اعلیٰ دماغوں کی اتفاقیہ فونڈری نے ملک بھر میں افواہوں کی کیمیکل بارش برسانے کا کامیاب تجربہ کر لیا۔
پنڈی بھٹیاں سے سابق وفاقی وزیر لیاقت بھٹی، نوابزادی عائلہ ملک اور ڈی آئی جی سید جُنید ارشد کے مقدمات نے ڈیڑھ دن لے لیا۔ اپنا تھکا ہارا قافلہ پریس کانفرنس سے نکلنے لگا تو لاہور کے ایک سینئر صحافی نے کہا: خبر سُنتے جائیے۔ ظاہر ہے اچھی بات کو خبر کون کہتا ہے۔ بد خبری ٹائپ انتہائی معقول افواہ سُننے کو ملی۔ نااہل وزیرِ اعظم نے نجانے کہاں کہاں افواہ سازی کی فونڈریاں نصب کر دیں۔ پورا مُلک ان 10 سوالوں کے نرغے میں ہے۔
پہلاسوال: مارشل لاء کب آ رہا ہے۔ سوال کرنے والے جواب سُننے سے پہلے اپنا تجزیہ سُناتے ہیں۔ پھر یہ جاننا چاہیں گے کہ آپ کو ان کے تجزیے سے اتفاق ہے۔ بلکہ اتفاق ہی ہے۔
دوسرا سوال: پاکستان کی ایٹمی تنصیبات خطرے میں ہیں۔ پھر تجزیہ ہوتا ہے اور سُننے والے سے تجزیے پر ''ہاں‘‘ طلب ہوتی ہے۔
تیسرا سوال: پاک بھارت ایٹمی جنگ کب ہو گی۔ یہ سوال سُن کر مجھے بھارت کے مقتول ایکٹر اوم پوری یاد آتے ہیں۔ ہندوتوا کے بے رحم قاتلوں کے ہاتھوں بے گناہ مارے جانے سے پہلے اوم پوری نے ٹی وی انٹرویو دیا۔ انٹرویو کرنے والا اینکر انتہائی مُتنازع اور پاکستان سے پیدائشی ناراض ہے۔ اس نے ششی تھروور کے ایک الزام کے جواب میں اپنے ٹی وی نیٹ ورک ری پبلک پر ساڑھے بارہ گھنٹے کی میراتھن ٹرانسمیشن کی تھی۔ ہندوتوا پرست نے اوم پوری کو مشتعل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اپنے بے ہودہ سوالوں کے من پسند جواب حاصل کرنے میں ناکامی پر کہا: اس وقت پاکستانی سو رہے ہیں۔ امرتسر سے لاہور کا 65 کلومیٹر فاصلہ ہے۔ آگے بڑھو، حملہ کرو۔ مقتول اوم پوری نے کمال لہجے میں ہندوتوا پرست کو لا جواب کر دیا۔ کہا ''تم چاہتے ہو 5/6 ایٹم بم ہم چلائیں 7/8 پاکستان ہم پر گرا دے‘ کروڑوں لوگ مارے جائیں‘ اور شہروں کو کھنڈر بنا دیں‘‘۔ بہرحال جہاں حکومت نہ ہو، حکمرانی باقی نہ رہے۔ سارے ریاستی وسائل خاندانی تجارت بچانے پر لگے ہوں۔ وہاں ہر طرح کے سوال ممکن ہیں۔ اور یہ بھی ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ پاکستان دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے جو پالیسی سازی، حکمرانی، ریلیف اور گورننس کے بد ترین بحران کا شکار ہے۔
چوتھا سوال نااہل خاندان کے خلاف کرپشن مقدمات کے مُستقبِل کے بارے میں ہو رہا ہے۔ کیا نااہل وزیر اعظم کو نیا این آر او ملے گا۔ مُلزموں کے نام ای سی ایل میں کیوں نہیں ڈالے گئے۔ کیا ٹرائل کرنے والے پراسیکیوٹر اور جج محفوظ ہیں۔ یہ وی آئی پی ٹرائل اپنے انجام کو پہنچے گا یا اس دوران حسبِ سابق ناجائز دولت اور کمزور ریاستی اداروں کے درمیان مُک مکا ہو جائے گا۔
پانچواں سوال ختمِ نبوت کے حوالے سے آلِ شریف کی مُتنازع قانون سازی سے مُتعلق ہے۔ جس کے با رے میں پہلے کہا گیا کوئی ترمیم نہیں ہوئی۔ پھر کابینہ کے دوسرے رُکن نے کہا: کلیریکل غلطی ہو گئی۔ تیسرا بولا: سازش کو بے نقاب کریں گے۔ چوتھے نے ترمیم میںایک اور قانونی ترمیم کرنے کا بل قومی اسمبلی میں پیش کر ڈالا۔ پانچویں نے کفن پھاڑ دیا اور چلایا: یہ بل تو تمام پارٹیوں نے کمیٹی میں پاس کیا تھا۔ چھٹے نمبر پر ایل این جی وزیرِ اعظم کی باری آئی۔ موصوف نے فرمایا: ختم نبوت ہمارے ایمان کا حصہ ہے‘ قانون میں تبدیلی کرنا تو دور کی بات ہے ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ حکمرانی کے اس نہلے پر نااہلی نے دہلا دے مارا۔ نااہل شریف نے اسی پارلیمانی پارٹی کے 3 ارکان پر مشتمل کمیٹی بنا دی۔ جن 3 ارکان نے اس مُتنازع قانون سازی کے حق میں کھلی آنکھیں بند کرکے اور ہاتھ ہوا میں لہرا کر ووٹ دے رکھا ہے۔ ان تینوں میں سے دو نے اسے سینیٹ میں بلڈوز کیا جبکہ تیسرے نے رات کے اندھیرے میں بغیر بحث کروائے یہ ترمیم قومی اسمبلی کے فلور سے پاس کروانے کا کارنامہ سرانجام دیا۔
چھٹا سوال اس سویلین سپائی ماسٹر ادارے کے حوالے سے اُٹھایا گیا‘ جس نے پچھلے پانچ سالوں میں پہلا دہشت گرد پکڑ لیا۔ یہ کوئی اور نہیں جنابِ ارشد شریف ہیں‘ جن کی محنت شریف رنگ لائی اور تجزیے شریف نے نااہل شریف کو ظلِ الٰہی کے خطاب سے محروم کرکے ڈبل نااہل شریف بنانے میں دلیرانہ کردار ادا کیا۔ آئی بی کے اس خط نے میرے ذہن میں 1997ء کی شریف طرزِ جمہوریت کا ٹریلر چلا دیا۔ تب بھی ایک فہرست ملک کی آخری عدالت میں پیش ہوئی تھی‘ جس میں کچھ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان سمیت پارلیمنٹیرین حضرات کے فون ٹیپ کرنے کی تفصیل درج ہے۔ میں اس وقت تک پارلیمنٹ کا رُکن نہیں بنا تھا‘ مگر آلِ شریف کے وفاداروں نے میرا نام بھی اس لسٹ میں ڈالا‘ جن کے ٹیلی فون کی ریکارڈنگ ہوئی۔ کمال کی بات یہ ہے ایک طرف نااہل نظام کے منیجر کہتے ہیں‘ ان کی صفوں میں کوئی دراڑ نہیں دوسری جانب حکمران پارٹی کے ارکان کو دہشت گردی کی فہرست میں ڈال دیا گیا۔ ساتھ کہا جا رہا ہے‘ یہ فہرست جعلی اور فرضی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ دہشت گردوں کی اس پارلیمانی لسٹ کے حوالے سے غیر مُلکی سفارت خانوں کو خط لکھے جا رہے ہیں۔ بات بات پر کمِیشن کے عادی کمیشن بٹھانے والے کمیِشن خور آئی بی رپوٹ پر کمیشن بنانے سے بھاگ رہے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔
ساتواں سوال سینیٹ کے الیکشن سے متعلقہ ہے۔ ہائوس آف فیڈریشن کا اگلا الیکشن اگلے سال مارچ کے مہینے میں ہو گا‘ جس کے ذریعے ایوانِ بالا میں اکثریت حاصل کرنے کا فارمولا بنے گا۔ میں نے اور جان جمالی نے پورا زور لگایا تھا کہ سینیٹ کا الیکشن بھی عوام کے ووٹوں سے ہونا چاہیے‘ لیکن اندر کی مخالفت نے سینیٹ کے عہدے کے لیے وہ طرزِ انتخاب رائج نہ ہونے دیا‘ جو ساری مہذب دُنیا میں ہے۔ سازشی تھیوریوںکی سٹاک مارکیٹ چلانے والے کہتے ہیں: اسمبلیوں کے انتخابات سینیٹ الیکشن سے پہلے ہوں گے۔ وہ ایسا کیوں کہتے ہیں‘ اس کا جواب سازشیوں کی اتفاقیہ فونڈری چلانے والے ہی دے سکتے ہیں۔
آٹھواں سوال سُن کر440 واٹ کا جھٹکا لگتا ہے۔ نااہل جمہوریت ہائی کورٹ کے جج صاحبان کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمر 62 سال سے گھٹا کر 60 کرنے اور سپریم کورٹ کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال سے گھٹا کر 60 سال کرنے کے ڈرافٹ کو فائنل کر چُکی ہے۔ ساتھ ہی عدلیہ اور فوج کی تعیناتیاں وزیر اعظم کے قانونی اختیار میں لانے کا مسودہ بھی لنگر گپ کا حصہ ہے۔ ہم سب کو یاد ہے‘ پچھلے ہفتے اقامہ ہولڈر وزیر داخلہ نے جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد کے باہر جس کا کھلا اشارہ بھی دیا۔ منہ سے شعلے برسانے والی میڈیا ٹاک کے دوران وزیر نے ہر جگہ سویلین بالا دستی قائم کرنے ورنہ مُستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ عدلیہ پر ایسے وار کا مطلب سپریم کورٹ سے جج صاحبان کی اکثریت کو ریٹائر کرنا ہو گا‘ اور پھر اگر اختیار ہاتھ میں آیا تو ریٹائرمنٹ کے بعد زمین تنگ کر دینے کا وعدہ پورا ہو گا۔
نواں سوال سال ہا سال کی عبوری حکومت والا ہے جبکہ دسواں سوال اسلامی جمہوریہ پاکستان کو جمہوریہ جنگلہ شریفستان میں تبدیل کرنے والا۔ خوف ذدہ لانگری ان دس کے دس سوالوں کے بانی ہیں اور موجد بھی۔ رات کے راہی یا پھر مِڈ نائٹ جیکال ان سوالوں سے دل بہلاتے رہیں‘ ہم تو اسے مذاق رات ہی سمجھتے رہیں گے۔