آزادیٔ کشمیر کے ایک آئی کونک حریت رہنما صاحب نے کمال کی بات کہی۔ موضوع ہے: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کا مدبرانہ خطاب‘ جس پہ ہونے والے بے معنی اور لا یعنی تبصروں کے تناظر میں موصوف نے فرمایا:
'' کون کہتا ہے تقریروں اور مذاکرات سے کچھ نہیں ہوتا؟ بتائیے ذرا، قائد اعظم ؒ نے کتنی جنگیں لڑی تھیں؟‘‘
اس ایک مختصر سے جملے کا آفاقی پسِ منظر بھی ہے۔ کلیم اللہ حضرت موسٰی علیہ السلام، فرعون سے مباحثہ اور مکالمہ کرنے کے لیے جانے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے اپنی زبان میں وسعت اور شرحِ صدرکی دُعا مانگتے ہیں۔
اس مردِ کوہسار نے اسی موضوع پر دوسرا جملہ بھی کہا‘ جس میں ایک علیحدہ قسم کی تاریخی حقیقت ہے۔ اس میں اسی قسم کی تاریخ کا تسلسل موجود ہے۔ پہلے چلیے تقریر کے مباحث کی طرف۔ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ انسان کو اظہار کے لیے دو ارفع ترین windows عطا فرمائی ہیں۔ پہلے، لکھا ہوا لفظ تحریر کہلایا، لکھنے والا محرر۔ دوسرے، حیوانِ ناطق کا بولا ہوا حرف تقریر بن گیا اور اسے ادا کرنے والا مقرر ٹھہرا۔ میں ہمیشہ ہی سے شاگرد وکیلوں اور لیکچرز میں علم الکلام کے حوالے سے بہت سادہ سی بات کہتا آیا ہوں۔ اور وہ یہ کہ آپ کا لکھا ہوا اور آپ کا بولا ہوا دوسروں کی ملکیت ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ سادہ، واضح اور اُونچا (Audible) بولو تاکہ نہ سننے والے کا امتحان ہو اور نہ ہی آپ کی بات میں ابہام رہ جائے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم کے معرکۃالآرا خطاب کو محض تقریر کہہ کر تبصرہ کرنے والوں کی دو قسمیں ہیں۔ پہلے نمبر پر‘ وزیر اعظم عمران خان کے ناقد اور مخالف۔ دوسرے نمبر پر وہ بولنے والے اور والیاں جو اردو کو ہندی میں اور انگریزی کو اپنی علاقائی زبان میں بولتے ہیں۔ ہم تقریر رہنے دیتے ہیں۔ کلام کا یہ عالم ہے کہ پُرانے زمانے کا ریڈیو پاکستان، اور پی ٹی وی چلانے والے لرز کر رہ جائیں۔ ان دنوں 25 منٹ کے اشتہار اور 35/40 منٹ کی وظیفہ یافتہ تقریریں کر کے کہا یہ جا رہا ہے کہ تقریر کا کیا اثر ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی جج وکیل کو کہے مقدمے کی سماعت کے دوران دلائل کی کیا ضرورت ہوتی ہے۔ اور اگر تقریر اتنی ہی بے معنی چیز ہے تو شعبہ اینکرنگ پر تالے کیوں نہیں ڈال دئیے جاتے۔
اب ذرا تھوڑی سی بات جینز (Genes) کی ہو جائے۔ اس کے لیے ہندوتوا والے بھارت چلنا پڑے گا‘ جہاں ایک صاحب مولوی محمود مدنی جنرل سیکرٹری جمعیت علمائے ہند، یہ تقریر فرماتے ہیں:
''سو میں دو باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ جمعیت علمائے ہند انڈین مسلمز کی لارجسٹ آرگنائزیشن ہے۔ With 12 Millions primary members, Its the largest Muslim Organization, more than 100 years old organization. اور میں اِس کا جنرل سیکرٹری ہوں۔ جمعیت علمائے ہند نے کشمیر کے ایشو پر 10‘11 ستمبر کو اپنی جنرل کونسل کی ایک میٹنگ بلائی تھی اور اُس جنرل کونسل کی میٹنگ میں ایک ریزولیوشن پاس ہوا۔ اُس کے تین پارٹ ہیں۔ ایک پارٹ ہے لوگوں کو جو تکلیف ہو رہی ہے اس وقت وہاں کی جو سچوئشن ہے‘ اس کے لیے گورنمنٹ سے کہا گیا کہ اس سچوئشن کو جلدی سے change کیا جائے۔ Ease کیا جائے۔ اور لوگ آسانی سے اپنی زندگی گزار سکیں۔ سکینڈ پارٹ ہے۔ یہ کہ باہر کا جو Interference ہے۔ کنٹری کے انٹرنل ایشوز میں، پاکستان کی طرف سے، پڑوسی ملکوں کی طرف سے جو Interference ہو رہا ہے‘ وہ Interference ہم کو Acceptable نہیں۔ کشمیر انڈیا کا اٹوٹ انگ ہے۔ (ساتھ والے سے پوچھا)کیا کہیں گے آپ؟... (اُس نے بتایا) Integral Part ہے۔ کشمیر انڈیا کا Integral Part تھا، ہے اور رہے گا۔ اس پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جا سکتا۔ انڈیا کی integrity پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ انڈین مسلمز کا، انڈینز کا تو ہے ہی ہے، یہ انڈین مسلمز کا Preceptive ہے۔ اور یہ کچھ نیا نہیں ہے۔ 1951 میں۔ 1963 میں، اور اس کے بعد 2009 میں اور Then ابھی۔ تو یہ جمعیت علمائے ہند، اس بات کو پہلے سے 51 میں کہا، 63 میں کہا، 2009 میں کہا، اور اب کہا ہے۔ تو یہ پرانا ہمارا سٹینڈ ہے۔ اور اس سٹینڈ کو دوبارہ سے کہا گیا ہے‘‘۔
یہ سال 2019 کی تازہ ترین ویڈیو ہے۔ اب آئیے ذرا وہ آوازیں بھی سُنیں جو مودی کے لیے آسانیاں پیدا کر رہی ہیں۔ پاکستان کے اندر بھارتی مقبوضہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے، پرچی فروش سیاست کے ذریعے۔ مزید کچھ کہنے کی بجائے اُن آوازوں کی شناخت کے لیے نام ہی کافی ہے۔ یہ آوازیں بانیٔ پاکستان حضرت قائد اعظم پہ برستی تھیں اور اکھنڈ بھارت کے حق میں۔ ابھی تک اسی قسم کے جینز میں پاکستان کے خلاف یاسیت اور نفرت کے کانٹے اُگ رہے ہیں۔ بھارت کے اندر ایک دوسرا جینز بھی ہے۔ مسٹر محمد علی جناح کے جینز کے تسلسل میں جناب نصلی واڈیا۔
نصلی واڈیا قائد اعظم محمد علی جناح کی اکلوتی بیٹی دینا واڈیا کے بیٹے ہیں۔ وہ انڈیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہیں۔ وکی پیڈیا کے مطابق 7 ارب ڈالر کے مالک ہیں۔ بھارت کے انگریزی صحافی ویر سنگھوی نے نصلی واڈیا کا انٹرویو لیا۔ آئیے قائد اعظم کے جینز کو بولتا دیکھیں۔
اینکر: میں جانتا ہوں آپ واحد کاروباری ہیں جن کو سرکار نے ڈی پورٹ کرنے کی کوشش کی۔ جس کے کاروباری حریفوں نے اُسے قتل کرنے کی کوشش کی۔ Virtually پوری انڈین سرکار جس کے خلاف ہے۔ جس نے انڈین سرکار سے مقابلہ کیا۔ آپ کے پارسی خاندان کے پس منظر میں ایسا کچھ نہیں ہے جو یہ تاثر دے کہ آپ ایسا سخت مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ کیا یہ مشکل تھا؟
نصلی واڈیا: سب سے پہلے آپ نے میرے آدھے خاندان کے متعلق بات کی ہے۔
اینکر: جی، میں نے آدھے جینز کے متعلق بات نہیں کی۔
نصلی واڈیا: میرے جینز میں صرف پارسی خاندان کے جینز نہیں۔
اینکر: یقیناً یہ واڈیا خاندان کا حصہ نہیں ہے۔
نصلی واڈیا: شاید ان معنوں میں نہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ ''اپنے موقف پر ڈٹ جانا‘‘ والے جینز زیادہ تر میرے خاندان کے دوسرے حصے سے آئے۔ جن پر اس وقت کافی تکرار ہوتی ہے۔ لیکن جو بھی ہے، جناح جینز میں ''اپنے موقف پر ڈٹ جانا‘‘ ایک حقیقت ہے۔ تاریخ میں جو کچھ بھی ہوا، آپ دیکھ سکتے ہیں۔ چاہے آپ اُس سے متفق ہیں یا نہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ جینیاتی وراثت ہے۔
اینکر: تو آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا آپ اپنے اندر جناح جینز کو پہچان سکتے ہیں؟
نصلی واڈیا: 100 فیصد
اینکر: کس طرح؟ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ کو جناح سے جینیاتی وراثت ملی؟
نصلی واڈیا: میرا خیال ہے کہ جب آپ کو جینیاتی وراثت ملتی ہے تو اس میں دونوں طرف کے جینز ہوتے ہیں۔
اینکر: آپ کے والد کو تھوڑا بہت جاننے کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے اپنے والد سے ایمان داری، دیانت داری، وفاداری، شائستگی اور دریا دلی ورثہ میں پائی ہے... آپ کو جناح سے وراثت میںکیا ملا... جناح ایک فائٹر بھی تھے۔ کیا آپ نے یہ اُن سے جینیاتی وراثت میں لیا۔
نصلی واڈیا: تھوڑا بہت... جی ہاں۔ میرا خیال تو یہی ہے۔ میرے والد نسبتاً نرم مزاج اور صلح جُو تھے۔
اینکر: جناح tough guy تھے۔ ایک ایسے شخص، جو کبھی ہار نہیں مانتے تھے۔
نصلی واڈیا: آپ ان کے عقائد یا نظریات سے اختلاف کر سکتے ہیں‘ لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ وہ جس کام کا تہیہ کر لیتے تھے۔ اسے ضرور پورا کرتے تھے۔
کیا لوگ بغضِ عمران میں یہ بھی بھول گئے کہ پاکستان کا وجود ہی تقریروں، مذاکرات، جلسوں اور سفارت کاری کا مرہونِ منت ہے۔