"SBA" (space) message & send to 7575

ایک جُملہ ایک سوال

وہ زمانے لَد گئے جب ماضی مرحوم سے جان چھُڑوائی جا سکتی تھی۔
پچھلے دو عشروں میں سمارٹ فون، انٹرنیٹ، تھری جی، فور جی، کیبل ٹی وی اور واٹس ایپ، ٹک ٹاک، انسٹا گرام، وی چیٹُ ٹویٹر، فیس بُک، کیو زون (Qzone) سمیت 65 سے زائد سماجی رابطے کی ویب سائٹس نے زعمِ تقویٰ کے مریضوں کو ''معلومات تک رسائی‘‘ کے کلینک کے سامنے لمبی لائن میں لا کھڑا کیا۔ جہاں سائیکل والے سے لے کر v-8 تک ہر کوئی بریک لگاتا، اُنہیں پہچانتا اور پھر آگے بڑھ جاتا ہے۔ مگر جُملہ کَسے یا تبّریٰ بھیجے بغیر نہیں۔ آج کا ہر قاری، ہر سامع، ہر ناظر لکھاری بھی ہے‘ رپورٹر، تجزیہ کار اور تبصرہ نگار بھی۔ 
اس دورِ بے مثال میں ہر کسی کی آواز سُنی جا رہی ہے اس لئے رائے عامہ کو متاثر کرنے کا بزنس مناپلی مارکیٹ سے نکل کر 'لنڈا بازار‘ پہنچ گیا۔ ہر طرح کا سودا (Transaction)، ہر طرح کا مال اور ہر طرح کا گاہگ۔ آئی ٹی کے مارے، مڈل مین بے چارے پچھلی کمائی پہ گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔ انسانی سماج ''ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘‘ کی سٹیج سے فراٹے بھرتا آگے نکل آیا۔ خلقِ خُدا کے راج کی طرف جاری و ساری یہ برق رفتار راستہ کھوٹا ہونے کا نہیں۔ صدیوں کا سب سے بڑا اور آزمودہ سچ یہی ہے کہ سچ کوآنچ نہیں۔ جھوٹ کو لوہے کے پائوں اور ہوائی جہاز کے پہیے لگا دئیے جائیں تب بھی اُس کا انجام انگریزی محاورے والا ہے: A lie has no legs to stand upon. عربی میں کہتے ہیں '' اَلکِذبُ یُھلِک‘‘ جھوٹ جان لیوا ہے اور ہلاکت آفرین بھی‘ چاہے اُس کا عوضانہ مالِ مفت والے پٹرول پمپ ہوں یا کذب و افترا کے محنتانہ میں دلِ بے رحم والے محکمہ باغات کی تُمن داری۔ اسی عربی مقولہ کا دوسرا حصہ کہتا ہے ''وَالصِدقُ یُنجیٰ‘‘ معنی ہیں: صدق و صفا اور سچائی ہی فتح یاب ہوتی ہے۔
اُموی دورِ حکومت میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ 22 ستمبر 717 سے 4 فروری 720 تک خلیفہ رہے۔ آپ کو تاریخ میں عمر ثانی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کے دور میں نظریہ ضرورت دفنا دیا گیا؛ چنانچہ ہر طرح کی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر انتظامی عہدوں کے لئے انتہائی قابل اور دیانت دار لوگ چُنے گئے۔ 1300 سال گزرنے کے بعد بھی اس عہدِ زریں کا ایک جملہ صدیوں پر بھاری ہے۔ ویسے ہی جیسے شہیدوں کے قافلے کے سالار حضرت ٹیپو سلطان رحمۃ اللہ علیہ کا مشہورِ عالم جملہ ''گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے‘‘۔ یہ سادہ سا جُملہ یمن کے نئے گورنر محمد بن عروہ کی پوری استقبالیہ تقریر تھی۔ محمد بن عروہ کو حضرتِ عمر بن عبدالعزیز ؒ نے گورنر کا عہدہ دے کر یمن بھجوایا۔ نئے گورنر کا دیدار اور استقبال کرنے کے لئے سارا شہر اُمڈ آیا۔ استقبالی ہجوم کا خیال تھا‘ نئے گورنر لمبی چوڑی تقریر کرکے اپنا ایجنڈا اور تعارف اُن کے سامنے رکھیں گے‘ مگر محمد بن عروہ نے استقبالی عوام سے صرف ایک جُملہ کہا اور اپنی تقریر ختم کر ڈالی۔ یمن کے گورنر کا تاریخ ساز جملہ یوں تھا: 
''لوگو! یہ میری سواری میری ملکیت ہے۔ میں اس سے زیادہ لے کر واپس پلٹا تو مجھے چور سمجھنا۔‘‘ 
جملہ سُن کر یمنیوں کا استقبالی ہجوم حیرتوں کے سمندر میں ڈوب گیا۔ عمرِ ثانی کا گورنر یمن کے لوگوں کی خوشحالی کے لئے کام میں جُت گیا۔ یمن کے وسائل وظیفہ خوار درباریوں اور قصیدہ خوان نکمّے خوشامدیوں کی بجائے یمن کی خوش حالی کے لئے مخصوص ہو گئے۔ محمد بن عروہ کے دور کا یمن جزیرہ نما عرب میں شاہراہِ خوشحالی کا اہم ترین لینڈ مارک بن کر سامنے آیا۔ گورنری کا عہد پورا کرنے کے بعد محمد بن عروہ واپس پلٹنے لگا تو لوگ گلیوں اور بازاروں میں اُن کی خدمات اور فراق پر آنسو بہا رہے تھے۔ یمنیوں کا اتنا بڑا اجتماع تاریخ نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ خاص طور پر کسی ریٹائر ہونے والے عمّالِ سلطنت یا گورنر کو الوداع کرنے کے لئے۔ جذبات سے لبریز لوگ اُمید کر رہے تھے گورنر لمبا خطاب فرمائیں گے۔ محمد بن عروہ نے صرف ایک جُملہ کہا اور گورنری کا چارج لیتے وقت اپنے ہی اُٹھائے ہوئے سوال کا جواب دے کر تقریر ختم کر ڈالی۔ جملہ تقریباً ویسا ہی تھا۔
''لوگو! یہ میری سواری میری ملکیت تھی۔ میں واپس جا رہا ہوں۔ میرے پاس اس کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
اپنے ہاں حال ہی میں بین الاقوامی شفافیت (ٹرانسپیرنسی) کے انٹرنیشنل پرچارک ادارے نے کرپشن رپورٹ جاری کی۔ اپنی ویب سائٹ پر ادارے نے دعویٰ کیا کہ 8 کمپنیوں کے ذریعے پاکستان سمیت دُنیا بھر سے کرپشن ڈیٹا اکٹھا کیا گیا۔ یہ ڈیٹا سال 2015 تا 2017 کے عرصۂ حکومت کا ہے۔ تب ملک میں آلِ شریف کا راج شریف تھا‘ لیکن 2 کمپنیوں کے کھاتے میں ڈال کر ادارے نے اسے عمران دور کی کرپشن بنا کر ''نقد‘‘ حقِ نمک وصول کیا۔
کسے یاد نہیں، پہلے اس کے عہدے دار کو سرکاری ملازمت دی گئی۔ پھر وزارتی مشاورت کا عہدہ۔ آخر میں شفاف رپورٹوں کے عوض عالیشان سلطان اُسے یورپ میں سفیر مقرر کرنے پر مجبور ہوئے۔ کسٹمز ڈیپارٹمنٹ کی کلرکانہ افسری سے اُٹھ کر ایمبیسیڈر جیسے شفاف عہدے تک پہنچنے والا دو دن تک کرائے کے ذہنوں پر چھایا رہا۔ پھر اِس ٹرانسپیرنٹ ترین جھوٹ کو تھوک کر بڑی شفافیت سے چاٹ لیا گیا۔ کچھ مراعات یافتہ آج بھی خوب ڈھٹائی سے اپنی ہی ریاست کی بے وجہ تذلیل پر ڈھول تاشے بجا رہے ہیں۔ بے چاروں کو اب بھی بولنے کی آزادی نہ ملنے کا گِلہ ہے۔ کاش انہیں کوئی انڈیا کے ڈیڑھ لاکھ اخبارات پڑھائے یا 5 ہزار چینلز اور FM سنوا دے‘ جہاں مودی کی قانون سازی کے خلاف ایک حرف نہیں لکھا جاتا۔ ایک لفظ نہیں بولا جاتا۔ اُس کے باوجود کچھ ماہرین کو بھارت سینسر 'فری‘ اور پاکستان سنسر 'شدہ‘ نظر آتا ہے۔ 
ڈیویلپمنٹل بائیولوجسٹ ڈاکٹر بروس لپٹن (Bruce Lipton) نے دماغی بیماریوں کی بڑی وجہ طرزِ فکر (perception) کو قرار دیا‘ جبکہ اس مرض کا علاج ''پلیسی بو ایفیکٹ‘‘ (Placebo effect) بتلایا۔ یعنی مثبت طرزِ فکر۔ مثال یوں دی، اگر آپ کو یقین ہو کہ کوئی ''میٹھی گولی‘‘ اصل دوا ہے‘ اور آپ کا علاج کر سکتی ہے تو آپ کا یقین اس دوا کو اتنی طاقت بخشتا ہے کہ اس سے آپ ہیل (Heal) ہو جائیں گے۔ مطلب یہ آپ کو گولی نے نہیں بلکہ آپ کی طرزِ فکر نے Heal کیا۔ اسی طرح منفی سوچ ہے جسے ''نوسی بو ایفیکٹ‘‘ (Nocebeo Effect) کہتے ہیں۔ وہی طاقت جس نے آپ کو پازیٹو سوچ کی وجہ سے heal کیا‘ نیگیٹو سوچ کے باعث آپ کی ہلاکت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ انسانی جسم 50 ٹریلین خلیوں پر مشتمل ہے۔ دماغ ان 50 ٹریلین خلیوں پہ حکمران ہے۔ دماغ میں سوچ بدلنے کے ساتھ جسمانی خلیوں کی بائیولوجی بدل جاتی ہے۔ سو جو قوم اپنا طرزِ فکر بدل لے وہ اپنی بائیولوجی بدل سکتی ہے۔ فرد ہو، ادارہ یا قوم اگر اس کی پروگرامنگ کامل یقین اور مضبوط عقائد پہ استوار کی جائے تو ایسا فرد، ادارہ یا قوم طاقت ور بن جائے گی۔
وال ایک ہی ہے۔ کیا ٹرانسپیرنسی کے دیوانے چوری کے محلات میں رہنے والوں کا دفاع کرنے سے پہلے مُنّو بھائی کی طرح کامل یقین کے ساتھ صرف اتنا پوچھ سکتے ہیں: 
وی (20) کنالاں دی کوٹھی وچ، پنچ (5) پجارو، چالی (40) کُتّے 
پنجی (25) نوکر، دس (10) کنیزاں کتھوں آئیاں؟
کتھے لگیاں ایہہ ٹکسالاں؟
دیس پرائے بنیاں جہیڑیاں 
اُوہ جیداداں، کتھوں آئیاں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں