26مئی کو چھپنے والے وکالت نامے میں مڈل ایسٹ کے مستقبل قر یب پہ یوں عرض کیا تھا ۔
'' ٹرمپ جیسے عالمی سکالرنے مسلم ملکوں کے بادشاہوں، صدور، وزرائے اعظم سے خطاب کر کے ہماری عالمی برتری کو خراجِ تحسین پیش کیا ۔ ٹرمپ نے مسلمانوں کی طاقت میں مز ید اضافہ کرنے کا نسخہ بھی بتا دیا ۔ فرمایا، آپس میں مزید لڑو، فرقہ بازی کو مضبوط بنائو، ایک دوسرے کو دہشت گرد جانو، مسلم زمینوں پر فرمائشی بم باری کروانے کے بل وقت پر ادا کرو۔ اسی میں تمہاری نجات ہے ۔ اسی ذریعہ سے تم اقوامِ عالم میں سُرخرو ہو سکتے ہو‘‘۔ ساتھ ہی پوری درد مندی اور دردِ دل سے یہ تک کہہ دیا۔'' اپنی دنیا کو جنت میں تبدیل کرنا چاہتے ہو تو ایک دوسرے کی صفوں میں دشمن تلاش کرو اور انہیں سفرِ آخرت پر بھجوانے کا سکور بہتر کرو‘‘۔
توقع کے عین مطابق حضرتِ ٹرمپ کی ریاض اسلامی کانفرنس کے نتائج ہتھیلی پر مشروم کی طرح فوراََ نکل آئے۔ کل تک امریکہ کا راج دُلارا، یوایس کے سکیورٹی پلان کا میزبان ملک قطر نشانے پر آگیا۔ریاض کا نفرنس کا فوری نتیجہ ایران میں بھی نِکلا۔بحث یہ نہیں کہ خلیجِ عرب اور خلیجِ فارس میں کون ر است باز اور کون گم کردہ راہ ہے ۔ اصل سوال یہ ہے ریاض اسلامی کانفرنس میں نہ کسی نے اسرائیل کو غاصب کہا اور نہ ہی کشمیری مسلمانوں کی جدو جہدِ آزادی کا تذکرہ ہوا۔ لارنس آف عریبیہ کرنل ٹی ای لارنس سے لے کر ڈی جے ٹرمپ تک بشمول مسلمان بادشاہوں ،شہزادوں، امیروں اور ڈکٹیٹروں کی توپوں کا رُخ برادر مسلمان ملکوں کی جانب رہا۔اقبال نے درست ہی کہا تھا ۔ ؎
کیا خوب امیر فیصل کو سنّوسی نے پیغام دیا
تو نام و نسب کا حجازی ہے پر دل سے حجازی بن نہ سکا
ایک اور انتہائی قابل توجہ بات یہ ہے بھی کہ خلیج کے ملکوں میں مقیم امریکہ ،برطانیہ ،فرانس سمیت مغربی افواج کے قیام کا اصل مقصد کیا ہے؟۔جن کی تنخواہیں ٹی اے ڈی اے خوراک رہائش اور فائرنگ کے لیے گولیاں اور گولہ و بارود کے بِل خلیجی ممالک ادا کرتے ہیں۔عام تاثر یہ ہے کہ یہ فوجیں ان ملکوں کے'' آٹو کریٹ‘‘ حکمرانوں کوعرب باغی قبائل اور نو جوانوں کی مہم جوئی سے بچانے کے لیے بُلائی گئیں ۔عرب حکمرانوں کی حد تک یہ تاثر درست ہے۔ لیکن خلیجی امور میں 4 عشروں پر محیط میری دلچسپی کے تناظر میںیہ بات بِلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ عربوں کے پیٹرو ڈالر وں پر پلنے والی یہ گوری فوجیں اصل میں'' گریٹراسرائیل ‘‘کے باڈی گارڈ کا کِردار ادا کر تی ہیں۔دوسری جانب، مسلم ملکوںکے حکمران اپنے آپ کو لبرل اور جمہوریت پسند ثابت کرنے کے لیے ہر طرح کے پاپڑ بیلنے میں مشغول ہیں۔جس کے نتیجے میں وہ اپنے صدیوں پُرانے کلچراور مذہبی اقدار سے صَرفِ نظر کو سکہ رائج الوقت سمجھ بیٹھے ہیں۔ان کے مقابلے میں اسرائیلی حکمران صہیونی بنیاد پرستی کو باعث ِ شرمندگی نہیں بلکہ اپنی قوت گردانتے ہیں ۔اسی لیے انھوں نے مقبوضہ بیت المقدس میں نہ صرف ڈی جے ٹرمپ کے اہلخانہ کو سکارف پہنائے بلکہ دیوارِ گریہ(حائط المبکی)پر لے جاتے ہوئے امریکی صدر کے سر پر یہودیوں کی ٹریڈ مارک ٹوپی ڈال دی ۔
حضرتِ ٹرمپ کی سربراہی میں منعقدہونے والی ریاض اسلامی کانفرنس کا ایک اور فوری نتیجہ بھی سامنے آیا ہے۔ وہ یہ کہ پرامن زندگی اور امن و امان مسلم سرزمینوں میں بسنے والے عوام کا مقدر نہیں۔ خاص طور پر وہ مسلم ملک جنہوں نے نیو ورلڈ آرڈر جاری ہونے کے بعد باقاعدہ فوج اور منظم عسکری قوت برقرار رکھنے پر اصرار کیا۔ اس سلسلے کی پہلی مثالِ عبرت عراق ہے۔ عالمی افواج نے کروڑوں ٹن بارود لگا کر عراق کو کھنڈر میں بدل دیا ۔ اس کی وحدت پارہ پارہ ہوئی ۔ پہلی عراق جنگ سے قبل عراق ایک منظم فوج رکھتا تھا اب ہر قبیلہ اور ہر فرقہ اپنی اپنی ملیشیا (یعنی پرائیویٹ فوج)کے سائے تلے زندہ ہے۔ پھر لیبیا ، الجزائر، مراکش، لبنان، شام اور مصر کے ساتھ بھی ایسا ہی کھیل رچایا گیا ۔ اسی دوران 2مزید ایسے مسلم ممالک جہاں کبھی منظم فوج ہوتی تھی اس کے جسد کو کاٹ کاٹ کر ایسٹ ٹیمور اور جنوبی سوڈان میں عیسائی ریاستیں بنائی گئیں۔ نا جانے مسلم کاز کے داعی سکالر، لیڈر اور حکمران یہ کیوں نہیں سوچتے ایشیا کے اندر ہی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی مذہبی ریاستیں موجود ہیں۔ تھائی لینڈ سمیت خطے کے کئی ملک بدھ مت کے ماننے والے ہیں۔ بھارت سمیت کئی ہندو مت کے پیروکار ہیں۔ لیکن اس کی کیا وجہ ہے کہ برق گرتی ہے تو صرف بیچارے مسلمانوں پر یا مسلمانوں کے صحن میں۔
کچھ دن پہلے 2عرب ملکوں کے سفارت کار دوستوں نے2عرب سکالرز کی ویڈیو بھجوائیں جو میرے واٹس ایپ میں محفوظ ہیں۔ ایک سکالر بڑے آڈیٹوریم میں تقریر کے دوران اپنی ٹوپی اتار کر کہتا ہے۔ "یہ ہالینڈ کی بنی ہوئی ہے، میرا چشمہ جرمنی کا ہے۔ گھڑی سوئٹزرلینڈ کی ہے، کوٹ برطانیہ کا ہے، جوتے اٹلی کے۔ جن جہازوں پر میں اپنی تقریریں کرنے جاتا ہوں وہ میں نے نہیں بنائے ۔حتی کہ جس گاڑی میں آپ کے پاس پہنچا ہوں وہ بھی غیر کی بنائی ہوئی ہے۔ آخر بتائیں تو سہی میں کس بات پر فخر کروں۔ ہم تحقیق سے گھبراتے ہیں، تخلیق سے خوف زدہ۔ مقدس کتاب سے لیکر عام کتاب تک کیا ہم سالانہ جاپانیوں جتنی کتابیں پڑھتے ہیں یا امریکنوں سے زیادہ۔ ۔۔۔؟‘‘
دوسرے سکالر سعودی لباس میں ایک مسجد میں بعد از نماز خطاب کر رہے ہیں۔ کہا ''سنی، شیعہ، اسماعیلی الغرض سارے فرقے ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب، یوم آخرت، جنت، دوزخ پر ایمان رکھتے ہیں۔ ایک قبلے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ حیات بعد الموت پر سب کا ایمان ہے۔ تو پھر اپنا مذہب بتانے سے پہلے فرقہ بتانا کیا ضروری ہے۔۔؟ پھر کہا تمہارا دشمن خواہ وہ کوئی بھی ہو تمہیںصرف مسلم اور مُحمڈَنّ کہتا ہے۔ اور مسلمانوں پر ایک دوسرے کا خون کرنا اور مال کھانا حرام ہے‘‘۔
رمضان شریف کے دوسرے عشرے کے آغاز میں ایک بڑی یونیورسٹی کے طلباء و طالبات مجھے ملنے آئے۔ نوجوانوں نے گفتگو کے دوران دو بہت دلچسپ سوالات اٹھائے۔ ایک نے کہا پاکستانی مسلمان روزہ کھولنے اور روزہ بند کرنے کا ایک وقت کیوں نہیں مقرر کر سکتیّ۔ افطار اور سحر کے فرقہ وارانہ اوقات میں 10منٹ کا فرق ہے۔ اگر ایک فرقے کے مولوی اپنا وقت 5منٹ آگے کر لیں اور دوسرے مُلا 5منٹ پیچھے کر لیں تو سب مسلمان ایک پیج پر آسکتے ہیں۔ ایک طالبہ نے مزید دلچسپ سوال کر ڈالا، کہا جب روزے فرض ہوئے تب سحری اور افطار کا ٹائم گھڑی دیکھ کر طے ہوتا تھا ۔۔؟عرض کیا گھڑیاں کئی سو سال بعد کی ایجاد ہیں۔ مسلم اُمہ کے نام پر بننے والے ادارے تفریق در تفریق اور تقسیم در تقسیم کا مقدس فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔
خلیج کے ممالک قبلہ اول کی آزادی کو بحال نہیں کرنا چاہتے۔ پہلے ایک دوسرے کے ہاں اپنی مرضی کے ٹوڈیوں کو مقتدر دیکھنا چاہتے ہیں۔ کہاں گئی جی سی سی؟ کدھر ہے عرب لیگ ؟ او آئی سی کیاکر رہی ہے؟ رابطہ ِ عالمِ اسلامی پاکستان میں نون لیگ کی گود میں بیٹھی ہے۔ مسلم یوتھ کانگریس، مقاماتِ مقدسہ کے امام، مفتیِ اعظم صاحب، علامہ سے آیت اللہ تک کیا کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو مسلمانوں کے درمیان دیواریں گرا کر پُل تعمیر کر سکے۔ ۔۔؟
کیا شکم کے بندے دل سے سوچنا شروع کریں گے۔مسلمان قوم کی زندگی اور موت کا فیصلہ دل اور شکم کی سوچ سے جوڑ دیا گیا ہے۔ آہ! ؎
دل کی دنیا ،بادشاہی اور شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا تیرے ہاتھ میں ہے دل یا شکم