"SBA" (space) message & send to 7575

نظامِ سرمایہ داری کی ڈوبتی ناؤ

یہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے۔ پاکستان کے بڑے شاپنگ مال کے سائز جتنا Guns Store‘ جس کے باہر خریداروں کی لمبی لائن بنی ہوئی ہے۔ اندر ہر طرح کا آتش و آہن انتہائی دیدہ زیب اور دل پذیر انداز میں ڈسپلے پر لگا ہے۔
قاتل گولیاں پھول کی طرز پر سجی ہیں۔ مرکزِ اسلحہ فروشی کے باہر خریداروں کے ہجوم سے ہاتھ میں مائیک پکڑے ایک ٹی وی رپورٹر مخاطب ہے۔ ایک ہی سوال بہت سے خواتین و حضرات سے پوچھا جا رہا ہے۔ آپ گَن کیوں خریدنے آئے ہیں؟ حیران کُن طور پر سب خریداروں کا جواب ایک ہی ہے۔ کہتے ہیں: ہمارے Poor Neighbourhood میں خطرہ پل رہا ہے۔ کورونا وائرس پھیلنے کے نتیجے میں بے روزگاری اور بھوک بڑھے گی۔ غریب لوگ ہمارے گھروں، خاندانوں، گاڑیوں اور جائیدادوں پر قبضے کے لیے اُٹھ دوڑیں گے۔ اس لیے اسلحے کی یہ خریداری ''سیلف ڈیفنس‘‘ کے لیے ہے۔ 
امریکہ کرّہ اَرض کی واحد سُپر پاور، عظیم عالمی طاقت اور فلاحی ریاست ہے‘ لیکن اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ وہاں رائج جمہوری نظام کی بنیاد مارکیٹ اِکانومی Laissez-Faire یعنی سرمایہ دارانہ نظام پر رکھی گئی جس کا سیدھا مطلب ہے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم۔ سرمایہ کاروں کو سرمایہ کمانے کی کھلی چھٹی جبکہ بے وسیلہ آبادی کے لیے غربت کے جزیرے، کارڈ ہائوسِز اور سلَم ڈاگ رہائش والی بستیاں۔
COVID-19 کی وباء المعروف کورونا کے بطن سے دنیا کے دستیاب وسائل کی غیر مساویانہ بندر بانٹ کی بحث اُبھر کر سامنے آ رہی ہے جس پر سب سے بڑی گلوبل آواز وزیرِ اعظم عمران خان نے بلند کی۔ عمران خان صاحب کا مخاطب نہ صرف بین الاقوامی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف ہے بلکہ ورلڈ بینک، اے ڈی بی سمیت دوسرے ڈونرز بھی ہیں۔ وہی عالمی ساہوکار جو غریب ملکوں کو قرض دے کر برس ہا برس تک ان کی کھال کھینچتے رہتے ہیں۔ اس طرح ہر مقروض معیشت کا لہو سُود خور اداروں اور انٹرنیشنل بنیوں کے چہرے کی سُرخی اور غازہ بن جاتا ہے۔ جب کہ قرض‘ جسے Debt-Trap کہتے ہیں‘ کے لیے عوام کا ہر سالانہ بجٹ دراصل قرضوں کی واپسی کا تخمینہ اور شیڈول بن کر رہ جاتا ہے۔ جو اشرافیہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ کر قرض وصولی کرتی ہے وہ اپنی سہولت کے مطابق سخت وقت دیکھ کر ملک سے باہر بھاگ جانے کی ماہر ہوتی ہے۔ دوسری جانب عام آدمی کے پاس نہ تو بھاگنے کا آپشن موجود ہوتا ہے‘ نہ ہی سات سمندر پار اور دُور درازکے ملکوں میں کوئی پناہ گاہ، اقامہ یا بے نامی اکائونٹس۔ اسی لیے قرض، مقروض ملکوں اور قوموں کے لیے Debt-Trap سے Death-Trap میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ بقولِ شاعر
قرض کی پیتے تھے مے، لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
وزیرِ اعظم سے بین الاقوامی قرضے معاف کروانے کے موضوع پر تازہ ملاقات میں تفصیل سے بات ہوئی۔ عمران خان صاحب کا کہنا تھا کہ وہ Debt-Trap میں پھنسے ہوئے دوسرے ممالک کے لیڈروں سے بھی بات کر رہے ہیں تاکہ بین الاقوامی ڈونرز کو 3 امور کا احساس دلایا جا سکے۔
پہلا: یہ کہ ساری دنیا کی سٹاک مارکیٹیں کورونا بحران میں کریش کر رہی ہیں۔ بڑے ممالک بھی اس صورتِ حال سے بڑی معاشی پریشانیوں میں پھنس گئے ہیں۔ لندن، برسٹل اور دوسرے مغربی شہروں میں شہری لاک ڈائون کی وجہ سے پائونڈ سٹرلنگ ہاتھوں میں پکڑے ڈبل روٹیاں اور انڈے ڈھونڈنے میں خوار ہو رہے ہیں۔ Tissue Paper Crisis مذاق سے زیادہ سینیٹیشن کی دنیا کا ہولناک واقعہ ہے۔
دوسرا: 1930 کی طرز پر عالمی سرمایہ دارانہ مارکیٹ اور غریب ملکوں کی معیشت گلوبل کساد بازاری (Great Depression) کی طرف دوڑ رہی ہے‘ سوائے چین کے جہاں سوسائٹی نے اپنی حکومت سے 100 فیصد تعاون کیا۔ وہاں سوشلسٹ معیشت بھی ہے۔ ان دونوں فیکٹرز کو ملا کر چین میں ہر طرح کا اعتماد بحال ہو چکا ہے۔ باقی دنیا کا برا حال ہے‘ نائجیریا سے لے کر ایران تک۔ نائیجیرین فوج کے سربراہ آئسولیشن اختیار کر چکے ہیں۔ جبکہ ایرانی صدر نے پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کو خط لکھا ہے جس میں ان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ایران پر سے معاشی اور دوسری پابندیاں اٹھوانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے عمران خان کی ہدایت پر ایران کی یہ اپیل بین الاقوامی اداروں تک پہنچا دی ہے۔ 
تیسرا: بین الاقوامی ٹریولنگ پر پابندیوں کی وجہ سے عالمی معیشت کا تصور بھی بری طرح مجروح ہوا‘ جس کی ریکوری کا کوئی شارٹ ٹرم راستہ موجود نہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے ہر ملک اور ریجن، آپا دھاپی کا شکار ہو رہا ہے۔ بین الاقوامی ساہوکار خود پریشان ہیں۔ ان کے پروردہ بینک مخمصے کا شکار اور لوگ پریشانی میں مبتلا ہیں۔ 
کورونا کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ لندن، روم سے شروع کر کے ساری مغربی دنیا میں افواج طلب کر لی گئی ہیں ۔ اس سے پہلے تاریخ میں سویلین ایڈمنسٹریشن کی امداد کے لیے اتنے بڑے فوجی آپریشن شہروں میں کبھی نہیں ہوئے‘ ماسوائے جنگ زدہ یا آفت زدہ شہروں میں۔ نارتھ کوریا بحیثیت ملک پہلے سے ہی مکمل لاک اَپ اور عالمی، سماجی اور معاشی بائیکاٹ کی زَد میں تھا‘ اس لیے وہاں کورونا کے صرف 6 کیس رپورٹ ہوئے۔ مغرب کے پروردہ میڈیا نے کہا کہ 6 کے 6 مریضوں کو گولی مار دی گئی۔ سوشلسٹ جمہوریہ کا کہنا ہے کہ مریض کورونا وائرس سے بچا لیے گئے اور وہ صحت یاب ہو گئے۔
کورونا وائرس نے کئی اعتبار سے عالمِ انسانیت کو آنکھیں کھولنے کی کال دی ہے۔ اس بابت سب سے تلخ حقیقت یہ ہے کہ وباء بلا تفریقِ رنگ و نسل، مذہب، علاقے اور سرحد کی تمیز کے بغیر سب تک پہنچ سکتی ہے۔ اس لیے عالمی ادارۂ صحت صرف احتیاطی فائر (Warning Shots) کرنے کے بجائے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑے۔ عالمی ادارۂ صحت پورے عالمِ انسانیت کے لیے صحت اور صفائی کے یکساں معیار پر مبنی سہولیات یقینی بنائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے امیر کبیر اور ترقی یافتہ ملکوں کا کنسورشیم بنایا جائے۔ ایک یونیورسل فنڈ کھڑا کیا جائے تاکہ جہاں سے وباء کی آفت سر اٹھائے اس کو اُسی سورس پر فوری طور سے قابو میں لے کر ختم کیا جا سکے۔
عالمی لیڈروں اور خاص طور پہ مغرب میں نظامِ سرمایہ داری کے عَلم بردار رہنمائوں کو سمجھنا ہو گا کہ کوئی بھی سوسائٹی اور ملک آئسولیشن اور ٹینٹ میں زندگی نہیں گزار سکتے۔ گلوبل گائوں کے سارے باسی قدرتی بلائوں کی زَد میں آتے رہیں گے۔ کرۂ اَرض پر دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف فطرت نے کوڑا پکڑ لیا ہے۔ کورونا کے برستے دُرّوں کے سامنے صرف لاک اَپ، کرفیو اور ٹریول بین مستقبل کے موثر ہتھیار نہیں۔ اصل راستہ غربت اور امارت کے جزیروں میں یکساں معاشی انصاف ہے۔ صرف اس راہ پر چل کر ہی ساری دنیا میں کورونا ایسی وبائوں کے خلاف استعداد (Capacity) کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ نظامِ سرمایہ داری کی ڈوبتی نائو کو بچانے کی تدبیریں اس دنیا میں کام نہیں آ سکتیں، جس کے باسیوں کے پاس گَنوانے کے لیے جانِ عزیز کے علاوہ کچھ نہیں۔
پسِ نوشت: مے فیئر سے چلنے والے رات کے راہی کا طیارہ لینڈ کر گیا۔ جب یہ ہوائی جہاز پاکستانی ایئر سپیس میں داخل ہوا، اُسے کولمبو سے کراچی لینڈ کرنے کی کوشش والی جنرل مشرف کی فلائٹ ضرور یاد آئی ہو گی۔ لفافیات کے موجد اور ٹی ٹیات کے بانی میں 22 کروڑ کے استقبالی ہجوم کو ''جبراً‘‘ ایئر پورٹ نہ آنے دیا۔ وہی ایئر پورٹ جہاں پہنچنے کے لیے اس کی اپنی ریلی راستہ بھول گئی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں