میں اور عبداللہ‘ اسی درخت کے نیچے جا بیٹھے‘ جہاں کبھی ظلِ الٰہی شہنشاہِ ہندوستان اولیٰ آزاد ابو المظفر شہاب الدین محمد المعروف شاہ جہاں ‘دو مرتبہ آکے بیٹھا تھا ۔ پہلی بار تب جب اسے اولادِ نرینہ کی خواہش جاگی ۔ اور دوسری بار تب جب اس کا سب سے بڑا شہزادہ فقیر منش نو خیز اور نو آموز دار ا شِکوہ موت کی وادی کی طرف چل نکلا ۔
لاہور آنے سے دو دن پہلے میں تربیلا گیا ۔ اسلام آباد سے عمرا گائوں پہنچنے میں پہاڑوں کے بیچوں بیچ اڑھائی گھنٹے لگتے ہیں ۔ خان جی حمید خان کی گفتگو معرفت اور محبت سے آگے نہیں جاتی ۔ اس روز موڈ میں تھے کہنے لگے: ایک مقتدر آدمی نے بھرپور طمطراق سے پوچھا آپ کیا پڑ ھتے ہیں ۔ مسکرا کر جواب دیا : آلو ‘ ٹماٹر ‘ پیاز ‘ اور لہسن ۔کافی دیر گفتگو ہوئی اٹھنے لگا‘تو بتایا عبداللہ نے لا ء کے آخری سال کا امتحان دے دیا ہے ۔ اجازت دیں کسی دن ساتھ لائو ں۔بولے نہ ‘ناں ساتھ نہیں لانا‘جس دن عبداللہ کے دل میں محبت کی جوت جا گی ۔ خود اُٹھے گا ۔گاڑی میں بیٹھے گا اور مجھ سے آن ملے گا۔ساتھ بتایا: صرف محبت نہیں ‘ادب بھی انسان کو آدمی بناتا ہے ۔ ادب کے موضوع پر کمرشل موٹی و یٹر سپیکروں نے دو مصرعے رٹ رکھے ہیں ۔ ادب پہلا قرینہ ہے‘ محبت کے قرینوں میں اور حدِ ادب والا ۔ مجھ سے پوچھا کیا پانی پر خواجہ خضر ؑکی ڈیوٹی ہے؟ میں خا موش رہا ۔ بتایا پچھلے پہاڑ سے کچھ لوگ آئے ۔ پانی نہ ہونے کی شکایت لے کر ۔میں نے اُن سے چَوئے ‘ چشمے ‘ کَس ‘ نالے ‘ باولیاں ‘ کَسیاں ‘ جھرنے ‘ کھوئیاں گنوائیں ۔ ساتھ کہا: پانی کی عزت کرو۔ ہر آدمی نے اپنے گھر کے سارا گند گائوں کی گلی/ شاہراہِ عام پر پھینک رکھا ہے ۔ بچوں سے عورتوں تک بزرگوں سے معذوروں تک ہر کوئی غلاظت سونگھنے اور چھونے پر مجبور ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ۔ اہلِ خانہ سمجھتے ہیں گھر صاف ہو گیا۔ اوئے سادہ لوگو ...چار دیواری کو گھر مت سمجھو۔ گھر وطن ہے ۔ یہاں کوڑے کے ڈھیر ہیں‘ جو k-2 پہاڑ بن چکے ہیں اور کوہِ ہما لیہ بننے جا رہے ہیں ۔ درمندی سے بولے: سُنا ہے‘ حکومت میں پانی کا بادشاہ بھی ہوتا ہے ‘ جو پانی کی وزارت چلاتا ہے ۔ وہ خود پانی کی عزت نہیں کرتا۔ مِل ‘ فیکٹری ‘ دکان ‘ ورکشاپ ‘ ہوٹل ‘ ریسٹو رنٹ ‘ ہر جگہ پانی کی بے ادبی ہے ۔ مجھے ہفتے پہلے کی ہڈ بیتی یاد آگئی ۔ گھر کا خاصا بڑا واٹر ٹینک اچانک خالی ہو گیا ۔ پتہ چلا ہمارے ایک رات کے شہباز المعروف گارڈ صاحب نے وَسمہ ( ہیئر کلر ) لگانے کے لیے کواٹر کا نلکا کھولا ۔ چھت پر چڑھ کر پریشر پمپ چلادیا ‘پھر مو صوف جا بیٹھے دھوپ میں ۔ مزے سے ریشِ دراز کے ایک ایک بال کو حنائی کرنے میں لگ گئے ۔ پھر گیسو ئے ہفت رنگ کو دامِ ہم رنگِ زمین میں تبدیل کیا ۔ ڈیرھ گھنٹے بعد وسمہ دھونے واپس نلکے پر پہنچا ۔پتا چلا پانی کی بے تحا شہ روانی نے مو صوف کے شوقِ تجدیدِ جوانی کو پریشانی میں بدل دیا ۔
خان جی کہنے لگے: پانی بہت ہے ۔ مجھے خیال آیا‘ اگر گاڑی دھونے والا نلکا کھول کر پوری گلی سیراب کرنے کی بجائے ٹائر بالٹی سے دھوئے ۔ وقت پر گاڑی کی دھلائی کار واش پر جا کر کرو ا ئے‘ تو رو زانہ ہر شہر میں لاکھوں گیلن پانی بچنا شروع ہو جائے ۔ وضو کے لیے نلکے کی بجا ئے کوزا استعمال کیا جائے ۔ تب بھی اتنی بچت ہو گی ۔ صبح یا رات گئے دانت مانجھتے وقت ٹَیب واٹر کا ہینڈل کھولنے کی بجائے ‘گلاس بھر پا نی استعمال ہو۔ تب بھی اتنی بچت ہو گی ۔ غسل کے لیے پاور شاور کی بجائے بالٹی ‘ مگھا لے لیں۔ جُھک کر پانی بدن پرڈالنے سے ورزش ہو گی ۔ غیر ضروری واٹر ڈرین بھی کنٹرول ہو گا ۔ ایسے پانی کی شاندار بچت ہو گی۔
محتاط اندازے کے مطابق 34 سے 46 فیصد زرعی پانی کچے کھالوں اور ٹوٹے پھوٹے نالوں کی نذر ہو جاتا ہے ۔ نا جانے کیوں مجھے ہولناک خیال آتا ہے‘ واٹر ڈیموں کی مخالفت کرنے والے تیار ہو جائیں ۔ کراچی میں ''واٹر وار ‘‘ کی گراونڈ پو ری طرح تیا ر ہے ۔
بات شر وع ہو ئی تھی‘ محبت سے ‘جا پہنچی ادب تک ۔ لاہور انتخابی تنازعات کے مقدمے لڑنے آیا تھا ۔ عبداللہ نے حضرتِ بالا پیر میا ں میر کے مزار پر حاضری کا اصرار کیا‘ جہاں کبھی مغلیہ سلطنت کے شیخو جہانگیر بادشاہ نے بھی حا ضری دی تھی ۔ پورے شاہی جلال کے ساتھ حضرت میاں میر کے در پر پہنچا آگے رکاوٹ دیکھی ۔ بادشاہِ وقت کو صاحب ِ حال صوفی کے آ ستانے پر انتظار کرنا پڑ گیا ۔ شرفِ بار یابی ملا ۔ بولا: فقیر کے دروازے پر پردہ چۂ معنی ؟ ۔ میاں میر بے پر واہی سے بولے: پردہ کتے روکنے کے لیے ہے ‘جو بھونکتے بھی ہیں اور کاٹتے بھی ۔ بادشاہ نادم ہوا ‘مگر عالیٰ نسب تھا ۔ معا فی مانگ کر اٹھا ۔ اسی روز اپنے لا ہور لاء آفس کی عقبی سڑک لارنس روڈ سے شاہ عنایت کے مزار پر پہنچے ۔ وکیل شاگرد ساتھ تھے ۔ مزار ‘ دربار ‘ مسجد اور دیواروں پر مر مر کی چوڑی سلوں میں کندہ بُلھے شاہ کے اشعار خوبصورتی سے تحریر ہیں ۔ والد کے بعد استاد یا مرشد وہ واحد رشتہ ہے ‘جو مرید یا شاگرد سے حسد نہیں کرتا ۔ شاہ عنایت اور بُلھے شاہ میں قلبی واردات ایک ایسی انوکھی داستانِ عشق ہے ‘جس میں شاگرد عاشق تھا اور استاد محبوب ۔ شاگرد نے ادب کی معراج چھو ڈالی۔ مربی کی ناراضی پہ ایسا تڑ پا کہ جوگی کے بھیس میں ناچنے پہ مجبور ہوا۔ میں آلو ‘ ٹما ٹر ‘ پیاز اور لہسن ولی بات سمجھ گیا ۔
گَل چولے پا کے او ساوے تے سُوہے
اَج بُلھا چَلیا‘ شاہ عنایت دِے بُوہے
آج بھی بُلھے شاہ ایسا بخت آور شاگرد ہے‘ جس کا استاد شاہ عنا یت اُس کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔ ہم نے ہیر رانجھا ‘ سوہنی ماہیوال جیسے عشقِ مجازی کے قصوں پر کئی فلمیں بنائیں ‘ لیکن شاہ عنایت اور بلھے شاہ کے عشقِ حقیقی کی قلبی وارداتوں کو ابھی تک چھوٹی سکرین اور بڑی سکرین پر جگہ نہ مل سکی ۔ لاہور کی صدیوں پرانی تہذیب اور ثقافت کے زندہ مظا ہر زبانِ حال سے کہتے ہیں ۔
گلی گلی تر ی یاد بچھی ہے
پیارے رستہ دیکھ کے چل
اس میں کوئی شُبہ نہیں '' لہور ‘ لہور اے ‘‘ اس تہذیب کا لینڈ مارک لاہور ہائی کورٹ کی بار ا یسوسی ایشن ہے ۔ بار کے کمیٹی روم میں مسعود چشتی اور ساجد قریشی کے ہمراہ گئے ۔ صدر انوارالحق پنوں ‘ سیکڑی حسن وڑائچ ‘ نائب صدر نور صمند خان سے90 منٹ نشست رہی ۔ نائب صدر جدوجہد کے ساتھی ہیں ۔ وزیر قانون تھا۔ اُس کی دعوت پر چھانگا مانگا گیا۔ جنگل میں کالے کوٹوں کا منگل دیکھا ۔ اسی نسبت سے نور صمند کو نور سمندر کا نام دیا ۔ نور نے اپنے تازہ الیکشن کا دلچسپ واقعہ سنایا ۔ ایک خاتون ووٹر ووٹ ڈال کر باہر آئی نور سے کہنے لگی: آپ کو ووٹ ڈالنے کے لیے درجن مرتبہ بیلٹ پیپر کو پڑھا‘لیکن مجھے آپ کا نام نور سمندر نظر نہ آیا۔ مجبوراًایک اور امیدوار نور صمند کو ووٹ ڈال دیا۔ آئی ایم سوری۔
ادب پہلا قرینہ ہے‘ محبت کے قرینوں میں ۔
ـ
والد کے بعد استاد یا مرشد وہ واحد رشتہ ہے ‘جو مرید یا شاگرد سے حسد نہیں کرتا ۔ شاہ عنایت اور بُلھے شاہ میں قلبی واردات ایک ایسی انوکھی داستانِ عشق ہے ‘جس میں شاگرد عاشق تھا اور استاد محبوب ۔ شاگرد نے ادب کی معراج چھو ڈالی۔ مربی کی ناراضی پہ ایسا تڑ پا کہ جوگی کے بھیس میں ناچنے پہ مجبور ہوا۔