"SBA" (space) message & send to 7575

تیسری آنکھ کے آنسو

پہلے ٹیکسٹ میسج آیا۔ ساتھ ہی ٹیلیفون کال پر دوسری جانب اجمل جامی تھے۔ دل کی دنیا کی بات بتانے لگے۔ بولے، گزشتہ رات نیم شب سے ذرا پہلے، وہ ابوالحسن علی بن عثمان (1009-1072) علی ہجویری داتا صاحبؒ کے ہاں حاضری دینے گئے۔ حضوری کے دوران اچانک انہیں میرا خیال آنے لگا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے 10 صدیوں کے عظیم درویش نے اس فقیر کو یاد کیا ہے۔ ایسا عظیم درویش جس کے ہاں، دل کی دنیا کے مردِ کامل معین الدین چشتی اجمیریؒ کو درویش کے وصال کے 93 سال بعد وجد آفرین وصل، وصول ہوا‘ جو سال 1165 میں درگاہِ داتا میں چلّہ زن ہوئے تھے۔ جہاں اُن کے قلب پر واردات کا عالم ان عالم گیر لفظوں میں ڈھل گیا:
گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں را رہنما
دنیا داری والی دنیا چلتی ہی رہتی ہے۔ جب تک سانس چلتی رہتی ہے یہ منڈی مندے کا شکار نہیں ہوتی۔ دل کی دنیا کی مثال آنکھ والی ہے۔ عام دنیا دار لوگ ہوں یا خالص دنیا کے طلب گار۔ ہر دو کو صرف دو آنکھیں نظر آتی ہیں۔ پہلی آنکھ، بصارت والی جبکہ دوسری جینے کے لئے ضروری بصیرت والی آنکھ۔ دل کی دنیا کے اندر تیسری آنکھ بھی ہے، عرفان (Introspection) والی۔ ایسی آنکھ کی بینائی تک رسائی کے لئے پہلے دو کھڑکیاں کھولنا پڑتی ہیں۔ کھڑکی نمبر ایک نفیٔ ذات کی ہے۔ نفیٔ ذات (Self-Negation) کی کھڑکی سے گزر کر انسان عرفانِ ذات کے بہشتی دروازے تک جا پہنچتا ہے۔ آنکھ کے سارے فنکشن اور کاریگری آنسو (Tears) ہیں کچھ اور نہیں۔ جس کی آنکھ میں آنسو سُوکھ جائیں‘ بینائی کے ماہرین اُسے (synthetic tear) یعنی آنکھوں میں ڈالنے والے مصنوعی آنسو تجویز کرتے ہیں۔
کئی دن بے چین کر دینے والی بے تابی میں گزارنے کے بعد میں داتا کی نگری میں پہنچ گیا۔ یہ بات طے کر کے گھر سے نکلا کہ اب کی بار کسی دوسری ایکٹیوٹی میں نہیں پڑوں گا۔ بعد از عشاء، اجمل جامی صاحب، پیر مسعود چشتی سمیت داتا صاحب کی درگاہ پر حاضری کے لئے پہنچے۔ محکمہ اوقاف کے ڈائریکٹر طاہر نے رسائی تک رہنمائی کی۔ داتا کی نگری میں کبھی دن نہیں ڈھلتا، رات نہیں ہوتی۔ یہ ایک ایسے سیّد کا دربارِ شاہی ہے، جہاں کوئی بھوکا خالی پیٹ نہیں لوٹتا۔ سیّد زادے کی بادشاہی میں نہ کوئی ہٹو بچو، نہ سائلوں کے لئے دھکے، نہ عرض مندوں کے لئے دھتکار۔ مالکِ ارض و سما نے حتمی اور آخری نسخۂ کیمیا میں سدا کی بادشاہی کا فارمولا قلبِ محمدﷺ پر یوں نازل فرمایا
''اور بے شک جو لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے۔ اُسے زمین پہ قائم رکھا جاتا ہے‘‘۔
میرا ایقان اور تجربہ دونوں بتاتے ہیں‘ جس گھر کی دہلیز آپ پار کرتے ہیں‘ وہاں میزبانی کا شرف صاحبِ خانہ کے ذمہ ہوتا ہے۔ صدیوں کے مہربان اس عظیم میزبان کے استھان پر‘ اس حاضری نے نہال کر دیا۔ کلامِ پاک سے آغاز ہوا۔ وارفتگی میں ڈوب کر بصارت کی آنکھیں وا نہ کر سکا‘ مگر تیسری آنکھ کُھل گئی۔ کیسے اور کب‘ اس کی مجھے خبر نہ ہوئی۔ کہتے ہیں‘ ظاہری آنکھ کے آنسو نمکین ہوتے ہیں۔ تیسری آنکھ کے آنسو باعثِ تسکین ہوتے ہیں۔ صرف من کی میل دھونے کے لیے نہیں بلکہ تن و رُوح کی بالیدگی کے لئے بھی۔
50 منٹ کھڑے کھڑے ایسے بیتے جیسے 5 ثانیے۔ لوحِ مزار کے آگے تھوڑی سی جگہ قبلہ رُو، خالی ہے‘ جہاں عشاء کی نماز پڑھی۔ پھر قضائے حاجت کے دو نفل۔ ایسے لگا‘ جیسے تیسری آنکھ کے آنسو زمین کے مدار سے باہر، کہکشائوں سے آگے، سیاروں اور ستاروں کی دسترس سے ماورا، پرواز کرتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آیا، ان آنسوئوں میں تشّکر زیادہ تھا یا ندامت۔ بے حیثیت غلام اور نغمۂ توحید۔
خس خس جنّاں قدر نہ میرا، تے صاحب نوں وڈیائیاں
دربار کی چوکھٹ کے اُوپر چاندی کی 11 کیلیں جڑّی ہیں۔ منشی شبیر، اے جے، شفیق جونیئر، قریشی، رائے تجمل پھولوں کی 11 مالائیں لئے کھڑے تھے۔ میں نے عقیدت کے یہ پھول نچھاور کیے۔ زکریا بٹ نے پنج ستارہ ہوٹل میں کھانے کی دعوت دے رکھی تھی۔ میں نے زکریا کا ہاتھ پکڑا، طاہر صاحب کے ساتھ لنگر خانے لے گیا۔ دن کی پکی ہوئی روٹیاں، ملکہ مسور کی دال، دال چنا اور آلو شوربہ۔ تناول ماحضر ہوا۔ واپسی پر دیر تک کوئی بات نہ ہوئی۔ ہوٹل لابی میں خاموشی توڑتے ہوئے پہلے اجمل جامی، پھر مسعود چشتی نے کہا: آج آپ نے ہمیں بھی بہت رُلایا۔
اگلے دن، ہائی کورٹ کمیٹی روم میں چائے پر خوب نشست جمی۔ نوجوان وکلاء اکثر دو عدد، راز جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلا، پیشہ ورانہ مقابلے کی دوڑ جیتنے کا۔ میں نے ینگ لائرز سے عرض کیا: دنیا میں صرف ایک روڈ ایسا ہے جس کی تعمیر 24/7 جاری رہتی ہے۔ اُسے روڈ ٹو پروگریس کہتے ہیں۔ یہ شاہراہِ ترقی دنیا کی واحد exclusive روڈ ہے۔ ہر کسی کی اپنی اپنی روڈ۔ اِدھر کوئی تعمیر سے غافل ہوا۔ اُدھر ساتھ والے تعمیراتی کام کلومیٹروں کے حساب سے آگے بڑھا دیتے ہیں۔
دوسرا سوال اپنے وجود کی اخلاقی شناخت اور شخصی تربیت پہ تھا۔ یہ سن کر پریشانی ہوئی‘ جب ایک ینگ لیڈی لائر نے کہا: سر... اب سِکھانے کا رواج نہیں رہا۔ سینئر سے سوال کریں تو وہ ٹھٹھے پر اتر آتے ہیں۔ سوال کا سامنا کرکے جواب دینے کی بجائے یہ مشورہ مُفت دے دیتے ہیں: گوگل سرچ کیا کرو۔ سر آپ بتائیں google search کسی سینئر یا صاحبِ کتاب کے تجربے کا نعم البدل ہو سکتی ہے؟ سوال اتنا اثر انگیز تھا کہ اُس نے کمرے میں موجود سینئرز کو ''سُن‘‘ کرکے رکھ دیا۔
ایک محترم لیڈی جج صاحبہ کے پاس سپاسِ تعزیت لے کر گئے‘ جن کے والد کچھ ہفتے پہلے سچے جہان روانہ ہوئے۔ لیڈی جج صاحبہ نے تیسری آنکھ پر تازہ ترین ذاتی تجربہ شیئر کیا۔ ویسے تو ساری بیٹیاں اپنے اپنے پاپا کی پریاں ہوتی ہیں‘ لیکن کچھ کو اللہ تعالیٰ اس سے بھی بڑھ کر نواز دیتا ہے۔ محترم لیڈی جج صاحبہ اُنہی میں سے ایک ہیں۔ فرمایا، ابا جی وفات کے دو ہفتے بعد مجھ سے ملنے آئے تھے۔ یہ بتاتے ہوئے انہوں نے اپنی متانت برقرار رکھی۔ لیکن پاپا کی نیلم پری کی تیسری آنکھ نمی سے چھلک پڑی۔ کہنے لگیں، لوگ کہتے ہیں یہ خواب تھا‘ لیکن وہ واقعی مجھ سے ملنے آئے تھے۔ اُن کے ہاتھ کا لمس میرے بازو کو چُھو رہا تھا اور ان کی قمیص میرے ہاتھ۔ میری تیسری آنکھ کے آنسوئوں نے میرا حال قتیل شفائی والا کر دیا۔
ماتم سرا بھی ہوتے ہیں کیا خود غرض قتیلؔ
اپنے غموں پہ روتے ہیں لے کر کسی کا نام
مجھے اسی صفحے پر 9 جون 2017 کو چھپنے والا وکالت نامہ '' میرے والد... ملک علی حیدر‘‘ یاد آ گیا۔
کل بھی خواب میں آئے/ کچھ گلاب پھر لائے/ روئی کا وہ گالہ تھے/ پیار کا حوالہ تھے/ نور کا وہ ہالا تھے/ اس قدر وہ بالا تھے/ میں تو چُھو نہیں پایا
.........
میں بہت ہی تھا چھوٹا، جب سکول سے لوٹا، گر پڑا، اُٹھایا تھا/ گود میں بٹھایا تھا، گال تھپتھپایا تھا اور پھر بتایا تھا/ تم کہاں اکیلے ہو، ساتھ ہیں تیرے بابا/ بادلوں میں رہتے ہیں/ روز مجھ سے کہتے ہیں/ پھر سے لوٹ آئوں گا/ پھر گلے لگائوں گا/ میں تو محض بچہ تھا، جب چلے گئے بابا/ کچھ بھی کر نہیں پایا، میں بہت ہی چھوٹا تھا
.........
آ کے دیکھ لیں بابا / تیری محنتوں کا پھل، میں نے کس قدر کھایا/ اور تیری خدمت میں، کچھ بھی کر نہیں پایا/ اب کبھی ملیں بابا/ پھر گلے لگیں بابا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں