شہر میں دو کلومیٹرکا راستہ ڈھونڈا جائے جس میں (ن) لیگ کے محبوب قائدین بغیر سیکورٹی کے پیدل چل سکیں‘ اور ایسا دو کلومیٹر کا ٹکڑا نہیں مل سکے گا۔ کئی ہمارے ٹی وی رپورٹر عوامی رائے معلوم کرنے کیلئے مائیک لیے بازاروں میں نہیں گھومتے؟کیا جوابات وہاں سے ملتے ہیں؟ یہ شیر دل لیڈر اتنی گھبراہٹ میں گرفتار کیوں ہیں؟اب ڈرِپوں اورٹانکوں کے بعد اور کیا کیا جائے تاکہ ان شیردلوں میں کچھ حوصلہ آئے؟
ہمارے ملک میں بہت کچھ ہو چکا ہے۔ قوم نے ایوب خان کو بھگتا پھر یحییٰ خان کو ‘ ضیا الحق کو اور پھر مشرف کو۔ وہ ادوار بھی بیت گئے‘ کوئی چیز دائمی نہیں ہوتی‘ موجودہ حالات بھی گزر جائیں گے۔ ہاں ایک چیز دائمی ہوسکتی ہے‘ نالائقی۔ اتنا تو ہے کہ ہم سے اپنے معاملات سنبھالے نہ گئے۔کچھ اجتماعی ہنر ہوتا توپچھتر‘ چھہتر سال اس طرح برباد نہ ہوتے۔ ملک کا کچھ بنا لیتے‘ اقوامِ عالم میں کچھ عزت ہوتی۔ حالت یہ ہے کہ چھہتر سال بعد بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ قوم کی سمت کیا ہونی چاہئے‘ قوم کے مسائل کا حل کیا ہے۔ آج کی حالت بھی دیکھ لیجئے ‘سب کو پتا ہے کہ الیکشن سے کوئی چھٹکارانہیں‘ کرانے پڑیں گے لیکن ٹامک ٹوئیوں سے کام چلایاجا رہا ہے۔مختلف اہداف حاصل کرنے کیلئے مختلف ٹوٹکے آزمائے جا رہے ہیں۔ کہیں سے تو سکون آئے‘ ریاست کے معاملات میں کہیں سے کچھ استحکام آئے۔
پر ایک بات کا اعتراف لازمی ہے‘ جبر واستبداد کے باوجود پاکستانی قوم ہمت والی ہے‘ مقابلہ کرنا جانتی ہے۔کتنا کچھ اس قوم نے برداشت کیا ہے لیکن دلوں میں اب بھی امید کا شعلہ بھڑکتا ہے کہ اندھیرے کبھی تو چھٹ جائیں گے۔