سرزمینِ پاک کے حیران باسیوں نے سرکاری سرپرستی میں عوامی عدالت کی پریشان کُن کارروائی دیکھی۔ پھٹی آنکھوں کے ساتھ ایک دفعہ نہیں بلکہ 2 مرتبہ دیکھی۔
پہلی سٹریٹ جسٹس کرنے والی عدالت گُرو نے راولپنڈی کے چاندنی چوک میں لگائی۔ ٹِکٹِکی باندھی گئی، نیم برہنہ گناہ گار ٹکٹکی پر مصلوب کیے گئے۔ سرکاری اہل کاروں نے شہریوں کو گھیر گھار کے مجمع سجایا۔ کوڑے مارنے والے کے نزدیک پرانے زمانے کا مائیک رکھا گیا۔ ساتھ ہی پورے علاقے میں جہازی سائز کے لائوڈ سپیکر نصب ہوئے۔ گنہگار کی ہر چیخ اور آہ و بکا سرکاری ٹی وی پر لائیو کوریج کے ذریعے گھروں میں بیٹھے بچوں اور خواتین تک پہنچائی گئی۔ اس طرح محکوم بنائے گئے کروڑوں لوگوں تک یوں پیغام بھیجا گیا۔
تُو کہ، ناواقفِ آدابِ غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
دیکھ فریاد نہ کر، سر نہ اُٹھا...
گُرو اس جہانِ فانی سے چلا گیا، تو چیلے کا زمانہ آیا۔ مغل شہنشاہ بابر کی طرح گُرو نے اپنی عمر چیلے کو عطا کر دی۔ تابعدار چیلے نے گُرو کے مدفن پر کھڑے ہو کر اس کا مشن آگے بڑھانے کا اعلان کر دیا۔ عشروں، سالوں بعد 2017ء میں چیلے نے اپنا یہ وچّن سچ کر دکھایا۔ چیلے نے اپنے قدیم عزم کو یوں دُہرایا کہ میں 4-5 ججوں کا فیصلہ نہیں مانتا، میرا فیصلہ عوام کی عدالت میں ہو گا۔ عوام سے یہ فیصلہ کرواتے کرواتے چیلا گجرات جا پہنچا‘ جہاں اس کی عوامی عدالت نے ایک 11 سالہ لڑکے کو فوری انصاف سے کُچل کر مار ڈالا۔ یہ تو ایک گرو کی داستان ہے۔ ہماری قومی تاریخ میں گرو چیلے کی کئی کہانیاں اور بھی ہیں۔ اٹک کے تاج خانزادہ میرے کلائنٹ تھے۔ برٹش رائل آرمی کے ڈیکوریٹڈ کپتان۔ ان کے ایک عزیز چیف سیکرٹری صوبہ سرحد تھے‘ جاوید عالم خانزادہ‘ وہ بھی میرے کلائنٹ بن گئے۔ وہ اپنے انکل تاج خانزادہ کی طرح صحیح گورا صاحب تھے۔ 6 فٹ سے زیادہ قد، چوڑی چھاتی، سابق فوجی افسر، فرانسیسی آنکھیں، گھنگریالے بال اور پنک رنگ۔ فوج میں جنرل مشرف کے ہم پیالہ تھے۔ لباس ایسا‘ جیسا ہمارے دوست سینیٹر انور بیگ ہی افورڈ کر سکتے ہیں یا پھر میرے فیورٹ اداکار اسلم پرویز مرحوم۔ 12 اکتوبر 1999ء کے ٹیک اوور کے بعد جاوید عالم خانزادہ‘ جو خاندانی طور پر مالی لحاظ سے بڑے سُکھی تھے‘ اپنے نئے چیف ایگزیکٹو اور سابق دوست کو ملنے گئے‘ جس کی کہانی اُنھوں نے پشاور ہائی کورٹ میں اپنے کیس کی سماعت کے بعد مجھے لنچ کے دوران سنائی۔ دریائے کابل کے کنارے سینکڑوں قالینوں پر، ہزاروں قمقموں کی روشنی میں، درجنوں معززین کی شاہی ضیافت کا اہتمام کیا گیا۔ اس تقریب کا مہمانِ خصوصی جاوید عالم خانزادہ کا ''دوست‘‘ تھا۔ دوست اپنے ''بڈی‘‘ کی طرف سے دریائے کابل کے کنارے اس تاریخی استقبال، لذیز ترین خور و نوش اور عزت افزائی سے بہت زیادہ متاثر ہوا‘ جس کا اظہار بلا تاخیر نصف شب ہی ہو گیا۔ ضیافت ختم ہوئی تو گاڑی میں بیٹھتے ہی چیف نے اپنے سٹاف آفیسر کو حکم جاری کر دیا: چیئرمین نیب کو فون کرو‘ اسے کہو جاوید عالم خانزادہ کو فوراً اُٹھا لے‘ اس کے پاس اتنا مال کہاں سے آیا‘ تحقیقات کرے، پھر ریکوری اور مجھے رپورٹ پیش کرے۔
اسی گرو کے ایک اور چیلے نے لاہور میں ایک پنج ستارہ ہوٹل کے آٹھویں فلور پر نیو یارک نائٹ کے نام سے محفلِ رنگ و سرود برپا کی۔ چیلا صنعتی شعبے کا معروف اور معزز نام تھا۔ دوسرا بھائی سیاست کار اور سابق وزیر ہے۔ اتفاق سے اسی دن پنجاب کے ایک سابق وزیرِ اعلیٰ کے مقدمے میں پیش ہونے کے لیے میں لاہور لاء آفس آیا‘ اور اسی ہوٹل میں قیام کیا۔ آٹھویں فلور کی محفل میں جب سرور کا ظہور ہوا تو بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے جا کر گُرو کی خدمت میں پیش کر دیا۔ ساتھ کہا: یہ آج سے آپ کا ہوا‘ بہت کام کا آدمی ہے، میں نے اسے آپ کا مزاج سمجھا دیا ہے۔ راوی کے مطابق وڈے بھاء جی نے چھوٹے کو متبادل قیادت بنا کر اس کی رونمائی کی تھی... مگر اگلے دن کا سورج کچھ اور ہی منظر لے کر طلوع ہوا۔ نیب نے گلبرگ میں چھاپہ مارا اور گُرو کے حکم پر چیلے کے چھوٹے بھائی کو نیند سے جگا کر گرفتار کر لیا۔
بات ہو رہی تھی عوامی عدالت کی، لیکن یہ گُرو چیلا درمیان میں پتہ نہیں کہاں سے کود پڑے۔ یادش بخیر! نااہل شریف کی اقتداری ہیٹرک سے پہلے لوڈ شیڈنگ کے خلاف پنجاب میں گاڈ فادر 2 نے سرکاری احتجاجی مہم چلائی۔ اس انوکھی مہم کا ہدف لاہور کا واپڈا ہائوس، گجرانوالہ، فیصل آباد اور پنجاب بھر کے گرڈ سٹیشن تھے‘ جہاں کروڑوں روپے کا ریکارڈ، قومی اثاثے مسلم یوتھ ونگ نے کارِ خاص والوں کی سرپرستی میں جلا ڈالے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ محکمہ بجلی کے اہلکاروں کے سر پھوڑے اور بازو بھی توڑے گئے۔ عوام کی ایسی عدالت لگائی گئی جس نے صوبائی وزیروں کے گھروں پر جا کر حملے کیے۔ اسی ایکشن کا ری پلے پچھلے 2 ہفتے پنجاب بھر میں ہوا‘ جہاں انتہائی حساس قانون کو چھیڑنے والے قانون سازوں کو عوامی عدالت میں پیش ہونے کا شوق چُرایا تھا۔ باقی باتیں رہنے دیتے ہیں۔ اس شوق کے نتیجے میں گاڈ فادر کو عوامی عدالت میں جانے کا اپنا ہی فیصلہ منسوخ کرنا پڑا۔ یہ عوامی عدالت اتنی پھیلی کہ اس کی ایک سماعت کینیڈا میں بھی ہوئی‘ جہاں محکمہ مخولیات کا وزیر رنجیدہ پاکستانیوں کے ہاتھ چڑھ گیا۔ اس کینیڈین عدالت کی آدھی کارروائی ٹھیٹھ پنجابی میں اور آدھی سیدھی سادی پشتو زبان میں ہوئی۔ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کارروائی کیا تھی‘ اور اس کا فیصلہ کون سا تھا۔ اللہ کے فضل و کرم سے عوامی عدالت کی کارروائی اور اس کے فیصلے کی برکت سے گاڈ فادر نے جاتی اُمرا میں خالص حلال کی کمائی سے بدستِ خود لنگر تقسیم کیا۔ عوامی عدالت نے تو صرف فردِ جُرم عائد کی ہے اور ہلکا پھلکا عوامی جسمانی ریمانڈ لیا ہے۔ تفتیش، بیٹھک کی سیر،گواہی اور جرح وغیرہ کے مرحلے تو ابھی آنے ہیں۔ یہ مرحلے آتے آتے موجودہ حکومت بدل چُکی ہو گی، حکمران نگران ہوں گے یا پھر نگہبان۔ ایک بات طے ہے گاڈ فادر برادران کُرسیوں پر براجمان نہیں ہوں گے۔ ہٹو بچو، والے جا چُکے ہوں گے اور سپریم کورٹ کی ہدایت پر ٹرائل کے فیصلے آ چُکے ہوں گے۔ ایسے میں عوام کی فری لانس عدالت ہو گی اور گاڈ فادر کا مقدمہ۔ یار لوگ گاڈ فادر سے کہیں گے: تو پھر چلیں ذرا عوام کی عدالت میں۔
اس ارضِ پاک کی عزّت گنوائے جاتے ہیں
یہ کون لوگ حکومت پہ چھائے جاتے ہیں
بگولے جُھوم کے اُٹّھے ہیں کاروانوں پر
مُسافروں کے قدم ڈگمگائے جاتے ہیں
یہ معجزہ ہے کہ پیرِ مغاں کی محفل میں
فقیہہِ شہر بھی تشریف لائے جاتے ہیں
یادش بخیر! نااہل شریف کی اقتداری ہیٹرک سے پہلے لوڈ شیڈنگ کے خلاف پنجاب میں گاڈ فادر 2 نے سرکاری احتجاجی مہم چلائی۔ اس انوکھی مہم کا ہدف لاہور کا واپڈا ہائوس، گجرانوالہ، فیصل آباد اور پنجاب بھر کے گرڈ سٹیشن تھے‘ جہاں کروڑوں روپے کا ریکارڈ، قومی اثاثے مسلم یوتھ ونگ نے کارِ خاص والوں کی سرپرستی میں جلا ڈالے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ محکمہ بجلی کے اہلکاروں کے سر پھوڑے اور بازو بھی توڑے گئے۔ عوام کی ایسی عدالت لگائی گئی جس نے صوبائی وزیروں کے گھروں پر جا کر حملے کیے۔