16 نومبر کی رات، جم سے نکلا۔ موبائل پر نظر ڈالی۔ مس شدہ کال کے جواب میں فون کیا۔ وزیر اعظم، تازہ فیصلے کے بارے میں رائے پوچھنے لگے۔ پوسٹ دھرنا scenario نے مفت مشوروں کی سٹاک ایکسچینج کا بھٹہ بِٹھا دیا ہے۔ اس لئے ''مشورہ خانم‘‘ کردار سیلز مینی کے سارے ہنر استعمال کر رہے ہیں۔ سیلز کی دنیا کا بڑا ہتھیار پراڈکٹ نہیں‘ پروموٹر ہوتا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں، ''جو دِکھتا ہے... وہ بِکتا ہے‘‘۔ لیکن کوشش کے باوجود بھی نہ ہنسی رُک رہی ہے‘ نہ ہی لطیفوں کی آمد۔
ان میں سے کچھ واقعات ہیں، باقی واردات نُما۔ لاہور میں ایک وکیل دوست رمضان چوہدری، اس میدان کے شاہسوار ہیں۔ کان میں سرگوشی کے انداز میں لطیفہ ایسے سناتے ہیں جیسے کوئی کلاسیفائیڈ خبر۔ کہنے لگے: کوئی داماد کرتوتِ سیاہ کے نتیجے میں سسرالی گائوں والوں نے پکڑ لیا۔ اس کا منہ کالا کیا۔ جوتیوں کے ہار پہنائے۔ گدھے پہ چڑھایا۔ گائوں کی گلیوں میں دیدارِ عام کے لئے گھمایا۔ یہ خبر اُس کی بستی میں پہنچی۔ دوست اظہارِ ہمدردی کرنے جمع ہوئے۔ ایک بولا، ''سسرالی گائوں نے بڑی زیادتی کی۔ تیری بے عزتی کی گئی‘‘۔ داماد کندھے اُچکا کے بولا ''نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ ویسے وہ گائوں بھی کیا ہے۔ سات آٹھ سو گھروں والی ڈھوک ہے۔ کون سے جوتوں کے ہار؟ بس بچوں کے سلیپر وغیرہ تھے۔ منہ پر کالک کیسی؟ دیسی گھی کے پراٹھوں والا 'توا‘ تھا‘ اور گدھا کیا؟ چھوٹی سی کھوتی تھی۔ میرے پائوں زمین پہ تھے۔ اس میں بے عزتی والی کون سی بات ہے‘‘۔
ایسے واقعات کے مارکیٹنگ ایکسپرٹ، واردات کو یوں بیان کریں گے ''گائوں میں داماد کا تاریخی استقبال‘‘۔ ''گائوں کے نوجوانوں کی بڑی تعداد جلوس میں شامل‘‘۔ ''گلے میں ہار ڈالے گئے، استقبال کا یہ مظاہرہ صدیوں یاد رکھا جائے گا‘‘۔ ''دشمنوں کا منہ کالا ہو گیا‘‘ وغیرہ۔ آج وکالت نامہ غیر سیاسی ہے۔ اس لئے کسی واقعہ یا لطیفے کو سیاست سے بلا اجازت جوڑنا منع ہے۔
دوسرے نمبر پر پہلی جنگ عظیم کا واقعہ آتا ہے۔ دورانِ جنگ محاذ پر امریکی فوجی 'کرسچین سروس‘ میں دُعا کر رہے تھے۔ جنگ میں محاذ پر فوجیوں کی وردیاں بَیج والی نہیں ہوتیں۔ نہ سینے پر نیم پلیٹ۔ گلے میں ایک چین کے ساتھ لوہے کی پرچی پر نمبر لکھا جاتا ہے۔ سپاہی سے جرنیل تک۔ تاکہ کوئی گرفتار ہو جائے تو دشمن فوری طور پہ اُس کے نام اور عہدے کی شناخت نہ کر سکے۔ سروس کے اختتام پر کور کا جرنیل بھی پہنچ گیا۔ جرنیل نے سب کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے کہا ''آمین‘‘ اور اپنی چھاتی پر کراس بنایا۔ جوان منتشر ہونے لگے تو جرنیل نے ایک کو روک کر پوچھا ''سولجر، کیا دُعا کی ہے‘‘۔ جواب آیا: ہم امریکی میڈیکل کور کے لوگ ہیں‘ ہمارے سربراہ کی ریٹائرمنٹ یا جنگ میں کام آنے پر ہماری پروموشن ہوتی ہے۔ ریٹائرمنٹ ابھی دور ہے۔ ہم اپنی پروموشن کے لئے دوسری والی دُعا کر رہے تھے۔
اگلے روز، لاہور میں جاں بہ لب مریض کی رخصتی پر شہباز شریف کے ہمراہیوں نے ''مٹھائیوں کے ٹوکرے‘‘ بانٹے۔ اِس کا امریکی فوج والے واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔ واقعات میں مماثلت حادثاتی ہو گی۔ ارادتاً نہیں۔
ایک فلسفی عرصے بعد گائوں واپس آیا۔ ان پڑھ چوہدری نے اُسے بلا بھیجا۔ پہلا سوال پوچھا ''تعلیم اور فلسفے کا کیا فائدہ ہے‘‘۔ فلسفی نے جواب دیا ''تعلیم اور فلسفے سے انسان کا شعور بیدار ہوتا ہے‘‘۔ چوہدری کوغصہ آ گیا، کہا ''مجھے آسان الفاظ میں فلسفے کا فائدہ بتائو‘‘۔ فلسفی نے پوچھا ''چوہدری صاحب آپ کے گھر میں کُتا ہے؟‘‘ چوہدری صاحب بولے ''جی، ہے‘‘۔ فلسفی نے کہا ''تو آپ کے گھر میں مویشی بھی ہوں گے‘‘۔ چوہدری نے کہا ''ہاں جی‘‘۔ فلسفی نے کہا ''تو مطلب یہ کہ آپ کا گھر کافی بڑا ہو گا‘‘۔ چوہدری بولا ''جی، الحمدللہ‘‘۔ فلسفی نے کہا ''مطلب، آپ مالدار آدمی ہیں‘‘۔ چوہدری نے کہا ''جی اللہ کا شکر ہے‘‘۔ فلسفی بولا ''آپ کی زمینیں وغیرہ بھی ہوں گی‘‘ چوہدری نے کہا ''ہاں جی، زمینیں بھی ہیں‘‘۔ فلسفی نے پھر کہا ''مطلب آپ کے والدین نے آپ کو محنت اور دُعا کرنا سِکھائی ہو گی‘‘۔ چوہدری نے کہا ''جی، یہ تو ہے‘‘۔ فلسفی بولا ''آپ کی والدہ، بڑی شریف خاتون تھیں‘‘۔ چوہدری نے کہا ''جی بڑی نیک، عبادت کرنے والی خاتون تھیں‘‘۔ فلسفی نے کہا ''آپ کے والد بھی بزرگ ہوں گے‘‘۔ چوہدری نے حیران ہو کر پوچھا ''یہ سب کیسے پتا چلا آپ کو‘‘۔ فلسفی نے کہا ''یہ ہوتا ہے فلسفہ، لاجک۔ اس کو منطق کہتے ہیں۔ میں نے ایک سوال پوچھا، آپ کے گھر میں کتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا، آپ امیر ہیں۔ آپ کے گھر میں مویشی ہیں۔ زمینیں ہیں اور آپ کے والدین شریف لوگ تھے۔ اس کو منطق کہتے ہیں‘ ایک چیز پوچھی‘ پورے خاندان کا حسب نسب نکال لیا‘‘۔ چوہدری صاحب نے کہا ''یار یہ فلسفہ اور منطق تو بڑی پاورفل چیز ہے۔ لیکن تمہیں سولہ سال ہو گئے ہیں سیکھتے ہوئے۔ مجھے تو تھوڑی دیر میں سب سمجھ آ گیا‘‘۔
اگلے دن چوہدری نے نیا کرتا، کُھسہ پہنا۔ گائوں کا چکر لگایا کہ کسی کو فلسفہ اور منطق سِکھائے۔ کوئی قابو نہیں آیا تو چوہدری اُداس گھر واپس آ گیا۔ ایک ملازم شرفو اس کی ٹانگیں دبانے لگا۔ چوہدری صاحب نے کہا ''شرفو‘ کچھ فلسفہ پڑھ لو تم بھی‘‘۔ شرفو نے کہا ''چوہدری صاحب فلسفے کا فائدہ؟‘‘ چوہدری نے کہا ''تمہیں منطق آئے گی‘‘۔ شرفو نے پوچھا ''منطق کا کیا مطلب ہے؟‘‘ چوہدری نے کہا ''آگہی‘‘۔ شرفو نے پوچھا ''آگہی کیا ہے؟‘‘ چوہدری نے کہا ''آپ کے شعور کی کھڑکیاں کھل جائیں گی‘‘۔ شرفو نے کہا ''چوہدری جی، میں ان پڑھ ہوں‘ مجھے آسان لفظوں میں بتائیں‘‘۔ چوہدری صاحب نے کہا ''تمہارے گھر میں کتا ہے‘‘۔ شرفو نے کہا ''نہیں‘‘ اب چوہدری پریشان ہو گیا کہ شرفو کو آگے کیا کہے۔ پھر سوچ کر بولا ''شرفو، کل سے تم نے کام پہ نہیں آنا‘‘۔ شرفو نے پوچھا ''جی میرا قصور کیا ہے‘‘۔ چوہدری نے کہا ''دیکھو‘ یہ ہوتا ہے فلسفہ۔ مجھے ایک سوال سے پتا چل گیا کہ تمہارے والدین شریف لوگ نہیں تھے‘‘۔
کسی ریاست میں اقامے والا وزیر داخلہ تھا، بلکہ وزیرِ دفاع بھی۔ اُس نے اپنی قوم کو بتایا، حکومت کو کچھ نہیں پتا، جو مجھے پتا ہے۔ یہ فلسفی امریکہ کے دورے پر تھا۔ تب بھی اُس کی حاضری مڈل ایسٹ کے ویلڈنگ پلانٹ میں لگتی رہی۔ واقعی یہ صرف اُسے پتا تھا۔ اسے کہتے ہیں آگہی کا فلسفہ۔ اس فلسفی کا boss تھا، ایک سزا یافتہ گاڈ فادر‘ جسے حکومت نے بیماری کے عوض انسانی ہمدردی کی بنیاد پر 4 ہفتے کے لئے بیرون ملک جا کر علاج کروانے کی اجازت دی۔ ساتھ بانڈ مانگ لیا۔ اگر کوئی بانڈ کی خلاف ورزی کرے تو Land Revenue Act کے تحت تحصیل دار اُس سے ریکوری کی کارروائی کر سکتا ہے۔ اس سارے پراسیس میں صدی نہ بھی لگے تو سالہا سال یقیناً لگتے ہیں۔ اُسے بانڈ پسند نہ آیا۔ فلسفہ پسند آ گیا۔ بلا شبہ 'فلسفہ‘ اور 'اقامہ‘ دونوں کے آخر میں ہائے ہوّز مشترک جو ہے۔
پسِ نوشت، لاہور ہائی کورٹ کے رو برو، نواز شریف کے فیصلے میں کابینہ کی 4 ہفتے کی اجازت برقرار رہی۔ بانڈ والا حصہ دو بیان حلفیوں سے substitute ہو گیا، اور بانڈ معطل۔ نواز شریف، شہباز شریف نے جو بیان حلفی داخل کیے۔ اس کی خلاف ورزی کی سزا دیوانی نہیں، فوجداری ہے۔ فوجداری توہینِ عدالت، جس کے نتیجے میں آئین کا آرٹیکل (1) (g) 63 پبلک آفس ہولڈر کو نا اہل قرار دے سکتا ہے۔ اس تناظر میں لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ بہت مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔ وکالت نامہ ختم ہوا، لیکن کوشش کے باوجود نہ ہنسی رک رہی ہے نہ لطیفوں کی آمد۔ آمد سے آورد کی جانب چلئے۔ میرا جی کے ساتھ۔
سُوجھ بُوجھ کی بات نہیں ہے، من موجی ہے مستانہ
لہر لہر سے سر جا پٹکا، ساگر گہرا بھول گیا