خدا کے بندو خلقِ خدا سے نا سہی‘ خدا سے اور وارثانِ شہداء سے معافی تو مانگو۔
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تُو۔ یہ ابھی گزرے کل ہی کی تو بات ہے۔ ماضی بعید کا بھولا بسرا قصہ نہیں۔ جب زمینِ فرش پر خدائی کے دعوے دار‘ خالص خدائی لہجے میں اور بزعمِ خود ''حکمران خاندان‘‘ بن بیٹھے تھے۔ اس دورِ حکمرانی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز لارجر بینچ کو 5 بندے کا لقب دیا گیا۔ ملک کی آخری عدالت کے فیصلے کو عوام کی پرچی پھاڑنے والا کاغذ قرار دیا گیا۔ جے آئی ٹی خلائی مخلوق کی کارندہ بنا دی گئی۔ جی ہاں یہ بھی ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ حکمران خاندان کے مجرمانِ ثلاثہ نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ ان کے خلاف فیصلے زمین پر رہنے والی جوڈیشری نہیں کرتی بلکہ خلائی مخلوق لکھتی ہے۔ ساتھ ایک اور دعویٰ بھی سامنے آیا۔ یہی کہ ہمیں معلوم ہے‘ ہمارے خلاف فیصلے کہاں پر لکھے جاتے ہیں۔ چار، پانچ ''ٹَٹ پونجئے‘‘ تو عسکری اداروں پر اتنا بولے کہ بپن راوت اور نریندر مودی‘ دونوں شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری پر شرما کر پسینے پسینے ہو گئے۔
آئیے ذرا سا اور پیچھے چلتے ہیں۔ سنیے تو ، حکمران خاندان کا وفاقی وزیر داخلہ اور پنجاب کا وزیرِ امورِ ماورائے قانون و داخلہ بھی‘ دونوں کیا کہتے رہے ہیں۔ نواز حکومت قلم والوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ غلیل والوں کا ساتھ ہم کبھی نہیں دیں گے۔ بے اعتدال ، بے سُرے، بے کمال سیاسی اداکاروں کی ٹولی جو ''لام‘‘ گروپ کے نام سے کیمروں پر مشہور ہوئی‘ صبح و شام ایک ہی گردان کرتی رہی ۔ فوجی مداخلت جمہوریت کو چلنے نہیں دیتی ۔ اپنے قومی اداروں کی اس طرح کی کھلی دشمنی صرف ''لام‘‘ گروپ کا ہی بے توڑ عالمی ریکارڈ ہے۔ آلِ شریف نے صرف 'کیوں نکالا‘ کا رونا نہیں رویا۔ بلکہ یہ تک کہہ ڈالا ''وہ‘‘ ہمیں رونے بھی نہیں دیتے ۔ آلِ شریف کی وضع کردہ خلائی مخلوق کی اصطلاح سے صرف مقامی طور پر سیاسی فائدہ اٹھانا مقصود نہیں تھا۔ دراصل بین الاقوامی سامعین کے سامنے فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ماورائے آئین، حکمرانی کے شوقین اور جمہوریت پہ یقین نہ رکھنے والے ثابت کرنا تھا۔ خلائی مخلوق کہنے والے آج کل تھرڈ ڈگری پر اُتر آئے ہیں۔ کمائی مخلوق سے شہرت پانے والی یہ ٹیم خلائی مخلوق کا شور مچانے کے بعد ودھائی مخلوق المعروف ''بھاگ لگے رہن‘‘ پر اتر آئی ہے‘ جس کی 3 تازہ ترین واقعاتی شہادتیں کچھ یوں ہیں: کارِ کرپشن میں گرفتار شریف برادران کی تفصیلی مشاورت ہوئی۔ جس کے بعد شہباز شریف نے یہ بیان دیا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری وزیر اعظم عمران خان کی وجہ سے نہیں آئی‘ بلکہ سرمایہ کاری کی آمد کا سبب چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں۔ اس بیان سے کم از کم ایک مسئلہ تو طے ہوا کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں پہلے چار پانچ ماہ کے اندر اندر ہی قابلِ ذکر اور قابلِ فخر سرمایہ کاری کے منصوبے آئے ہیں۔ منطق کے عمومی اصول کے مطابق ہی دیکھ لیں۔ اگر بیرونی سرمایہ کاری کے منصوبے قابلِ ذکر نہ ہوتے تو شہباز شریف کو ان کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اور اگر یہ منصوبے قابلِ فخر نہ ہوتے تو شہباز شریف وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان ان منصوبوں کو پاکستان میں لانے کے کریڈٹ کی تقسیم کے لیے ماما جی کی عدالت کیونکر لگاتے۔ اور اگر وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں آنے والی سرمایہ کاری نا قابلِ ذکر ہے اور نا قابلِ فخر تو پھر شہباز شریف کا بیان (بھاگ لگے رہن) کے علاوہ اور کیا ہے۔
سیاست میں تکبّر کے کئی قابلِ ذکر مظاہر پائے جاتے ہیں‘ جو اپنے Content کی بنیاد پر سخت قابلِ گرفت بھی ہیں ۔ اس معاملے میں، میں برادرم حسن نثار صاحب سے 100 فیصد اتفاق کرتا ہوں ۔ حسن نثار صاحب نے سرکار کے بعض اہلکاروں کے تساہل ، تفاخر اور تکبر کی تثلیث کی درست طور پر نشاندہی کی ‘ جسے میں نے وزیر اعظم عمران خان سے خود شیئر کیا۔ انہوں نے فوری طور پر مرکز ، پنجاب ، کے پی کے‘ کے متعلقہ ذمہ داران اکٹھے کیے۔ مجھے بھی بلوایا۔ اور لفظوں کا قیمہ کیے بغیر متکبرانہ لب و لہجے پر سخت نا پسندیدگی ظاہر کی۔ واضح الفاظ میں کہا: حکمران ٹیم کا اندازِ تخاطب متواضع اورHumility پر مبنی ہونا چاہیے‘ بولنے کا اسلوب دل آزاری کی بجائے دل جوئی والا ہو۔
حسن نثار صاحب نے جس قومی المیے کی نشاندہی کی ۔ اُس کی تفہیم کے لیے پہاڑی زبان کا ایک محاورہ کافی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں آ پ اسے ودھائی مخلوق کا منشور بھی کہہ سکتے ہیں۔ محاورے کا ترجمہ ہے: ایک ہاتھ گریبان پر دوسرا پائیدان پر ۔ اگر ہم سیکھنا چاہیں تو برطانوی دارالعوام کی پچھلے دو سال کی ڈیبیٹس کلاسک کیس سٹڈی ہیں۔ یونین جیک کی تاریخ میں بریگزٹ سے بڑا اندرونی زلزلہ شاید ہی پہلے آ یا ہو ‘ جس کے نتیجے میں حکومتیں الٹ پلٹ گئیں۔ بریگزٹ کے سوال پر ہاں یا ناں کہنے کے لیے ریفرنڈم ہوا‘ اور دھواں دھار مباحثے برپا ہوئے۔ لیکن مجال ہے کبھی کوئی کورم ٹوٹا ہو۔ کبھی برطانوی پارلیمنٹ کا فلور گالیوں کے سٹاک ایکس چینج میں تبدیل ہوا ہو۔ یا کبھی سیاسی ڈیبیٹ کو جانو کپتی جیسی دو لڑاکی پڑوسنوں کی بلا حدود جنگ میں بدلتے دیکھا گیا ہو۔ ایسا نہیں ہے۔ جس کی وجہ برطانیہ میں رائج زبانی ( unwritten) دستور ہے ۔ مجال ہے کوئی کسی پر ذاتی حملہ کرے۔
ایک اور پہلو بھی قابلِ غور ہے اور وہ یہ کہ بر طانوی حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں ایک دوسرے کی بات سنتی ہیں۔ زیڈ کلاس شاعر کی طرح اپنی غزل سنا کر مشاعرے سے کوئی نہیں بھاگتا۔ کیا کوئی میری رہنمائی کر سکتا ہے کہ وہ کون سی پارلیمنٹ ہے جس کی حزبِ اختلاف وزیرِ اعظم کو مِیڈ ان تقریر نہ کرنے دے ۔ یہ کس ایوان میں ہوا کہ مسلسل 5 ماہ کے عرصے تک اپوزیشن اپنی بات کرنے کے بعد ایوان سے بھاگ جائے۔ کرپشن کا قیدی ٹرانسپیرنسی پر ہر روز دو گھنٹے کا لیکچر دے۔ ملک بھر کا میڈیا اُس کی لائیو کوریج کرے۔ سرکاری بینچوں کو نہ ایجنڈا ٹیبل کرنے دیا جائے‘ نہ ہی کسی وزیر کو پالیسی سٹیٹمنٹ دے کر ایوان میں بحث کِک آف کرنے کا موقع دیا جائے۔
پھر یہ کہاں ہوا کہ ایک دوسرے کے لیے بے لباس اشارے اور بے حدود گالیاں بکی جائیں۔ جس آئین کے تحت موجودہ پارلیمنٹ وجود میں آئی ہے‘ اس کے پارٹ نمبر 2 میں بنیادی حقوق اور پرنسپلز آف پالیسی لکھے گئے ہیں۔ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 14 کے مطابق احترامِ آدمیت ناگزیر ہے۔ ملاحظہ کیجئے اس کی زبان۔
ARTICLE 14. Inviolability of dignity of man, etc.
(1) The dignity of man and, subject to law, the privacy of home, shall be inviolable.
ذرا مفکّرِ عالَم اور شاعر ِمشرق کی تو سنیے:
آزادیٔ افکار سے ہے اُن کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکر و تدبّر کا سلیقہ
ہو فکر اگر خام تو آزادیٔ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ!