یہ میرا اپنا فیصلہ تھا۔ اس لیے کہ کنارے پر کھڑے ہو کر سمندر کی گہرائی نہیں ناپی جا سکتی۔
حسبِ معمول بے نظیر انٹرنیشنل ایئر پورٹ سائیں سائیں کر رہا تھا۔ امیگریشن انچارج خاتون اپنی خطائیں بخشوانے کہیں عبادت میں مصروف تھیں۔ مسافروں کی مدد کے لئے کائونٹر تو موجود تھا‘ لیکن مددگار غائب۔ راول لائونج کے ایک کونے میں پنج ستارہ ہوٹل کے ٹی سٹال سے میرے بیٹھ جانے کے 5 منٹ بعد چائے والا مسکراتا ہوا آیا۔ یہ عظیم جمہوریت کے شاندار استقبالی انتظامات تھے‘ جو بزنس کلاس مسافروں کے لئے پی آئی اے کے سابق چیئرمین اور حالیہ ایل این جی وزیر اعظم کے دور میں بھگتنا پڑے۔
میری منزل برطانیہ کا صنعتی حب مانچسٹر ہے‘ جہاں عارف والا کے میرے دوست رانا ستار ایڈووکیٹ کی بیٹی کی رُخصتی کی تقریب میں مجھے شرکت کرنا ہے۔ تھوڑی دیر بعد فلائٹ PK701 کی روانگی کا اعلان ہوا۔ جامہ تلاشی کے بعد چاند گاڑی میں قدم رکھا۔ ٹوم اینڈ جیری کارٹون شو والی چاند گاڑی نما ویگن‘ جو جب چلی تو اس کی تمام کھڑکیاں‘ سارے دروازے اور سیٹیں بج رہی تھیں۔ ایپرن سے جہاز تک 4 منٹ کا راستہ ایروبک ورزش جیسا لگا۔ ایروبک ورزش اجتماعی بریک ڈانس کا تازہ ورشن ہے۔ آٹو موبائل میوزک اور مفت کی ورزش۔ جہاز کے زینے کے سامنے چاند گاڑی رکی۔ میں نے ایسٹروناٹ کا شکریہ ادا کیا۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ کی پسندیدہ دعا پڑھ کر قومی فلیگ کیریئر میں سیٹ سنبھالی۔ فلائٹ PK701 کے کپتان صاحب نے 20 منٹ تاخیر کے بعد فلائٹ کو ٹیکسی کرنا شروع کیا تو میری حیرانی پریشانی میں بدل گئی۔ اس بوئنگ ایئر بس 300 میں 35 نشستیں ہیں۔ ہر نشست کا یکطرفہ کرایہ تقریباً ایک لاکھ 15 ہزار بنتا ہے۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ آپ کو بھی یقینا، یقین نہیں آئے گا کہ PK701 کے بزنس کلاس کیبن میں صرف ایک مسا فر اور تھا۔ آپ اسے صرف ایک مسافر اور تھی بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ مجھے یہ اندازہ نہیں ہو سکا تھا کہ وہ تھی یا تھا۔ یہ مسافر یا مسافرہ کون تھی‘ مجھے معلوم نہیں ہو سکا۔ میں نے فلائٹ steward کو بلایا اور پوچھا کہ دوسرا مسافر کون ہے؟ پہلے اس نے قہقہہ لگایا‘ پھر کہا: "frequent flyer" یعنی لگاتار ہوائی سفر کرنے والا یا والی۔ یہ کہہ کر وہ دوسرے مسافر پر جھپٹ پڑا لیکن جھپٹنے اور لپکنے والی جھک مارنے پر اسے سخت شرمندہ ہونا پڑ گیا۔ یہ بزنس کلاس کی انتہائی تربیت یافتہ مکھی تھی جس نے اسلام آباد سے مانچسٹر تک 7 گھنٹے سے زائد تنہا سفر میں مسلسل میرا ساتھ دیا۔ ایئرلائن کی زبان میں 34 خالی سیٹوں کا نقصان مبلغ 42 لاکھ، 50 ہزار روپے پاکستانی قومی ایئرلائن کے کھاتے میں گیا‘ جبکہ اکانومی کلاس میں کل 358 مسافر نشستیں تھیں۔ 313 مسافر طیارے پر سوار ہوئے۔ 45 سیٹیں خالی رہ گئیں۔ اکانومی کلاس کا یک طرفہ کرایہ 55 ہزار روپے ہے‘ اس طرح نقصان 24 لاکھ، 75 ہزار روپے بنا۔
اب ذرا جِگر تھام لیں کہ میں آپ کو ایک اور خبر سنانے لگا ہوں۔ قومی ایئرلاین کی صرف ایک فلائٹ PK701 اسلام آباد تا مانچسٹر سے یک طرفہ رُوٹ پر 67 لاکھ، 25 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ یہ اس فلائٹ کا صرف ایک شعبہ تھا۔ اسی ایئر پورٹ سے اومان ایئر، ایمریٹس ائیر لائن، قطر ائیر ویز، اتحاد وغیرہ ہفتے میں چھ سات فلائٹس مختلف رُوٹس پر بھجواتے ہیں۔ آج کل ہر طرف چھٹیاں ہیں۔ ان دنوں ان سب ایئر لائنز کا پرائم ٹائم ہے‘ لیکن ہماری قومی ائیرلائن اس پرائم ٹریولنگ سیزن کے باوجود ہمارے مسافروں کے لیے اسلام آباد تا مانچسٹر ہفتہ وار تقریباً ایک فلائٹ بھجوا رہی ہے۔ پاکستان کے فضائی راستوں پر یہ ہوائی ڈکیتی کس بے رحم قومی مجرم نے ماری، ہم سب جانتے ہیں۔ لیکن دو کہانیاں‘ جو میں اب بیان کرنے لگ ہوں‘ شاید سارے نہ جانتے ہوں۔ یہ دونوں پی آئی اے کی بربادی کی دل دوز داستانیں ہیں‘ بلکہ عجب میگا کرپشن کی غضب وارداتیں۔
پہلی واردات یوں ہوتی ہے کہ ایل این جی وزیر اعظم کے آتے ہی PIA کے مسافر ایک نجی ائیر لائن کے ہاتھوں فروخت ہونا شروع ہو گئے۔ دوسری واردات کی گواہی لاہور میں مقیم تازہ ریٹائر ہونے والے ایک وفاقی سیکرٹری نے دی۔ موصوف نے بتایا کہ اُن کا ایک کارکن PIA فلائٹ کا ٹکٹ لینے گیا۔ سیلز آفس کے باہر بیٹھے شخص نے اُسے کہا: پرائیویٹ ائیر لائن کا ٹکٹ PIA کے ٹکٹ سے سستا دلوا دیتا ہوں‘ جو بر وقت جہاز چلاتی ہے‘ PIA کا کیا پتا کتنے گھنٹے لیٹ ہو جائے۔ ایسے بے حیا جس ادارے کا کھاتے ہیں اُسی کی تھالی میں چھید کرتے ہیں۔ ہمارے واحد قومی فضائی ادارے کی بربادی کی اور بھی کئی داستانیں ہیں‘ مثلاً پچھلے چار سالوں سے بین لااقوامی فلائٹس میں PIA کے کسی جہاز پر مسافروں کی انٹرٹینمنٹ کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ فلائٹ PK701 کی جدید ترین 777 بوئنگ 300 ائیر بس میں ہر مسافر کے سامنے ایل سی ڈی سکرینیں لگی ہیں‘ لیکن ساری کی ساری خراب ہیں۔ میوزک کے لئے بنائے گئے قوالی چینل، اُردو اور انگریزی چینل بھی خاموش ہیں۔
ایک اِن سائیڈر نے بتایا کہ 2 سال پہلے انٹرٹینمنٹ سپلائی کرنے والے ادارے سے کنٹریکٹ تازہ کرنے کے نام پر بھاری رقم جاری ہوئی تھی‘ لیکن ٹی وی یا میوزک کیا بحال ہوتا‘ اس کے بجائے نعرہ لگا دیا گیا کہ جہازوں کو ری فیبرش کریں گے۔ جن دنوں قومی ایئرلائن کی فلیگ کیرئیر نے لندن کے لیے پریمیم فلائٹ کا نااہل وزیر اعظم سے افتتاح کرایا‘ عین انہی دنوں ایک لوکل پرائیویٹ فضائی کمپنی نے وہی طیارے 4000 ڈالر فی گھنٹہ کی وَیٹ لیز پر حاصل کیے۔ آپ جاننا چاہیں گے کہ پی آئی اے کو یہی طیارے ویسی ہی شرائط پر کس ریٹ میں پڑے ؟ دل تھام لیجیے ۔ پی آئی اے کے ہمدرد خادموں کے ٹولے نے سری لنکا سے یہی طیارے 8500 ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے منگوائے تھے۔ کل جب یہ ہوائی قزاق پکڑے جائیں گے تو وہ نام ظاہر ہوں گے‘ جنہوں نے اس ڈیل میں میگا کک بیک کمایا‘ تو ایک جمہوریت بچائو ریلی پھر نکلے گی۔ غریبوں کے نوجوانوں کو روندتی ہوئی یہ ریلی جی ٹی روڈ پر آئے گی۔ مرحب بلٹ پروف کنٹینر سے پھر پکار اٹھے گا: ان سے پوچھو تو سہی مجھے کیوں پکڑا ہے‘ میں نے کیا جرم کیا ہے؟
نااہل وزیرِ اعظم نواز شریف کے سکواڈ کی گاڑی نے گجرات میں ایک بچے کو کچل دیا‘ اور تکبر کے مارے ڈرائیور نے گاڑی روکنے کی بھی زحمت تک نہیں کی۔ چارلس ڈکنز کے ناول A Tale of Two Cities میں ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے‘ جو گجرات میں پیش آنے والے اس افسوسناک واقعہ سے ملتا جلتا ہے۔ ایک غریب آدمی کے بچے کو پیرس کے شہزادے کے رَ تھ نے کچل دیا۔ شہزادے نے رُک کر بچے کے والدین کی طرف سکہ پھینکا اور چلا گیا۔ شاید یہ واقعہ فرینچ ریوولیوشن کا آغاز تھا۔
میں نے فلائٹ steward کو بلایا اور پوچھا کہ دوسرا مسافر کون ہے؟ پہلے اس نے قہقہہ لگایا‘ پھر کہا: "frequent flyer" یعنی لگاتار ہوائی سفر کرنے والا یا والی۔ یہ کہہ کر وہ دوسرے مسافر پر جھپٹ پڑا لیکن جھپٹنے اور لپکنے والی جھک مارنے پر اسے سخت شرمندہ ہونا پڑ گیا۔ یہ بزنس کلاس کی انتہائی تربیت یافتہ مکھی تھی جس نے اسلام آباد سے مانچسٹر تک 7 گھنٹے سے زائد تنہا سفر میں مسلسل میرا ساتھ دیا۔