یہ 1996ء کی خُنک شام تھی۔ تب میرا لاء آفس مری روڈ راولپنڈی پرانے پاسپورٹ آفس کی بلڈنگ کی جگہ نئے تعمیر شدہ پلازے میں تھا۔ اسی لاء آفس میں ایک مشہور سپائی ماسٹر، ایک معروف صحافی اور ایف آئی اے کے سدا بہار ''فنکار‘‘ کے ہمراہ دھمکی پہنچانے آیا۔ اُس وقت کے وزیرِ داخلہ مرحوم جنرل نصیراللہ بابر کا نام لے کر مجھے ڈرانے والا کہنے لگا: آپ نے کراچی کے غلط مقدمے قبول کیے۔ وہ مزید بولنا چاہ رہا تھا۔ میں نے صحافی سے پوچھا: یہ صاحب کیا کام کرتے ہیں۔ پھر جواب سنے بغیر ہی گھنٹی بجا کر مُنشی شبیر سے کہا: اِن کو میرا کارڈ دے دو۔ بہت جلد موصوف کو فوجداری وکیل کی ضرورت پڑنے والی ہے۔ یوں 48 گھنٹے کے اندر تھانہ نیو ٹائون راولپنڈی میں میرے خلاف مقدمہ درج ہو گیا۔
چند ماہ بعد حکومت ٹوٹی اور بی بی شہید کے خلاف ابتدائی مقدمے میں بطورِ وکیل مجھے میٹنگ کے لیے بلایا گیا۔ حاجی نواز کھوکھر اور ناہید خان کے ہمراہ پہنچا۔ میں 17واں کھلاڑی تھا۔ دو اٹارنی جنرل تین سابق وزیرِ قانون (عزیز اللہ شیخ کراچی) میرے گرائیں راجہ ایم انور جیسے سینئر موجود تھے۔ بی بی نے کہا: کل کے کیس کی سٹریٹیجی طے کریں۔ میں لیٹ آیا اِس لیے سب سے دور بیٹھا تھا۔ ہاتھ اُٹھایا اور کہا: I WANT TO SPEAK بی بی نے انگریزی میں جواب دیا: نہیں، مجھے بات کرنے دیں۔ میں نے پھر کہا: جی پہلے میری بات سُن لیں۔ بی بی نے بھرپور جلالی جواب دیا: NO BODY SPEAKS, BEFORE I SPEAK میں نے تیسری مر تبہ کہا: آپ سے پہلے بولنا چاہتا ہوں۔ وہ غصے میں آ گئیں۔کہا: بولو۔ میں نے کہا: آپ جیسے کلائنٹ کے مقدمے کی سٹریٹیجی میاں بیوی اور ایک وکیل کو بنانی چاہیے‘ جلسہ نما میٹنگ کو نہیں۔ وہ غصے میں بولیں: کیوں‘ اِس میں کیا حرج ہے؟ جواب دیا: تاکہ چور پکڑا جا سکے۔ چور سمیت میٹنگ کی باقی روداد پھر سہی۔ اگلے دن میٹنگ میں پہنچنے کا فون آیا۔ کہا: یہ میرے آفس کا ٹائم ہے۔ بی بی صاحبہ ناہید خان کے ساتھ میرے حصے کا ڈِنر لے کر مری روڈ میرے دفتر پہنچ گئیں۔
حیران ہوتا ہوں‘ جب درجنو ں گاڑیوں، ہٹو بچو کی صدائوں، سینکڑوں اہلکاروں، عوام کے پٹرول، پولیس کے نرغے اور خوشامد کے پانچ ماہر کلاکاروں کے سائے میں آلِ شریف ''سخت اور بے رحمانہ‘‘ احتساب کے لیے قدم رنجا فرماتے ہیں۔ ناجائز دولت کے غبارے میں زندگی گزارنے والے ایک دن اصلی کچہری میں گزاریں۔ اپنے پلے سے پروفیشنل وکیل کی فیس دیں (آج کل کون دے رہا ہے پتا ہے) عام سائل کی طرح صبح پونے آٹھ بینچ پر بیٹھیں۔ تین بجے شام سرکار بنام نواز شریف کا بلاوا ہو۔ سائلوں کی بھیڑ چیر کر کہنیاں مارتے کٹہرے تک پہنچیں تو ہم اسے وہ انصاف کہیں گے جو سب کو ملتا ہے۔
ایک تازہ واقعہ سن لیجئے۔ میرے چھوٹے صاحبزادے عبدالرحمن قانون کے دوسرے سال میں ہیں۔ یہ ہفتہ عبدالرحمن کی اپرنٹس شپ کا تھا۔ عمران خان کے ضمانتی مچلکوں، روبکار اور چار فوجداری مقدمات میں ضمانت کی فائل تیار کرنے کے لیے عبدالرحمن کو منشی شبیر کے حوالے کیا۔ سپریم کورٹ بلڈنگ کے بار روم کے باہر بینچ پہ فائل تیار ہوئی‘ جسے لے کر ہم بنی گالہ پہنچے۔ عمران خان کو دھرنے کے دوران بنائے گئے دہشت گردی کے چار مقدمات میں عدالت کے سامنے پیش کرنا تھا۔ میں پہلے سٹاف کے ساتھ عدالت گیا۔ درخواست ضمانتوں کی فائلنگ کے ضابطہ جاتی تقاضے پورے کیے۔ فائلیں جب آفیسر جلیس کے سامنے پہنچی‘ تب سٹاف نے نعیم الحق صاحب کو فون کیا۔ ایک گاڑی میں عمران خان، نعیم الحق، عون چوہدری، ایوب گارڈ کے ہمراہ جوڈیشیل کمپلیکس آئے اور برآمدوں میں سے ہوتے ہوئے کٹہرے تک پہنچ گئے۔ پیشی ہوئی عبوری ضمانت ملی۔ موکل واپس چلا گیا۔ مجھے وکیلوں اور اہلکاروں نے آدھا گھنٹہ مزید روکے رکھا۔
شریفانہ احتساب یاد آتا ہے۔ 1998ء میں 'احتساب الرحمٰن کمیشن‘ کا طوطی بولتا تھا۔ مُنشی شبیر کو دہشتگردی کا پرچہ کاٹ کر اڈیالا بھجوایا گیا۔ قصور تھا‘ بحث کے دوران جس دستاویز، فیصلے اور گواہ کا تذکرہ کرتا‘ وہ اس کا ثبوت میز سے اٹھا کر روسٹرم پر رکھ دیتا۔ شریفانہ احتساب کی اس پر بھی تسلی نہ ہوئی۔ ایک رات منصف، پراسیکیوٹر، احتساب کا سربراہ وزیرِ قانون کے گھر اکٹھے ہوئے۔ فیصلہ کرنا تھا کہ وکیل صفائی کو راستے سے کیسے ہٹایا جائے۔ پہلے میرے دفتر پر چھاپا مارا گیا۔ غالباً حکومت کو جادو کی اس چھڑی کی تلاش تھی‘ جو احتساب کو قانون کے راستے سے ہٹنے نہیں دے رہی تھی۔ محترم اسداللہ غالب نے ''وکیل صفائی پر چھاپہ‘‘ کے عنوان سے دلیرانہ کالم لکھ مارا۔ لاء منسٹر والی میٹنگ جونہی ختم ہوئی‘ 2 شرکا نے کمال مہربانی سے بتایا: آپ کی گرفتاری کا فیصلہ ہوا ہے۔ فرمائش شریفانہ احتساب کی تھی، منظوری 2 رکنی بینچ کے سینئر رُکن نے دی۔ یہ سب کچھ سپریم کورٹ تک ریکارڈ پر آیا۔ اسی دوران شرمیلا فاروقی کو گرفتار کیا گیا۔ ینگ لیڈی شرمیلا کا قصور یہ تھا کہ والد عثمان فاروقی کو بے گناہ جانتے ہوئے شریفانہ احتساب کے مقدمے کی پیروی کرنے کراچی سے اسلام آباد آئیں۔ سینئر بیوروکریٹ سلمان فاروقی صاحب کا وکیل بھی میں تھا۔ وہ جوانی میں چوہدری نثار کے فیورٹ آفیسر تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد محترم سعید مہدی صاحب کی طرح میرے ہیں اور میں ان کا محض دعاگو۔ سعید مہدی ضیاء مارشل لاء کے عروج پر کالج یونین کے صدر کی حیثیت سے مجھے گرفتار کرنے آئے تھے۔ تب ڈپٹی کمشنر کیا ہوتا تھا یہ بتانے کے لیے سعید مہدی صاحب کا واقعہ قارئین کو کبھی ضرور سنائوں گا۔ پھر میں وکیل ہو گیا اور سعید مہدی جنرل مشرف کے قیدی۔ ایک غیرت مند وفاقی سیکرٹری کی شریفانہ احتساب میں دورانِ حراست اس قدر تذلیل ہوئی کہ سید زادہ جان سے گزر گیا۔ ایسے ہی احتساب پر گاڈ فادر نے 11 جون 2012 ء کو یہ تقریرکی۔
''سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے پر حکومتی رویے نے بحرانوں میں گھرے پاکستان کو نئے بحران سے دوچار کر دیا۔ حکمرانوں نے عدلیہ کے فیصلوں کی توہین کو اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے۔ اداروں سے تصادم کا سلسلہ عروج پر ہے۔ عدلیہ کے درجنوں فیصلوں کو پائوں تلے روندا گیا۔ اُس کے وزرا اور لیڈر ہر روز عدلیہ کی توہین کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی بنچ کا فیصلہ اسی صورتِ حال کی ترجمانی کر رہا ہے۔ لگتا ہے حکومت مہم جوئی کے ایک نئے سلسلے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ میں یہاں حکومت کی اتحادی جماعتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وقت کی نزاکت کا احساس کریں۔ اس مرحلے پر ایسی حکومت یا اس کے کسی عہدیدار پر اظہارِ اعتماد کا مطلب ہو گا وہ عدلیہ، آئین، قانون، جمہوری عمل، اٹھارہ کروڑ عوام پر عدمِ اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ وہ وقت کی پکار سنیں اور اس بدعنوان حکومت سے لاتعلقی کا اعلان کر دیں‘ جس نے محض اپنی کرپشن کے تحفظ کے لیے جمہوری نظام دائو پر لگایا۔ میں سمجھتا ہوں‘ سپریم کورٹ کا فیصلہ تمام سیاسی قوتوں پر ذمے داری عائد کرتا ہے کہ وہ سیاسی تدبر اور حکمت کا مظاہرہ کریں۔ ملک کو اس بحران سے نکالیں‘ جس کی واحد صورت یہ ہے جلد از جلد انتخابات کروائے جائیں‘‘۔
اب میرا یہی مطالبہ غیر آئینی کیسے ہے؟