"SBA" (space) message & send to 7575

ذرا لائل پور تک

شہروں، ہسپتالوں اور اُن اداروں کے نام‘ جو سرکاری خرچ پر بنتے ہیں‘ اپنے ابا، تایا اور ہم خیالوں یا مہربانوں کے نام لگا دینا‘ ترقی کا کمال نہیں‘ ذہنی زوال کی نشانی ہے، بلکہ مکمل پستی۔ اس سے مجھے وفاقی دارالحکومت کی ایک بستی یاد آتی ہے۔
حضرت بری امام کے نور پور شاہاں میں ڈپلومیٹک انکلیو کے ساتھ ساتھ سرکاری زمین پر ایستادہ ‘ حکومتِ پاکستان کی ملکیت زمین پر بیٹھنے والے قبضہ مافیا کے ''ہنر مندوں‘‘ نے اپنے ڈیروں کے ساتھ ساتھ لمبی چوڑی بستی بنوا لی ۔ یہ کام جنرل ضیا کے دور میں شروع ہوا اور اس بستی کو جونیجو مسلم لیگ کی نسبت سے مسلم کالونی نور پُور شاہاں کا نام دیا گیا ۔ شہید بی بی کی پہلی حکومت بنی تو بستی کے باہر سبز رنگ کے بورڈ پر پی پی پی کے ترنگے کا لِبادہ چڑھ گیا ۔ پیپلز کالونی بستی کا نام ٹھہرا ۔ پھر کئی سال تک نظریہ ضرورت کے عین مطابق کبھی مسلم کالونی ، گاہے پیپلز کالونی والا پنگ پانگ چلتا رہا۔ تا آنکہ یہ کالونی مشرف بہ مشرف ہو گئی ؛ چنانچہ نو سال کے لیے یہ مشرف کالونی کہلانے لگی ۔ بالکل اس عربی محاورے کی طرح علیہا ما علیہہ۔ 
لاہور سے فیصل آباد کا سفر شروع کیا تو لائل پور کی یاد میں برادرم حسن نثار صاحب کے لکھے کالم یاد آ گئے۔ ساتھ ساحر لدھیانوی بھی‘ جس باغی نے دولت کا سہارا لے کر غریبوں کی محبت کا مذاق اُڑانے والے شاہ جہاں کے تاج محل کو سطوتِ شاہی کی علامت قرار دیا تھا۔ لائل پور بہترین ذہنوں، لاثانی قوالوں اور انمول لکھاریوں کا حسین امتزاج ہے اور گھنٹہ گھر اس کا آئی کون۔ کسی بھی سماج کے ادب اور ثقافت‘ ایسے ہی امتزاج میں جی سکتے ہیں۔ سعودی سطوتِ شاہی نے اسے کرنل لائل سے چھین لیا۔ حسنِ اتفاق دیکھئے عربستان میں سعودی بادشاہت قائم کرنے والا بھی ایک کرنیل ہی تھا۔ برطانیہ کی شاہی فوج کا کرنل ٹی ای لارنس۔ آج کے فیصل آباد نے حسن نثار صاحب کے لائل پور کو کنکریٹ اور پلازوں کا جنگل بنا دیا ہے‘ جہاں بونا قد، پستہ ذہن اور کمینہ فطرت اقتداریوں نے سرکاری منصوبوں پر حواریوں سمیت درباریوں کے نام لکھوا رکھے ہیں۔
جی ہاں سرکاری خرچ پر۔ آپ کے بجٹ یعنی آپ کے جیب سے۔ اس ذہنیت کے 3 نمونے 3 عدد دادا جی ہیں۔ پہلا وہی خوش بخت جو سیاسی پوتی کے بقول 1930-1940ء کے عشرے میں پاکستان کا امیر ترین دادا تھا۔ جس مرحوم کے پوتے، پوتیوں نے وی وی آئی پی اپارٹمنٹس، محلات، اربوں کھربوں روپے کی جائیدادوں کے کشتوں کے پشتے لگا دیے۔ دوسرا نارووال کا دادا جس کے نام پر اعلیٰ تعلیمی درس گاہ بن گئی۔یہ ایسے وفاقی وزیر کا دادا ہے ‘ جس کی سیاست کا آغاز مارشل لاء سے ہوا۔ موصوف کا حلقہ انتخاب ایل او سی کے دہانے پہ ہے‘ جہاں آئے دن بھارت بچے، بوڑھے، عورتیں، جوان، شہری ہی نہیں بلکہ درخت اور چوپائے بھی شہید کرتا ہے۔ نامور دادے کے اس نامدار پوتے کو شاباش جو اس نے کبھی مودی، بھارتی فوج کی مذمت کا نام بھی لیا ہو۔ تیسرے دادا جی کا مزار جلال آباد میں ہے۔ جو دادا جی پھالکہ کی طرح مہاتما گاندھی جی کا بالکہ تھا۔ 
اس دادے کو پاکستان نے اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی ریفرنڈم میں عبرت ناک شکست دی۔ موصوف جو جیتے جی ہندوستانی تھے بعد از مرگ افغانستانی ہیں۔ ان کے نام پر ایئر پورٹ، یونیورسٹیاں اور پتہ نہیں کیا کیا بن گیا۔ اسے کہتے ہیں‘ منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے۔ 
لائل پور پہنچ کر گھنٹہ گھر کے قریب شادی ہال میں پریس کانفرنس پہلی سرگرمی تھی۔ مستعد نوجوان رپورٹرز کے ساتھ غیر رسمی گپ شپ میں بہت خوشگوار انکشاف ہوا۔ فیصل آباد سے ساڑھے تین سو اخبارات نکلتے ہیں۔ راجہ ریاض کے ڈیرے پر حلقہ این اے 110 کے کارکنوں کا اجتماع تھا‘ جہاں ایک اور خوشگوار حیرت سے تعارف ہوا۔ ساہیوال کی ملک برادری کے حاجی اسماعیل سِیلا‘ جو اندرونِ شہر کی کلچر کی چلتی پھرتی تصویر نکلے۔ 71 سال عمر بتائی۔ آٹھ بیٹے‘ ایک پاکستان میں‘ باقی ساتوں کینیڈا کے خوش حال شہری۔ دو بار فیصل آباد شہر سے ایم پی اے رہ چکے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ٹکٹ کے وعدے پر کاروانِ تبدیلی میں شمولیت اختیار کی۔ بیگم اور بیٹا بھی منتخب ناظم بن چکے ہیں۔ کمال کا ٹھنڈا آدمی‘ وہ بھی پبلک لائف میں ملا۔ جہاں ہر آدمی غصے میں ہے۔ اکثر کو معلوم بھی نہیں کہ وہ کس بات پر غصہ کر رہے ہیں۔ میں نے حاجی سِیلا سے ملنے کی خواہش ظاہر کی‘ پھر انہیں اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا لیا۔ فیصل آباد کا سب سے گرما گرم علاقہ چک 62 اگلی منزل تھی۔ پرانے کامریڈ رانا آفتاب صوبائی اسمبلی کے لیے اور ڈاکٹر نثار جٹ این اے 106 سے پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں۔ حاجی سِیلا نے ایسی بات کہی جیسی بات کہنے والوں کا آج قحط ہے۔ 
بولے: مجھے آپ نے عزت دی ۔ میں صرف عزت کا بھوکا ہوں ۔ باقی اللہ کے کرم کی بارش ہے ۔ اس حلقے میں جواں سال فرخ حبیب کو ٹکٹ ملا ۔ حاجی سیلا نے فرخ حبیب کے جلسے میں میرے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ملایا اور فرخ حبیب کی انتخابی مہم چلانے کا وچن دیے دیا۔ عزت کے لئے سیاست کرنے والا عزت دینے والا نکلا۔ 
عزت سے یاد آیا‘ ان دنوں ووٹ کے لئے عزت مانگنے والے عزت بچانے کے جتن کر رہے ہیں ۔ ووٹر نے ووٹ کو عزت دینے کا جو ٹھیکہ لیا تھا اس پر بہار آ گئی ہے۔ لاہور میں لوہے کا چنا ووٹ مانگتے وقت اپنے ہی کارکنوں کے سمارٹ فون بند کرواتا پکڑا گیا ۔ چوٹی کے نواب کے ساتھ چوٹی کا معرکہ ہوا۔ ووٹروں نے سرداری سے وڈیرہ شاہی تک‘ شو بازی سے نوسر بازی تک کے چھکیّ چُھڑا دیئے ہیں۔ ووٹ کو عزت دینے کے لئے ملک بھر کے ووٹر اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ مہران کا سویٹ بوائے رپورٹروںکے کیمروں اور عوام کے فون چھین لیتے رنگے ہاتھوں زیر تصویر آ گیا ۔ سابق اپوزیشن کے سب سے بڑے مفاہمتی بُت کو ووٹ کو عزت دینے والے نوجوانوں نے پاش پاش کر دیا۔ شورش کاشمیری نے کہا تھا: یہ سبھی کیوں ہے یہ کیا ہے مجھے کچھ سوچنے دے ۔ بات سیدھی ہے۔ ووٹر ہوں یا غیر ووٹر شہری‘ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ نعرہ ، جلسے ، وعدہ اور تقریریں اور پھر چور بازاری ، لُٹو تے پُھٹو کا ایکشن ری پلے ۔ طالب علمی کے زمانے میں کہا تھا ، جلسے ، نعرے ، وعدے اور تقریریں ۔ آج یہی ہیں ملّت کی تقدیریں۔ باغی ووٹ کو میرا سلام۔ جو ووٹ کو عزت نہیں دیتا وہ عزت کا حق دار کیونکر؟؟ 
جس دیس کے قاتل غنڈوں کو اشراف چھڑا کر لے جائیں 
جس دیس کے کورٹ کچہری میں انصاف ٹکوں میں بکتا ہو 
جس دیس کا منشی‘ قاضی بھی مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو 
جس دیس کے چپے چپے پر پولیس کے ناکے ہوتے ہوں 
جس دیس کے مندر‘ مسجد میں ہر روز دھماکے ہوتے ہوں
جس دیس میںجان کے رکھوالے خود جانیں لیں معصوموں کی 
جس دیس کے حاکم ظالم ہوں‘ سسکی نہ سنیں مجبوروں کی 
جس دیس کے گلی کوچوں میں ہر سو بدمعاشی پھیلی ہو 
جس دیس میں بنتِ حوّا کی چادر داغ سے میلی ہو 
جس دیس کے ہر چوراہے پر دو چار بھکاری پھرتے ہوں
جس دیس میں روز جہازوں سے امدادی تھیلے گرتے ہوں 
جس دیس کے عہدے داروں سے عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں 
جس دیس کے سادہ لوح انساں وعدوں پہ ٹالے جاتے ہوں 
اُس دیس میں رہنے والوں پہ آواز اُٹھانا واجب ہے
اُس دیس کے ہر اک ڈاکو کو، سولی پہ چڑھانا واجب ہے 
مجھے یقین ہے لائل پور کا ووٹ بھی باغی ہو گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں