"SBA" (space) message & send to 7575

عید کا چاند ہے ‘خوشیوں کا سوالی اے دوست!

عید کا لفظی معنی خوشی ہے ۔عملی طور پر اسے ری یونین ‘میلہ اور اکٹھ بھی سمجھا جاتا ہے۔دراصل عید انعام بھی ہے اور اکرام بھی ۔ایک مہینہ زبانی اور عملی طور پر روزہ رکھنے کا انعام جب کہ مالکِ ارض و سما کی خوشنودی کے لیے حلال چیزوں سے دور رہنے کا اکرام‘لیکن روزہ ایک شخصی عبا دت ہے‘ جو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ با برکات کے لیے مخصوص ہے ۔ اس لیے روزے کا ا جر بھی وہیں سے آتا ہے ۔
پنجابی زبان میں انسان کے لیے''بھُلّن ہار‘‘یعنی بھُلکڑ یا بھول جانے کا عادی والا لاحقہ استعمال ہوا ہے۔ بھول جانے کا سب سے سنگین نظارہ قبرستان میں ہوتا ہے‘ جہاں میت کے دفنائے جانے تک ہر کس و ناکس پر موت کی ہیبت طاری رہتی ہے ‘پھر جوں ہی قبر پہ مٹی پوری ہوتی ہے ‘یار لوگ سب کچھ بھول بھلاکر دنیا داری کے سفر پر مُڑ جاتے ہیں ۔بقول کَسے:
دبا کے قبر میں سب چل دیئے دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو 
2دن بعد عید ہو گی۔ اس لیے جمعے کا وکالت نامہ بھی ہمارے ساتھ ہی عید کی چھٹی پہ ہو گا۔ پہلا سوال عید یہی ہے کہ رمضان کریم کی عبادتیں‘ریاضتیں‘ تقریریں‘ پندو نصیحت اور کچھ کاموں سے احتراز کے 30دن چاند رات کو بھُلا دیے جائیں گے یا ان 30دنوں کو رنگروٹی والی ٹریننگ سمجھ کر ہم اپنے اگلے 11ماہ کو ڈسپلن کر سکیں گے ۔اللہ کرے ایسا ہی ہو‘ لیکن 23رمضان سے چاند رات تک بازاروں میں کپڑا ‘لتہّ ‘چوڑی مہندی‘ پازیب دوپٹہ‘پہناوا یا کھاباجو کچھ جس معیا ر اور جس قیمت پہ بیچا گیا ‘ وہ آنے والے گیارہ مہینوں کے سماجی رویوںکا کیا پتا نہیں دیتا؟
چلیے خیرخواہی کا جذبہ غالب رکھ لیتے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ رمضان کریم کا ماحول حضرتِ انسان اگلے رمضان تک انشا اللہ سنبھال سکے گا ۔عید‘ میلہ‘ اجتماع اور( congregation)ہمیشہ سے انسانی سماج اور مذاہب کا حصہ رہے ہیں ۔ عید رات سے پہلے ا گر کوئی کوہِ اَنا سے نازل ہو کر اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرے ‘کسی روٹھے ہوئے کو اپروچ کرے‘ عید کو دھرتی اماں کے سینے پر Happiness Day of سمجھ سکے‘ تو جان لیجیے اس نے عید سے پہلے ابدی اورا صلی عیدی وصول کر لی ۔اس درخت کی عیدی‘ جس کا پھل لا فانی ہے۔ ایک شاخ پر سینکڑوں گوشے اور ہر گوشے میں ہزاروں فروٹ ۔نثار کبریٰ نے اسی کیفیت کو یوں رقم کیا:؎ 
کیوں اشارہ ہے افق پر آج کس کی دید ہے
الوداع اے ماہِ رمضان وہ حلالِ عید ہے 
عید آئی اور کیا کیا یاد تازہ کر گئی
سوچ بچھڑوں کی ہے دل میں اور خیالِ عید ہے
یوم ِعید میں غریبوں کی خوشی کو اولیت حاصل ہے ۔محسن ِ انسانیت حضرت محمدﷺنے اس خوشی کو صدقۂِ فطر کا نام دیا ۔ہم اسے فطرانہ کہتے ہیں۔آپﷺ کا ارشادِ گرامی ہے ''صدقۂِ فطر مسکینوں کی روزی کے لیے مقرر کیا گیا ہے‘‘ ۔فطرانہ ‘چونکہ عید کی نماز پر جانے سے پہلے ادا کرنا لازم ہے اس لیے صاحبِ فطر احباب ابھی سے اپنے خویش‘ قبیلے‘ گلی محلے اور کوچے ‘ قریے میں اس کے حقداروں کو ذہن میں رکھ لیں۔فطرانہ ارتکازِ زر‘ دولت جمع کرنے کی نفی اور تقسیمِ ز ر‘یعنی دولت میں ان لوگوں کو شریک کرنے کا واضح حکم ہے ‘جو اس نعمت سے محروم ہیں یااس کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ۔؎
ہے مسلمانوں پہ واجب صدقۂِ عید الفطر 
پا کے روزی خوش ہیں غُربا یہ نہالِ عید ہے 
اسی تنا ظر میںافضل طریقہ یہ ہو گا کہ فطرانہ صبح کے وقت مستحق فیملی تک پہنچا دیا جائے‘ تا کہ وہ عید کے دن کا لباس نہیں تو اپنے کھانے پینے کی چیزیں ہی خرید سکیں ۔عید کی ساری خوشیاں سب نعمتیں اور سہولت خود سمیٹ لینے والے جان رکھیں ہمارے وطن کی آدھے سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے‘ جس کامطلب ہے ناشتہ کہاں‘چائے اور دال روٹی بھی انہیں مشکل سے میسر ہے۔ معروف رائے بریلی نے اس محرومی کو منظوم کیا ۔؎
سُنا ہے چاند نکلا تھا 
سنا ہے رونقیں تھیں کوچہ وبازار میں ہر سو
سنا ہے عید کی خوشیاں منائی شہر میں سب نے 
یہ سب کچھ تو ہوا لیکن بس اک تم ہی نہیں آئے 
بس اک تم ہی نہیں آئے ‘بتائو کیوں نہیں آئے؟
بتائو دید کب ہو گی‘ ہماری عید کب ہو گی؟
ایک قوم کی حیثیت سے ہم سب کے لیے باعثِ فخر ہے کہ ہم دل کھول کر چیرٹی کرتے ہیں۔اربوں روپے کے حساب سے‘مگر چھوٹی سی بات سوچ لینے میں حرج ہی کیا ہے کہ ہمارا دیا ہوا کہاں کہاں پہنچا اور کس مصر ف اور مقصد کے لیے خرچ ہوا ۔ہم کسی پر بھی شک و شبہ نہ کریں اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اپنے ہاتھ سے یتیم ‘عاجز ‘مسکین ‘مسافر اور اسیر تک پہنچا دیں ۔اپنے ہاتھ سے خیرات کرنے کے 2فائدے اور بھی ہیں۔پہلا یہ کہ آپ ناداری ‘مجبوری اور لاچاری کی زندگی گزارنے والوں کو کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں ۔فارسی زبان کا محاورہ ہے: شنیدہ کَے بوّد ‘ماننِد دیدہ‘ یعنی محض سنی سنائی بات‘ آنکھ سے دیکھے ہوئے منظر کا کیسے مقابلہ کر سکتی ہے ۔دوسرے یہ کہ درد مندوں کا درد شیئر کرنا انتہائی پاکیزہ اور روح پرور تجربہ ہے۔پروین شاکر نے اس سرشاری کو محسوس ہی نہیں گہرائی تک بیان بھی کر دیا۔؎
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا 
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی 
ہم ایسی خوش بخت قوم ہیں‘جس کے کروڑوں لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ کھاتے پیتے گھرانے ہر گائوں‘ ہر شہر میں موجود ہیں۔عید کے دن ان میں سے کون ہے ‘جو ایک کلو آٹا‘ایک پیکٹ سویاں‘ ایک ڈبہ دودھ ‘ آدھا کلو گھی یا دال یتیم ‘مسکین یا محتاج تک نہیں پہنچا سکتا ۔یہ بھی سچ ہے کہ خوشیوں کے سوالی ہر بستی میں بستے ہیں۔ان کی بھاری اکثریت عزت دار ہے ۔اس لیے سوال نہیں کر سکتی ۔
اگلے دن کا واقعہ سُن لیجیے ۔سپریم کورٹ سے واپس آ کر میں لا آفس کی ڈیوڑھی میں بیٹھا ‘سٹاف اور 5/6وکلا ایک کیس کی ڈکٹیشن لے رہے تھے۔ہماراپرانا جاننے والا بِلا ٹھیکیدا ر آگیا ۔وہ بے چین تھا اور پریشان بھی۔ میں نے کام چھوڑا اور اس سے پوچھا: سب خیریت ہے؟وہ پھٹ پڑا اور اونچی آواز میں رونے لگا۔ اس کے 2موٹر سائیکل اور پلاٹ 4ماہ میں بِک گئے تھے ۔اس کے بچوں کی ماں ہسپتال میں تھی ۔علاج مہنگا اور مسلسل۔ گزشتہ 15/16سال سے اسے جانتا ہوں۔ مجھے پتا تھا ‘وہ اس سے آگے کچھ نہیں کہے گا ۔میںاٹھا اور اسے کمرے میں ساتھ لے گیا ۔مجھے معلوم نہیں کہ وہ کہاں رہتا ہے ۔اس لیے وعدہ لیا کہ عید سے پہلے پھر ملو گے۔عید کے دن آپ کئی انجان لوگوں سے ملیں گے‘جنہیں آپ نہیں جانتے ‘ لیکن بہت سے ایسے ہیں ‘جنہیں آپ جانتے ہیں ‘بلکہ ان کے حالات بھی :۔
عید کا چاند ہے‘ خوشیوں کا سوالی اے دوست
خوشیاں بھیک میں مانگے سے کہاں ملتی ہیں
دستِ سائل میں اگر کاسۂ غم چیخ اُٹھے
تب کہیں جا کے ستاروں سے گراں ملتی ہیں 
عید کے چاند! مجھے محرمِ عشرت نہ بنا 
میری صورت کو تماشائے اَلم رہنے دے
مجھ پہ حیراں ہیں اہلِ کرم‘ ہونے دو 
دہر میں مجھ کو شناسائے اَلم رہنے دو
یہ مسرّت کی فِضا ئیں تو چلی جاتی ہیں
کل وہی رنج کے‘ آلام کے دھارے ہوں گے
چند لمحوں کے لیے آج گلے سے لگ جا 
اتنے دن تُو نے بھی ظلمت میں گزارے ہوں گے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں