وزارتِ خارجہ، وزیرِ خارجہ، سفارت خانے مختلف ڈیسک اور ڈائریکٹر جنرل ان کی بیویاں، بچے، گاڑیاں، جہازوں کے ٹکٹ پاکستان کو کروڑوں میں نہیں اربوں روپے میں پڑتے ہیں۔
منگل کے روز پاکستانیوں کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن پاکستان کیا آئے پوری وزارت خارجہ زیر زمین چلی گئی۔ ملاقات کا اعلامیہ وزیر اعظم ہائوس کی بجائے بری امام کے نواح میں واقع امریکی سفارت خانے سے جاری ہوا۔ کرپشن کے بوجھ تلے دبی ہوئی کابینہ میں سے کسی نے اتنی ہمت نہیں کی کہ اس ملاقات کے بارے میں پاکستانیوں کے لئے اپنا قومی اعلامیہ جاری کر سکے۔ اقتدار چھن جانے سے خوف زدہ شدید مالی بدعنوانیوں کے ملزم گروہ سے اور کیا پرفارمنس متوقع ہوتی۔ اسلام آباد پہنچنے سے پہلے کابل میں ایک محل کی حکومت کے مکین کے پاس، امریکی سیکرٹری خارجہ کا بیان دھمکی تھا۔ جس کے بعد وزیر اعظم، کابینہ گونگے ہو گئے۔ کسی ایٹمی ملک کی تاریخ میں ایسا منظر دوسری قوم نے نہیں دیکھا۔ یہ وہی برصغیر ہے جہاں مسلم راج میں انڈیا دنیا کا امیر ترین ملک تھا۔ جہاں پورے کرہ ارض کی جی ڈی پی کا حصہ 27 فیصد تھا۔ مسلم راج سے پہلے ہندوستان نہ قومی ریاست نہ ہی ایک متحدہ مملکت رہا۔ بلکہ تقریباً 1000 سال تک انڈیا بے شمار قوموں اور راجواڑوں میں تقسیم رہا تھا۔ ایک دوسرے سے لڑنے کے علاوہ کوئی اجتماعی روڈ میپ کبھی نہ بنا۔ مسلم راج نے انڈیا کو معیشت، تجارت اور ثقافت کا عروج بخشا۔ پہلے کے ادوار میں تاریخ نویسی کا نام نہ تھا۔ مسلم تاریخ دانوں سے پہلے داستان گو جو کہانی سناتے وہی تاریخ تھی۔ 11ویں صدی سے لے کر 13ویں صدی تک آدھی دنیا لوٹ لی گئی۔ شہر تاراج ہوئے، بستیاں نذرِ آتش کی گئیں۔ تاریخ کے بدترین گینگ ریپ اور بربادی کی ہولناک داستانیں اسی دور کے المیے ہیں۔ منگولوں نے مسلم زمینوں کو بھی تاراج کیا۔ لیکن مسلمانوں نے انڈیا کو اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر منگول وحشت گری سے محفوظ رکھا۔
اس مختصر تمہید کا مقصد تاریخ کا دُوسرا ورق الٹنا ہے‘ جس میں انڈیا نے برٹش راج دیکھا۔ 200 سال میں فرنگیوں نے ہندوستان کا جی ڈی پی دنیا کے 27 فیصد حصّے سے گرا کر 4 فیصد سے نیچے اتار دیا۔ 4 ملین سے زیادہ انڈین گولیوں سے بھون دیئے گئے‘ جن کی لاشیں اور سر درختوں اور دیواروں پر لٹکائے گئے۔ پورا ہندوستان غربت کے اس گڑھے میں اتارا گیا جہاں سے نکلنے کے لئے جنوب مشرقی ایشیا کا برِّصغیر آج تک ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔ ایسے میں ایک طرف پاکستانی پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد دیکھ لیں‘ جبکہ دوسری جانب وزیراعظم کا بیان کہ ہم دنیا میں دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کے سٹریٹیجک حصّہ دار ہیں۔
کوئی پوچھے کہاں؟ بھائی کس ملک میں حصّہ دار ہو؟ حصّہ دار صاحب کیا آپ نے کبھی جنگ زدہ پاکستانی علاقوں کا دورہ کیا؟ رنگیلا طرزِ حکمرانی کے شاہکار دوسرے ملکوں میں جہازوں میں بیٹھ کر سیلفیاں بناتے ہیں۔ وہ جہاز جن کا کرایہ پاکستانی قوم بھر رہی ہے۔ دھاندلی کے ذریعے نظام میں بھرتی ہونے والا یہ ٹولہ گورے کے سامنے کسی بھی معاملے میں سر نہیں اٹھا سکتا۔ قوم کی آواز کیا اُٹھائے گا؟ اس کا واضح ثبوت دو واقعات سے ملتا ہے‘ جو ٹلرسن کے دورے سے متعلقہ ہیں۔ پہلا یہ کہ نااہل شریف کی حکومت نے قوم، میڈیا یا پارلیمنٹ کو یہ نہیں بتایا ٹلرسن بہادر کون سی شرائط منوا کر یا ہمارے سامنے رکھ کر واپس گئے ہیں۔ اگلے روز اقامہ کابینہ کے ایک وزیر نے سینیٹ آف پاکستان میں کہا امریکہ سے کوئی سودے بازی نہیں ہو گی۔ اس بیچارے کو ٹلرسن کے دورے کے دوران ''چُپ‘‘ کا دورہ پڑا رہا۔ سوال یہ ہے اگر حکومت نے امریکہ سے کوئی ڈیل نہیں مانگی یا امریکہ نے پاکستان کے سامنے کوئی فرمائشی لسٹ نہیں رکھی‘ تو پھر کس سودے بازی سے انکار کیا جا رہا ہے؟ دوسرا ٹلرسن نے بھارت پہنچ کر خود ہی بیان کر دیا۔ امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ برائے امور خارجہ نے مستقبل کا 2 نکاتی امریکی روڈ میپ کھول کر رکھا۔ پہلا نکتہ یہ کہ بھارت امریکہ کا فطری اتحادی ہے۔ دوسرے، امریکہ بھارت کو خطے کا ''لیڈر‘‘ بنا کر چھوڑے گا۔ ان حالات میں خارجی امور کے ''اقامتی‘‘ وزیر اور وزیر اعظم کی خارجہ پالیسی کیا ہے؟ یہ کہنا کہ چین اپنا یار ہے‘ روس پر دل نثار ہے اور ایران تافتان کے پار ہے‘ فارن پالیسی نہیں ہو سکتی۔ کرہء ارضی پر کوئی ایسا ملک یا قوم نہیں جسے اپنے وطن کا مفاد عزیز نہ ہو‘ ماسوائے ان تاجر حکمرانوں کے جنہیں مشرق و مغرب میں کرپشن کے اثاثے پہنچانے اور پھر مسلسل چوری چھپانے سے فرصت نہیں۔
ٹلرسن کی اسلام آباد یاترا کا دلچسپ پہلو بھی سن لیجئے۔ وہ آیا۔ اس کے جہاز ی بیٹرے نے لینڈ کیا۔ وہ ایئربیس سے امریکی سفارت خانے جا پہنچا۔ حلیہ درست کرکے میٹنگ میں آیا پھر سفارت خانے چلا گیا۔ ایئرپورٹ واپس آیا اور امریکی جہاز اڑ گئے۔ امریکی وفد کے پاکستانی سرزمین پر ''ٹچ اینڈ گو‘‘ کا کل ٹائم 4 گھنٹے سے بھی کم بنتا ہے۔ خود سوچ لیجئے ''بنانا‘‘ ری پبلک برانڈ وزیر داخلہ اور اقامہ برانڈ کابینہ میں سے کس میں ہمت تھی وہ ہاں، جی، سر، جناب، ایکسی لینسی کے علاوہ بھی کچھ کہہ سکے۔ اس دورے کا ایک اور نتیجہ کابل کا مطالبہ بن کر سامنے آیا۔ اشرف غنی نے بڑی سرکار کی خوشنودی کے لئے یہ استقبالی بیان داغا۔ ''ہم سی پیک کو تب مانیں گے جب ہمیں واہگہ اور اٹاری تک رسائی ملے گی‘‘۔ اس علاقائی پدی نے‘ جو اپنے گھونسلے سے باہر نہیں نکل سکتی‘ مزید شوربہ بکھیرا۔ کہا: بھارت تک راہ داری نہ دی تو افغانستان پاکستان کو وسطی ایشیا تک رسائی نہیں دے گا۔
کھیل سامنے ہے اور چاروں کھلاڑی بھی۔ پہلا کھلاڑی ٹلرسن‘ جو بھارت کو ایشیا کی نمبرداری دینے کا اعلان کرنے آیا تھا۔ دوسرا کھلاڑی اشرف غنی‘ جس نے بھارت بھگت ہونے کا بھاشن دیا۔ تیسرا کھلاڑی مودی اور چوتھا مودی کا یار۔ قوم حیران ہے۔ کھیل ان 4 کھلاڑیوں کے درمیان ہو تو پاکستان کی وکالت کرنے والا کون ہو گا۔ اسی لئے تو پاکستان کی سرزمین پر قائم امریکی سفارت خانے نے مذاکرات کا اعلامیہ جاری کیا۔ رہ گئی ہماری جمہوریت بہادر کی حکومت بہادر تو اس نے بہادری کی حد کر دی‘ جس کی ٹانگیں اپنے پریس کو اپنا مؤقف لکھ کر پریس نوٹ جاری کرنے سے کانپ اُٹھیں۔ اب بھی اگر کوئی نہ مانے کہ حکومت بہادر نہ کسی کی پراکسی، نہ کوئی اس کا وائسرائے۔ حکومت بہادر نہ تو کسی سے ڈرتی ہے۔ نہ ہی ہماری شیر دلیر کابینہ کو کوئی ڈکٹیٹ کر سکتا ہے۔ جسے یقین نہ آئے تھانہ لوہاری گیٹ کے ایس ایچ او سے پوچھ لے یا پھر قائد اعظم یونیورسٹی کے 70 طلبہ سے‘ جنہیں ٹلرسن کے آنے کی خوشی میں پُرامن احتجاجی کیمپ سے اٹھا کر تھانے میں ڈالا گیا۔ پھر قوم کے خرچ پر چلنے والی یونیورسٹی سے غریبوں کے بچے نکال دیے گئے۔ بہادری کا آخری نشان جدہ سے واپس لندن پدھارا۔ اس دفعہ لگتا ہے پانامہ کیس کے بعد شہزادے سیانے ہو گئے۔ ٹرمپ خود سب سے بڑا تاجر ہے۔
مسلم تاریخ دانوں سے پہلے داستان گو جو کہانی سناتے وہی تاریخ تھی۔ 11ویں صدی سے لے کر 13ویں صدی تک آدھی دنیا لوٹ لی گئی۔ شہر تاراج ہوئے، بستیاں نذرِ آتش کی گئیں۔ تاریخ کے بدترین گینگ ریپ اور بربادی کی ہولناک داستانیں اسی دور کے المیے ہیں۔ منگولوں نے مسلم زمینوں کو بھی تاراج کیا۔ لیکن مسلمانوں نے انڈیا کو اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر منگول وحشت گری سے محفوظ رکھا۔