آج سے ایک ہزار 379سال پہلے نہ کوئی اخبار چھپتا تھا نہ رپورٹر بروئے کار تھے ۔ نہ پرنٹ میڈیا کے رنگین صفحات دستیاب تھے نہ ہی الیکٹرانک میڈیا کا غوغا ۔ عربستان کے دشتِ بلا میں راکبِ دوشِ رسول ﷺ جبروت کے سامنے کس شان سے کھڑے ہیں۔ وقت نے تاریخ کی امانت جان کر یہ پیغام کُل عالم تک پہنچا دیا۔
صبر و رضا و عشق کا پیکر بَنا ہوا
چاروں طرف سے ابنِ علیؓ ہے گھِرا ہُوا
آلِ نبیﷺ پہ خنجرِ مروان خندہ زن
ابنِ زیاد خوفِ خدا سے ہٹا ہُوا
نرغہ میں شِمر کے ہے مدینہ کی آبرو
کوفہ میں قاتلوں کا ہے جھنڈا گڑا ہُوا
تصویر ہے کمالِ جنوں کی کھینچی ہوئی
دستِ دُعا خدا کی رضا میں اُٹھا ہُوا
اس سے بھی پہلے یروشلم دارلامارہ میں لکڑی کے دو عدد بھاری بھرکم تنے کاٹ کر لائے گئے ۔ کوتوال نے اپنا چابک تیل میں بھگو دیا ۔ یہودہ کی تہذیب کے بڑے‘ تیز دھار کانٹے والی جھاڑیاں کاٹ کر لائے‘ حضرت عیسیٰ ؑ کو کانٹوں کا تاج پہنانے کے لیے۔ بھاری لکڑیوں سے صلیب بنائی گئی ۔ سیدنا عیسیٰ ابنِ مریم ؑ کو صلیب پر باندھ کر ''دستِ مسیحائی‘‘ سمیت پورے پاکیزہ بدن پر زخموں کی تازہ فصل سجائی گئی ۔ پھر بیت المقدس کے گلی کوچوں میں زعمِ پارسائی کے قیدی اور چلتے پھرتے مُردے عیسیٰ ابنِ مریم ؑ پر پتھر برسانے کے لیے جمع کئے گئے ۔ آ ج عیسیٰ ابنِ مریم ؑ کا اسمِ گرامی امر ہے ۔ لیکن سیدنا عیسیٰ ابنِ مریم ؑ کو ، کوہِ زیتون سے کھینچ کر صلیب تک لے جانے والوں کا نام تک کوئی نہیں جانتا ۔
پونے تین ہزار سال سے زیادہ برس گزر گئے۔ مگر صلیب اور دارلامارہ کی داستان مسلسل دہرائی جا رہی ہے ۔ صلیب و دار کا آغاز اگرچہ مشرق میں ہوا ‘ لیکن صدیوں بعد آج اس کے طرف دار مغربی تہذیب میں زیادہ پائے جاتے ہیں ۔ ہر سال ، ہر مہینے فتنہ پروری کا کاروبار سجانے والے اور از خود مسیحائی کا دعویٰ کرنے والے ۔
پھر چلے ہیں میرے زخموں کا مداوا کرنے
میرے غم خوار اُسی فتنہ گرِ دہر کے پاس
جس کی دہلیز پر ٹپکی ہیں لہو کی بوندیں
جب بھی پہنچا ہے کوئی سوختہ جاں کشتۂ یاس
جس کے ایوانِ عدالت میں فروکش قاتل
زر کی میزان میں رکھے ہوئے انسان کا ماس
امن کی فاختہ اُڑتی ہے نشاں پر لیکن
نسلِ انسان کو صلیبوں پہ چڑھا رکھا ہے
اس طرف نطق کی باران کرم اور اُدھر
کاسۂ سر سے مناروں کو سجا رکھا ہے
سانحہ کربلا کے بعد جبر اور ملوکیت کے خلاف مختلف صدیوں میں جتنی تحریکیں اُٹھیں ‘ اُن میں قربانی کا رنگ قربانیٔ حسین ؓ کی تاثیر ہی بھرتی رہی ۔ آج کے دور میں ملوکیت کے نئے استعارے تخلیق ہو چکے ہیں ‘ جن میں سب سے بڑا آئی کون نظامِ سرمایہ داری کا استعارہ ہے ۔
کھا گیا اسلام کو سرمایہ داری کا یزید
سامنے آئیں، کہاں ہیں سوگوارانِ حسینؓ
عام ہے چاروں طرف ذریتِ ابنِ زیاد
میں ہوں پاکستان کے کوفہ میں دربانِ حسینؓ
آج عشرۂ ماہِ محرم 2018 عیسوی کا آخری یوم ہے ۔ اس دن کا پیغام دنیا بھر کے مظلوموں کے نام:
عشرہِ ماہِ محرّم ذکر و اذکارِ حسینؓ
دیدہ و دل میں اُتر آئے ہیں انوارِ حسینؓ
کیا ڈرا سکتا ہے اس کو خنجرِ ابنِ زیاد
مرجعِ سیرت ہو جس انساں کا ایثارِ حسینؓ
عصرِ حاضر کے یزیدوں کو سناتے جائیے
ڈھال کر اشعار کے سانچے میں اذکارِ حسین ؓ
اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب میں اعلان ہوا کہ ربِ دو جہاں اور اُس کے فرشے نبی آخرالزمان حضرت محمدﷺ اور اُن کی آل پر درود بھیجتے ہیں ۔ ہر کلمہ گو اسی الہامی طریقے پر لختِ دلِ زہرا ؓ پر سلام بھیجتا ہے ۔
ہم تو عاجز ہیں ہماری ہستیٔ ناچیز کیا
ان کو روز و شب پہنچتا ہے فرشتوں کا سلام
ذات ان کی چہرۂ ایثار کا حسن و جمال
مرتبہ ان کا بہت بالا‘ نہیں جس میں کلام
ان کے خوں سے دامنِ تاریخ میں لکھا گیا
امّتِ خیرالبشر ؐ میں ہے ملوکیت حرام
جھک چکے ہیں ان کی چوکھٹ پر شہنشاہوں کے سر
دھول ان کے پائوں کی‘ دنیا کا تزک و احتشام
مرحلے ان کے درخشاں سلسلے ان کے عظیم
حوصلے ان کے مقدس‘ ولولے ان کے مدام
وسعتیں ان سے امانت کے تصور کو ملیں
ان سے پایا ہے بجائے خود شہادت نے مقام
سا ل680 عیسوی میں شروع ہونے والا معرکۂ کرب و بلا آج بھی جاری ہے ۔ آ ئیے اپنے اندر جھانکیں۔ اپنے ارد گرد بھی نظر دوڑائیں ۔
ہر دور میں ہوتی رہی طاقت کی پرستش
ہر دور یزیدوں کا طرف دار رہا ہے
ہر دور میں سر کٹتے رہے اہلِ وفا کے
ہر دور میں اِک معرکۂ کرب و بلا ہے
خیموں کی طنابوں پہ رذیلوں کے بڑھے ہاتھ
خاکم بدہن! یہ بھی مشیت کی رضا ہے
موقوف ہے جس ذات پہ امّت کی شفاعت
خنجر کے تلے اس کے نواسے کا گَلہ ہے
نالہ نہیں یہ گنبدِ خضریٰ کی ہے فریاد
ماتم نہیں سی پارہ قرآں کی صدا ہے
اعدائے بد اندیش کسے گھور رہے ہیں
حیدرؓ کا پھریرا ہے کہ زینبؓ کی ردا ہے
پونے تین ہزار سال سے زیادہ برس گزر گئے ۔ مگر صلیب اور دارلامارہ کی داستان مسلسل دہرائی جا رہی ہے ۔ صلیب و دار کا آغاز اگرچہ مشرق میں ہوا ‘ لیکن صدیوں بعد آج اس کے طرف دار مغربی تہذیب میں زیادہ پائے جاتے ہیں ۔ ہر سال ، ہر مہینے فتنہ پروری کا کاروبار سجانے والے اور از خود مسیحائی کا دعویٰ کرنے والے ۔