"SBA" (space) message & send to 7575

ووٹ کی عزت

راوی کا بیان ہے: دونوں زار و قطار رو رہے تھے۔ آہوں، سسکیوں اور آنسوئوں سمیت۔
موقع ہی ایسا تھا جیسے مُغلِ اعظم جلال الدین محمد اکبر کے لیے تاج نور الدین جہانگیر کے سر پر رکھنے کا لمحہ۔ بزرگی نے دونوں رونے والوں کو جلد ہی تھکا دیا۔ پھر برادرِ خورد نے معاہدہ برادرِ کلاں کے سامنے رکھا اور شق وار جائزہ لینا شروع ہوا۔ اس دوران بھی اتنے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام تک نہ لیا۔ سلطنت کے مرکزی اختیارات پر کنٹرول کلاں کے حوالے ہوا اور خورد نے صوبائی خورد بُرد کی ذمہ داری پھر سے قبول کرنے کا اقرار کیا۔ رونے والوں نے دوبارہ بانہیں ایک دوسرے کے گلے میں ڈالیں اور بغل گیر ہو گئے۔ کلاں بے خود تھا جب کہ خورد کے رونے اور ہنسی میں تمیز کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ ایک طرف دل کے ارماں آنسوئوں میں بہہ رہے تھے۔ دوسری جانب یہ کیفیت طاری و جاری رہی۔
نسیمِ صبح گلشن میں گُلوں سے کھیلتی ہو گی
کسی کی آخری ہچکی، کسی کی دل لگی ہو گی
یوں آخرکار 20 کروڑ لوگوں کے ووٹ کی عزت کو تحفظ دینے کا معاہدہ تکمیل کو پہنچا‘ جس پر آہوں اور سسکیوں کی سیاہی سے مفادات کی مہر لگائی گئی۔ بالکل ویسے ہی جیسے یوسفِ کنعان ؑ کے برادران نے لگائی تھی۔ 
ووٹ کے تقدس کی اس کہانی کا آغاز میرے رشتہ داروں اور محسنوں، محترم پیر صاحبان کی بستی گولڑہ شریف سے ہوتا ہے۔ یہ 1980ء کے عشرے کے واقعات ہیں‘ جس کے ایک گواہ عزیز قریشی صاحب ہیں۔ تب خورد و کلاں ایوانِ اقتدار کے دروازوں میں کھڑے رسائی کے طلب گار تھے، گولڑہ شریف کے پیر معین الحق صاحب کے ڈیرہ غوثیہ کے ارد گرد دوڑیں لگاتے ہوئے۔ یاد رہے کہ ووٹ کے شریفانہ احترام کی یہ اولین واردات تھی۔ پھر چل سو چل کی اتفاقیہ ٹرین دوڑ پڑی۔ چھانگا مانگا، بھوربن، آئی جے آئی والے نوٹ۔ اصغر خان کیس ، جنرل دُرانی کا سپریم کورٹ کے روبرو بیان حلفی ووٹ کے احترام کی قسطِ ثانی تھی‘ جو بدستِ قائدِ اعظمِ ثانی جمہوریت کو لاثانی بنا گئی ۔ تیسری قسط کی زد میں لا کر محمد خان جونیجو، جتوئی صاحب اور کتنے ہی شہدائے جمہوریت کو قربان کرتے ہوئے ووٹ کا احترام وفاقی یونٹوں تک پھیل گیا۔ ووٹ کے احترام کی اگلی منزل اعلیٰ عدلیہ جا ٹھہری ۔ چیف جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب والا فیصلہ ۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف برادر جج حضرات کا جوڈیشل کُو۔ ایک سینیٹر صاحب کے ذریعے کوئٹہ پہنچنے والے نوٹوں کے بھرے ہوئے بریف کیس ۔ اسد علی کیس ۔ شہید بی بی کو سزا دلوانے کے لیے ووٹ کے تقدس کے محافظِ خُورد کی ٹیلی فون کالیں۔ چمک کی جھلک ، سِکّوں کی کھنک ووٹ کی عصمت کے محافظ قرار دیے گئے۔ ووٹ کے شریفانہ تحفظ کا چوتھا دور آتا ہے‘ جس میں ہڑتال کو دہشت گردی قرار دے کر پھر فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا۔ مخالفین کے لیے احتساب ایکٹ جیسے شریفانہ قوانین بنائے گئے تاکہ سویلین بالا دستی قائم رہے۔ پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ قوم قائدِ اعظمِ ثانی کے امیر المؤمنین بننے والے قانون سے بال بال بچ گئی۔ یہ ووٹ کا تحفظ ہی تھا جس کے مجبور کرنے پر خورد و کلاں دونوں نے مقدس ووٹ کو حجازِ مقدس کی سرزمینِ مقدس میں واقع سعود خاندان کے شاہی محل میں سرور کے حوالے کر دیا۔ یہ شیر دلیر ، سیاسی ہنر مند نہ کبھی ملک سے بھاگے نہ کبھی جنرل مشرف کے سامنے معافی نامہ لکھا ۔ یہ سب مخالفین کے پروپیگنڈے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے یہ پروپیگنڈہ کہ مشرف کی پوری ٹیم برادرانِ خورد و کلاں کی قائدِ اعظمانہ قیادت میں ووٹ کے تقدس کو یقینی بنا رہی ہے۔ 
اس بے بنیاد پروپیگنڈے کی اور بھی کئی شکلیں قوم کے سامنے ہیں۔ مثال کے طور پر یہی کہ برادرانِ خورد و کلاں کی مقبولیت آسمان کو نہیں چھو رہی ۔ اس سلسلے میں تازہ سازشی وزیر امورِ فروغِ لوڈ شیڈنگ اور وزیرِ دفاعِ منی لانڈرنگ نکلا‘ جس نے جمہوریت کی پیٹھ میں چُھرا گھونپنے کے لیے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ جُفت باری اور منہ کی کالک ووٹ کے تقدس کے خلاف ایک اور سازش ہے۔ حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ خورد و کلاں ہار کر بھی جیت گئے ہیں‘ اور متحدہ اپوزیشن جو پہلی بار متحد ہوئی اور پہلی بار جیت کر ہار گئی ۔ ووٹ کے تقدس کے خلاف یہ تازہ ترین سازش سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں رونما ہوئی ۔ جہاں رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے نے پیسے کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کے خورد و کلاں کے امیدوار کو خاک چٹوا دی۔ آپ خود انصاف کریں کہ نون سے نااہل لیگ کے قائم مقام سربراہ بننے والے سینیٹر یعقوب ناصر نے ووٹ کے تقدس کو کس قدر پامال کیا ۔ ہمارے دوست یعقوب ناصر خود نون لیگ میں ہوتے ہوئے اپنی پارٹی کے بے ضرر سے چیئرمین صاحب کو ہرا بیٹھے۔ اگر وہ چاہتے تو باآسانی اپوزیشن امید وار صادق سنجرانی کی کامیابی کی کہانی کو ناکامی کی داستان میں تبدیل کر دیتے ۔ سینیٹر یعقوب ناصر سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ وہ ووٹ کے تقدس کی اصلی حفاظت کرتے۔ اپوزیشن سینیٹرز کے 12/15 ووٹ کی پرچیوں پر ڈبل مہر لگا دیتے ، دستخط کر دیتے یا کاٹے ہی مار دیتے ۔ لیکن ووٹ کے تقدس کی حفاظت کے لیے سینیٹر یعقوب ناصر کی تربیت بالکل ناقص ثابت ہوئی ۔ وہ چاہتے تو ووٹوں کی گنتی کے دوران 2/4 پرچیاں پیروں تلے دبا دیتے یا پنڈی کے ایک وکیل صاحب والا طریقہ استعمال کر لیتے ۔ 
قیام پاکستان کے فوراً بعد سکھوں اور ہندوؤں کی ترک کردہ جائیدادوں کی الاٹمنٹ پرچیوں پر ہوتی تھی۔ ایڈیشنل کمشنر راولپنڈی کے پاس اس فیلڈ کے دو مشہور وکیل پیش ہوئے ۔ ایک کے مؤکل کے پاس الاٹمنٹ کی محکمانہ چٹ تھی دوسرے کے پاس زبانی دعویٰ ۔ سماعت شروع ہوئی تو چِٹ والی سائیڈ کے وکیل نے وکالتی لفافے میں سے چٹ نکالی اور کمشنر کے سامنے پیش کرنے کے لیے اسے میز پر رکھا ۔ دوسری سائیڈ کے وکیل نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر چٹ اٹھائی اور فوراً منہ میں ڈال لی ۔ اب دوسری سائیڈ کے وکیل نے وکیل صاحب کی گردن دبائی اور دانتوں سے چبائی ہوئی ضائع شدہ چِٹ مخالف وکیل کے منہ سے برآمد کرنے کی سعیِ لاحاصل میں کامیاب ہوئے۔ 
انتخابی دھاندلی اور پانامہ چوری کے خلاف عمران خان سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکلا ۔ خورد و کلاں کہنے لگے: فیصلے سڑکوں پر نہیں عدالت میں ہوتے ہیں۔ عدالت سے نااہل ہوئے تو کہا: فیصلہ سڑکوں پر لگی عوامی عدالت کرے گی۔ عوامی عدالت سے جُفت باری ہوئی تو بولے: ووٹ کو عزت دو ۔ ہائوس آف فیڈریشن نے ووٹ کو عزت دی تو کہنے لگے: جمہوریت کا منہ کالا ہو گیا۔ لیکن شاباش ہے لانگری بٹالین کو‘ جو سینیٹ الیکشن میں 12 ووٹوں والے کی شکست فاش اور منہ کی کھانے والی حکومت کی ''فتحِ‘‘ تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اور صد شاباش اس پر جو قتل ، دہشت گردی ، فراڈ ، منی لانڈرنگ اور جھوٹ کے سرٹیفائیڈ نامزد کردار کو بانیٔ پاکستان کا جانشین کہنے کی ہمت رکھتا ہے۔ نیم خواندہ خاتون پر آفرین ۔ تقابل والی حرکت نقلِ کُفر ، نقلِ کُفر نہ باشد کے زُمرے میں آ سکتی ہے‘ لہٰذا یہاں لکھنے کی سکت نہیں ۔ ہمارا ایقان تو یہ ہے۔ 
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں