"SBA" (space) message & send to 7575

کھوجی اور کھرے

نقشِ پا کو کُھرا اور فُٹ پرنٹ بھی کہا جاتا ہے۔
جہاں پیشہ ور قاتل ثبوت مٹانے کے ماہر ہوں وہاں خونِ ناحق کا سُراغ ڈھونڈنے کے لئے کھوج لگانے والے کی ضرورت پڑتی ہے۔ لاہور کے دلیر سید زادے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو آپ کھوج سمجھ لیں۔ ماڈل ٹائون قتلِ عام کے تین مرکزی مُلزموںکے کھرے کھوجی نے ڈھونڈ نکالے۔ جو نجفی ون مین کمیشن کی رپورٹ میں ان لفظوں میں شامل ہیں۔ 
پہلا:
''جب قومی اور بین الاقوامی میڈیا ضرب عضب کی کامیابیوں کا بتا رہا تھا‘اسی وقت منہاج القرآن میں پولیس کی جانب سے ظلم ہورہا تھا۔ انسان جھوٹ بول سکتا ہے ،حالات نہیں۔ حالات بتاتے ہیں پولیس والوں نے قتل عام میں بھر پور حصہ ڈالا، پولیس والوں نے وہی کیا جس کے لئے انہیں بھیجا گیا تھا، رپورٹ کو پڑھنے والے خود فیصلہ کرسکتے ہیں سانحہ ماڈل ٹائون کی ذمہ داری کس پر ہے؟ تمام ذمہ دار افراد ایک دوسرے کو بچانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، یہ بات شیشے کی طرح صاف شفاف ہے کہ وزیر اعلیٰ کی طرف سے کارروائی روکنے کا حکم نہیں دیا گیا، عدالت کے حکم پر عمل درآمد کیا جاتا تو وزیر قانون کی نگرانی میں ہونے والے آپریشن میں خون خرابہ روکا جاسکتا تھا۔‘‘
دوسرا:
"ٹربیونل اپنے رجسٹرار سمیت منہاج القرآن گیااور 45منٹ تک ڈیٹا کا معائنہ کیا۔ رانا ثناء اللہ ، ڈاکٹر توقیر شاہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے فون کا ڈیٹا آئی ایس آئی نے مہیا کیا۔ سپیشل برانچ ، آئی بی اور آئی ایس آئی نے اپنی الگ الگ رپورٹس کمیشن کو دیں، رپورٹ کے مطابق 16جون 2014اجلاس میں رانا ثناء اللہ نے سختی سے کہا طاہر القادری کو لانگ مارچ کے مقاصد پورے نہیں کرنے دئیے جائیں گے۔ اجلاس میں سی سی پی او لاہور اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ بھی شریک ہوئے ۔ اجلاس میں طاہر القادری کی رہائش گاہ اور ادارہ منہاج القرآن کے اطراف میں لگائی گئی رکاوٹیں ہٹانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ تین سال تک رکاوٹیں نہیں ہٹائی گئی تھیں، اچانک ضرورت کیوں پیش آئی؟ سانحہ ماڈل ٹائون ملکی تاریخ کا بد ترین واقعہ ہے، عدالتی فیصلہ موجود ہونے کے باوجودایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے رائے نہ لی گئی۔‘‘
تیسرا:
''سانحہ سے کچھ دیر پہلے آئی جی پنجاب اور ڈی سی او لاہور کی تبدیلی شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے پولیس والوں کو حکم تھاکہ اپنے مقاصد حاصل کریں۔ چاہے غیر مسلح شہریوں کو قتل ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔پورے سانحہ میں کسی پولیس افسر کے کمانڈ کرنے کا علم ہی نہ ہوا۔درحقیقت تمام پولیس افسروں نے دانستہ طور پر ٹربیونل سے معلومات چھپائیں، حقائق چھپانے کا پولیس کارویہ سچائی کو دفن کرنے کے مترادف ہے۔ پولیس کی خاموشی سے لگ رہا تھاکہ اسے ہر صورت حکم پر عمل کرنا تھا۔‘‘
نجفی کمیشن نے ماڈل ٹائون قتل عام کے حوالے سے بڑے چشم کشا انکشافات کیے ۔ مثال کے طور پر جسٹس نجفی کا یہ انکشاف: 
سچ کا سراغ لگانے کے لئے پنجاب حکومت نے ٹربیونل کو مناسب اختیارات نہیں دئیے ۔ حالات دیکھ کر یوں لگتا ہے سرکار نہیں چاہتی یہ ٹربیونل واضح نتائج تک پہنچے۔ حکومت کی سچائی جاننے کی نیت ہی نہیں تھی۔ حقائق چھپانے سے واضح ہے حکومت سچ چھپا رہی ہے ۔واقع کے دن صبح 9سے ساڑھے گیارہ بجے تک صورت حال کنٹرول میں تھی۔ آئی جی خان بیگ نے بتایاانہوں نے ساڑھے گیارہ بجے چارج سنبھالا اور بارہ بجے ان کے پاس واقعے کی پہلی خبر آئی ۔ اب ذرا دیکھئے ایک اور ہوش ربا انکشاف ۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے بیان دیا کہ انہیں واقعہ کا 17جون صبح 9بجے علم ہوا ۔ چنانچہ فوری طور پر آپریشن روکنے کی ہدایت کردی اور ڈس انگیج منٹ کا لفظ استعمال کیا ۔ حیرت انگیز طور پر توقیر شاہ سمیت کسی شخص نے ان احکامات کی تصدیق نہیں کی۔ وزیر اعلیٰ نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں پولیس کو پیچھے ہٹنے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ جبکہ ویڈیو اور تصاویر میں پولیس کو فائرنگ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ کا بیان قانونی پیچیدگی سے بچنے کے لئے گھڑاگیا۔ اسی روز صبح 10بجے وزیر اعلیٰ نے گورنر ہائوس میں نئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی۔ دن 11بجے ماڈل ٹائون رہائش گاہ پہنچے ۔جہاں دوپہر 1بجے تک انہوں نے غیر ملکی وفد سے ملاقات کی ۔اس دوران شہباز شریف نے دوبارہ ماڈل ٹائون کی صورتحال سے متعلق کسی سے کوئی رپورٹ کیوںنہیں مانگی؟۔
پولیس مقابلوں کی ماہر اور نہتے عوام کو ماورائے عدالت پار کردینے کی عادی پنجاب پولیس جسے ماڈل ٹائون کمشن رپورٹ کے بعد "شریف لمیٹڈ فورس " کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اسے نجفی کمشن رپورٹ نے ان لفظوں میں بے نقاب کردیا۔ 
سترہ جون کی صبح ڈی آئی جی آپریشنز موقع پر پہنچے ۔انہوں نے مختلف ڈویژنز کے ایس پیز کو بلالیا۔ پولیس نے عوامی تحریک کے کارکنوں کو جواب دینے کے لئے آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ کی ۔ ڈی آئی جی آپریشنز نے صورتحال خراب ہونے پر دن گیارہ بجے ایلیٹ فورس بھی طلب کرلی۔دوپہر 12بجے فائرنگ سے جاں بحق ہونے والوں کی لاشوں اور زخمیوں کو جناح ہسپتال منتقل کیا۔دوپہر 1:30بجے تک طاہر القادری کی رہائش گاہ اور منہاج القرآن کے ارد گرد تمام رکاوٹیں ہٹا دی گئیں۔ پولیس کے مطابق آپریشن میں 9افراد جاں بحق اور 54زخمی ہوئے ۔ 
ماڈل ٹائون قتل عام کئی حوالوں سے جلیاں والا باغ قتل عام سے ملتا جلتا ہے۔ مثال کے طور پر جلیاں والا باغ امرتسر اور ماڈل ٹائون دونوں جگہ قانون نافذ کرنے والے مسلح اہلکاروں نے نہتے خالی ہاتھ عوام پر گولیاں برسائیں ۔ بہت سے بے گناہ شہری سرکاری گولیوں نے بھون ڈالے۔ لاتعداد شدید زخموں کی وجہ سے اعضاء سے محروم ہوئے۔ دوسری مماثلت اپنے ہی شہریوں کے خلاف حکومت کے کار پردازوں کی طرف سے ریاستی دہشت گردی ہے۔ جلیاں والا اور ماڈل ٹائون میں تیسری مماثلت یہ ہے کہ فرضی ایف آئی آر پولیس اہلکاروں نے کاٹی جس میں کہیں نہیں لکھا گیاUse of force کا حکم کس نے دیا۔ کتنی گولیاںچلانے کا حکم ہوا۔ حکم ہوائی فائرنگ کا تھا یا شوٹ ٹو کِل کا ۔ دونوں جگہ انکوائری کمشن بیٹھے۔ دونوں جگہ سرکار اور بے رحمانہ فائرنگ کرنے والے اہلکار مجرم ٹھہرائے گئے ۔ جلیاں والا باغ اور ماڈل ٹائون دونوں جگہ شہریوں کو انصاف نہ مل سکا ۔اور دونوں ہی جگہ بے گناہ خالی ہاتھ شہریوں کے بے رحمانہ قتل عام کے مجرم حکومت میں تھے۔ اقتدار اور تفتیشی اداروں پر اثرورسوخ نے ملزموں کو بچانے کے لئے تمام پاپڑ بیلے۔ 
سانحہ ماڈل ٹائون کا کلائمیکس ابھی آنا ہے۔ لیکن جلیاں والا باغ کا کلائمیکس تاریخ کے سینے میں سرخ لفظوں سے لکھا پڑا ہے۔ جلیاں والا باغ کی سرکاری فائرنگ کے نتیجے میں مارے جانے والے شہریوں میں مسلمان ، سکھ اور ہندو شامل تھے ۔ امرتسر میں آج بھی یہی تینوں بڑی قومیں آباد ہیں۔ انہی میں سے ایک سکھ نوجوان اودھم سنگھ تھا۔ جس نے جلیاں والا باغ کے قاتل اعلیٰ جنرل ڈائر کو انگلستان جاکر اپنے ہم وطنوں کے بدلے میں قتل کیا۔ اودھم سنگھ نے للکارا مار کر ہم وطنوںکے قاتل سے بدلہ لیا اور اپنے بدلے کا اعتراف پولیس کے سامنے اور عدالت میں دونوں جگہ کھل کر کیا ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں