"SBA" (space) message & send to 7575

شہیدِ ملت سے شہیدِ کرپشن تک

شہیدِ ملت بیرسٹر لیاقت علی خان کے مقدمہء قتل کی تفتیش پاکستانی نظامِ تفتیش میں کیس سٹڈی ہے۔ دن کی روشنی میں برسرِ عام دو نالی بندوق سے فائرنگ کرکے قائد اعظم ؒ کے دستِ راست کو شہید کر دیا گیا تھا۔ اس ہائی پروفائل قتل کے بعد پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ جے آئی ٹی بنائی گئی۔ اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے دو اہلکار قاتلوں کے کُھرے تلاش کرنے میںکامیاب ہوئے مگر دونوں فائلوں سمیت طیارہ حادثوں میں مارے گئے۔ ان میں سے ایک ہوائی جہاز پنجاب میں راہوالی کے قریب اچانک فضا میں پھٹ گیا۔ دوسرا پاکستان کے پہلے دارالخلافہ کراچی کی فضائوں میں ڈولتا ہوا کٹی پتنگ کی طرح نیچے آ گرا۔ ان دونوں طیارہ حادثات میں لیاقت علی خان قتل کیس کی جے آئی ٹی کے دو سربراہ‘ جو قاتلوں کے دروازے تک جا پہنچے تھے‘ خود آگ اور شعلوں کی نذر ہو گئے۔ بقول شاعر:
نہ مدعی، نہ شہادت، حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
میں نے سینٹ آف پاکستان ، وکالت نامہ اور میڈیا پر کئی دفعہ لیاقت علی خان کے قتل کی جلی سڑی نامکمل فائل کو مکمل کرنے کا ذکر کیا‘ کیونکہ یہ مقدمہ تاحال منتظرِ تفتیش ہے۔ ملزم عدم پتہ ہوئے نہ اشتہاری اور نہ ہی کیس فائل کلوز ہوئی جو صرف مجاز عدالت ہی کر سکتی ہے۔ یہ حکم ویسے بھی مجاز عدالت ہی جاری کر سکتی ہے۔ ہمارے غلام ابنِ غلام بلکہ خاندانِ غلاماں طرز کے حکمران جس وجہ سے ملک کے پہلے وزیرِ اعظم کے قاتلوں تک پہنچنے سے کانپتے رہے‘ اب وہ وجہ امریکہ بہادر نے حال ہی میں کھول کر سامنے رکھ دی ہے۔ اس قتل کے 66 سال بعد امریکہ کے محکمہ خارجہ نے اس قتل کی اعترافی دستاویزات لیک کر دیں‘ جس کی تفصیل ایک علیحدہ کالم کا تقاضا کرتی ہے اور تازہ قانونی کارروائی کا بھی۔ قتل کی وجہ عناد اس وقت کے امریکی صدر Harry S. Truman اور لیاقت علی خان کے مابین ٹیلی فون پر تلخ کلامی تھی‘ جس میں ایک اسلامی ملک کے خلاف لیاقت علی خان نے دبائو ڈالنے سے انکار کر دیا تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ تلاش کے باوجود مشرقی اور مغربی پاکستان میں اس وقت کی سُپر پاور کو ''کرائے کا قاتل‘‘ کوئی نہ مل سکا۔ تب تک افغانستان نے نومولود پاکستان کو بطورِ ملک تسلیم نہیں کیا تھا‘ لہذا افغان شاہ ظاہر شاہ کے تلاش کردہ تینوں کرائے کے قاتل افغان تھے۔ سید اکبر گولی چلانے والا اور اس کے دو سکیورٹی اہلکار‘ جو بظاہر سید اکبر کے باڈی گارڈ مقرر کیے گئے تھے۔ انہوں نے افغان شاہی مینڈیٹ کے عین مطابق سید اکبر کے قاتلانہ حملہ کرنے کے فوراًَ بعد اسے قتل کر دیا۔ پنڈی کے کمپنی باغ میں خالی ہاتھ پاکستانیوں کے ہاتھوں اور پائووں نے تینوں قاتلوں کوکچل اور مسل کر رکھ دیا ۔ مجھے پکی امید ہے آج پاکستان کا کوئی حکمران شاید ہی اپنے پہلے وزیرِ اعظم کے قتل میں نئی تحریری شہادتیں سامنے آنے کے بعد جے آئی ٹی بنانے کی جرأت کرے گا بلکہ سرگوشی تک بھی کرے گا۔
اگلے روز قومی احتساب بیورو میں اعلیٰ تعیناتیوں کے خلاف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ، جسٹس دوست محمد خان، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل فُل بینچ کے روبرو طویل بحث کے دوران بہت با معنی ریمارکس آئے اور ساتھ ساتھ مجھ سے دلچسپ سوال بھی پوچھے گئے۔ محترم جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں آر ٹیکل 184(3)جیسا کوئی اختیار دنیا کے کسی آئین نے اپنی سپریم کورٹ کو نہیں دیا۔ میں اس کی وجہ سوچتا رہا۔ پھر مجھے تجربہ ہوا کہ اس(Extraordinary) غیر معمولی اختیار دینے کی وجہ انتہائی غیر معمولی کرپشن اور بد عنوانی ہے ۔ پھر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے پانامہ کیس کا اشارہ دیا اور کہا کہ جب کرپشن غیر معمولی ہو تو وہ غیر معمولی اقدامات سے ہی کنٹرول ہو سکتی ہے۔ اسی لیے سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا غیر معمولی قدم اُٹھایا۔
ایکسٹرا آرڈنری کے لفظ سے مجھے کالا کوٹ یاد آرہا ہے۔ ہم لوگوں کو مئی، جون، جولائی، اگست کی جان توڑ گرمی ، جلا دینے والی لُو میں کالا کوٹ پہننے کی کتنی پکی عادت ہے‘ اس پر جسٹس مولوی انوارالحق کی آپ بیتی خوب جچتی ہے۔ اُن دنوں جسٹس مولوی انوارالحق راولپنڈی ڈسٹرکٹ کورٹ میں وکیل تھے۔ ان کی ایک کلاس فیلو خاتون‘ جو پڑھائی کے بعد کینیڈا شفٹ ہو گئی تھی، اسلام آباد ائیر پورٹ پر اُتری اور جسٹس مولوی انوارالحق سے خیریت دریافت کرنے کے بعد کہا کہ وہ ان سے ملنا چاہتی ہے۔ ملنے کا وقت طے ہوا اور وہ پنڈی ڈسٹرکٹ کورٹ کی چھوٹی بار کے سامنے جسٹس مولوی انوارالحق کے پھٹے پر آ گئی۔ نہ پنکھا نہ لُو روکنے کے لیے دیوار۔ پتلے ٹین اور لوہے کے پائپ کا بنا ہوا پھٹّا۔ جون کی جلا دینے والی گرمی، کالی پتلون، کالی جراب، کالے بوٹ، کالا کوٹ اور پسینے میں ڈوبا ہوا کلاس فیلو دیکھ کر کینیڈا سے آئی ہوئی خاتون نے رونا شروع کر دیا۔ اس نے مولوی انوارالحق سے شناختی کارڈ طلب کیا اور کہا: میں آپ کا ویزا لگوائوں گی۔ آپ سے سخت شرمندہ ہوں کہ آپ کی پہلے کوئی مدد نہ کر سکی۔ مولوی انوارالحق نے خاتون کو لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ میں اچھے پیسے کماتا ہوں، گاڑی،گھر اور اپنا دفتر ہے۔ لیکن پاکستان میں انصاف کے مندر کے سب سے بڑے ''تپسوی جی‘‘ کی حا لتِ زار پر خاتون کے آنسوئوں کی ندی بہتی ہی چلی گئی۔
وکیلوں کی نقل میں سیاست کو بزنس سمجھنے والے بھی کالا کوٹ پہن کر وکالت کی ایکٹنگ کرنے کی تاریخ بناتے آئے ہیں۔ سب سے بڑی تاریخ، کرپشن کے سب سے تاریخی مقدمے میں کئی بار تاریخ بنانے والے نواز شریف صاحب نے بنائی۔ اس دن میں سیاسی جج کی عدالت میں موجود تھا، جب نواز شریف کو سپریم کورٹ کے سیاسی جج نے شاہراہِ دستور پر مکمل پروٹوکول دیا۔ میں اس دن بھی سپریم کورٹ میں ہی موجود تھا جس روز اس سیاسی چیف جسٹس کی عدالت کے احاطے میں سالہا سال انصاف نہ ملنے پر ایک سائل نے خود سوزی کی۔ اس دوران لاہور کے ایک بہادر رپورٹر نے اس سیاسی جج اور پنجاب کے سیاسی وزیرِ اعلیٰ میں ملاقات کی خبر چلائی تھی۔ نواز شریف کالا کوٹ پہن کر وکیلوں کے انداز میں روسٹرم پر آئے۔ اس وقت بھی میں اگلی صف میں اٹارنی جنرل کی ساتھ والی نشست میں بیٹھا تھا۔ سیاسی چیف جسٹس نے اندھا دھند انصاف شروع کر دیا۔ یوں لگا جیسے justice rushed is justice crushed کا بول بالا ہو رہا ہے ۔ سیاسی انصاف کے ماہر نے میری طرف کن اکھیوں سے دیکھا اور پوچھا: آپ اس کیس میں آئے ہیں۔ میں نے جواب دیا ''جی نہیں‘‘۔ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ آگے بڑھا‘ جنابِ والا فخرالدین جی ابراہیم صاحب وکیل ہیں وہ آج نہیں آ سکے۔ سیاسی جج نے پہلا سیاسی ٹِکر دے مارا ۔ ''یہ نیشنل سکیورٹی کا معاملہ ہے۔ ملک کی سالمیت پر آنچ نہیں آنے دیں گے‘‘۔ اور پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ ان کی سالمیت پر کوئی آنچ نہ آئی بلکہ جنرل شجاع پاشا کا بیانِ حلفی آ گیا۔ اس بیانِ حلفی کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے ہی عدالتی جے آئی ٹی بنائی تاکہ تحقیقات کر کے شواہد اکٹھے کیے جائیں۔ اور یہ تحقیقاتی کام انتہائی قابلِ احترام جج صاحبان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیٹھ کر بقلم خود کیا۔ 
اسی سپریم کورٹ میں پانامہ کیس سنا گیا۔ فیصلہ آیا‘ جس کے خلاف حکومت نے آئینی نظر ثانی دائر کرنے کی بجائے لڈو بانٹے، لُڈیاں ڈالیں۔ شریف خاندان سُرخُرو ہوا‘ عمران خان اور احتساب کا نام لینے والوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ انگریزی فیصلے کی سمجھ حکمرانوں کو تب آئی جب جے آئی ٹی نے کام شروع کیا۔ ملزم طلب ہوئے، سوال پوچھے گئے۔ یخ کمرے میں کرسیوں پر بٹھایا گیا۔ ایک سیاسی ماموں کے بھانجے نے قوم کو ماموں بنانے کے لئے تصویر لیک کی۔ اس تصویر نے ایٹمی پاکستان ، اسلامی جمہوریہ اور 20 کروڑ لوگوں کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا۔ قوم کا مسئلہ لیاقت علی خان کی شہادت نہیں ، شہیدِ کرپشن بچائو مہم ہے۔
بقول حبیب جالب ؎
وطن کو کچھ نہیں خطرہ، نظامِ زر ہے خطرے میں
حقیقت میں جو رہزن ہے، وہی رہبر ہے خطرے میں 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں