"SBA" (space) message & send to 7575

ملنا چاہا تو بچھڑنے کی وبا پھوٹ پڑی

کورونا وائرس نے دنیا کے آداب‘ اخلاق‘ترتیب ‘ عادات‘ سوچ اور رہن سہن چند ہفتوں میں تلپٹ کرکے رکھ دیا۔ مختلف سوچ‘تفکیر اور جینے کی تدبیر کرنے والوں نے اسے اپنے اپنے انداز میں لیا ۔
ناصح اور شیخ سمجھتے ہیں قمار خانے‘پَب‘کلب‘خُمار خانے بند کروا کے کورونا نے تبلیغ اور اصلاحِ معاشرہ کا کام آسان کر دیا۔ رِند اور بادہ خوار خوش ہیں کہ دَیرو حرم ‘معبد خانے‘ آتش کدے میں اینٹریاں بین ہوگئیں۔ 
اس لیے ضروری نہیں‘ جو دکھائی دے رہا ہو پسِ پردہ بھی وہی منظرنامہ چلے۔
شیوخِ شہر کو تم دیکھ کر پلٹ آئے
کسی سے پوچھ تو لیتے وہ میکدہ تو نہیں 
کچھ عجائباتِ عالم پرانے ہوئے‘ سو متروک ٹھہرے۔ کورونا ثقافت نے نئی تہذیب کے گندے انڈوں کو اٹھا کر گلی میں پھینک دیا ۔ ننگ دھڑنگ بے لباس کر کے۔ آسان مثال ملاحظہ فرمانا چاہیں تو قریبی فارمیسی پر چلے جائیں‘ 25 روپے والا نقاب المعروف Face Mask ‘525 میں بھی دستیاب نہیں۔ امریکہ کے بزنس مین پریزیڈنٹ جنابِ ڈونلڈ نے دوائیوں کی دنیا میں' ٹرمپ‘ کا ایساپتّہ مارا کہ ہر کوئی کلوروکوئین کے پیچھے بھاگ نکلا۔ جو کوئی بھاگتے بھاگتے عطّار کے لونڈوں سے دوا لینے پہنچتا ہے ‘ اسے لگ پتہ جاتا ہے کلورو کس بھائو بک رہا ہے اور کوئین کا ریٹ کیا ہے۔ اگر ہم کلوروکوئین کو جنِرک میڈیکل نام دینے کی بجائے اردو کے ادبی نام ''رضیہ‘‘ سے پکاریں تو یہ حقیقت کھلے گی‘ کلوروکوئین کی رضیہ کو ذخیرہ اندوزی کے غنڈوں نے گھیر لیا ہے۔ گھیرنے سے یاد آیا سندھ کے وزیرِاعلیٰ نے علی با با کو بھی گھیر لیا۔ وہ بھی کورونا کے نام پہ۔ 
COVID-19 معلوم نہیں؛ البتہ کورونا اور وائرس لفظی طور پر تذکیر و تانیث کی گڑبڑ لگتے ہیں۔ وہی گڑبڑ جو وزیرِ اعلیٰ نے علی بابا کے نام پر کی۔ یہ علی با با 40 چوروں والا نہیں بلکہ چین کے آئیکون بزنس مین جیک ما کی مشہورِ عالم کمپنی ہے۔ جیک ما کی جے ایم فائونڈیشن نے پاکستانیوں سے حقِ دوستی نبھانے کے لیے فیس ماسک اور دوائوں کی بڑی شپمنٹ بھجوائیں۔اس بارے میں چین کی ایمبیسی نے باقائدہ ٹوئٹ کیا‘ بلکہ چینی وزارتِ خارجہ نے بھی‘مگر وزیراعلیٰ سندھ نے بیان دے مارا کہ یہ سب میں نے منگوایا ہے ‘سندھ ہی نہیں پورے پاکستان میں خیرات کروں گا۔ دوسری جانب سابق خادمِ اعلیٰ کودیکھیں جنہوں نے اپنے گھر میں بیٹھے بیٹھے قومی میٹنگ سے واک آئوٹ کردیا۔ یہ مسخرہ پن چلتا رہے گا‘ آئیے بِل گیٹس کا تازہ خط پڑھیں۔ کہتے ہیں:
مجھے پختہ یقین ہے کہ ہر واقعے کے پیچھے کوئی روحانی مقصد ہوتاہے۔ چاہے ہم اُس مقصد کو اچھا سمجھیں یا بُرا۔ جب تک میں اس کا مراقبہ کرتا ہوں‘آپ میں یہ بات بانٹنا چاہتا ہوں کہ کورونا وائرس ہمارے ساتھ درحقیقت کر کیارہا ہے:
1:یہ یاد دہانی کروا رہا ہے کہ ہم سب برابر ہیں۔ ہماری ثقافت‘مذہب‘ پیشہ ‘مالی حالت یا ہم کتنے مشہور ہیں اس بات سے قطع نظر یہ بیماری سب سے برابری کا سلوک رکھتی ہے۔ ہمیں بھی ایسا ہی کرنا ہوگا۔ اگر میری بات پہ یقین نہیں تو ٹام ہینکس سے پوچھ لیجئے۔
2:یہ یاد دہانی کروا رہا ہے کہ ہم سب جڑے ہوئے ہیں ۔ ایک شخص پر کوئی شے اثر انداز ہوتی ہے تو اس کا اثر دوسرے تک بھی جاتا ہے۔ اس نے ہمیں یاد دلایا کہ جو فرضی سرحدیں ہم نے بنا رکھی ہیں وائرس کے سامنے ان کی کوئی اوقات نہیں‘ کیوں کہ اس وائرس کوپاسپورٹ اور ویزا نہیں چاہیے۔
3 :یہ ہمیں یاد دلا رہا ہے کہ ہماری صحت کتنی قیمتی ہے ۔ کس طرح ہم نے ناقص غذائیت کے ساتھ تیار کردہ غذا کھا کھا کر‘ کیمیکل والا پانی پی کر صحت سے غفلت برتی ہے۔ 
4 :وائرس یاد دہانی کروا رہا ہے کہ زندگی کتنی چھوٹی ہے اور ہمارے لیے سب سے ضروری کیا ہے؟ سب سے ضروری ایک دوسرے کی مدد کرناہے۔ خاص طور سے ان لوگوں کی جو بوڑھے یا بیمار ہیں۔ ہمارا مقصد ٹشو پیپر خریدنا نہیں۔ 
5:یہ ہمیں اس بات کی یاد دہانی کروا رہا ہے کہ ہم کتنے مطلب پرست ہیں۔ کس طرح مشکل کے وقت میں ہمیں اشیائے ضروریہ جیسے کہ کھانا‘پانی اور ادویات کی طلب ہوتی ہے بجائے ان آسائشوں کے جنہیں ہم بلا ضرورت اہمیت دیتے ہیں۔
6 :وائرس کہتا ہے ہماری خاندانی اور گھریلو زندگی کتنی اہم ہے اور ہم کتنی غفلت برتتے ہیں۔وائرس نے ہمیں گھرواپس بھیجاتا کہ ہم اپنی خاندانی اکائی کو مزید مضبوط کر سکیں۔
7:وائرس کہتا ہے کہ ہمارااصل کام نوکری نہیں ۔ہم صرف نوکری کے لیے نہیں بنائے گئے۔زندگی کا مقصد ایک دوسرے کی دیکھ بھال ‘ حفاظت کرنا‘ اور کام آنا ہے۔
8 :یہ یاد دلاتا ہے کہ اپنی انا کو قابو میں رکھیں۔ ہم اپنے آ پ کوکتنا عظیم سمجھ لیں یا دوسرے بھی عظیم سمجھیں‘ مگر ایک وائرس اس دنیا کوڈھیر کر سکتا ہے۔ 
9:وائرس نے بتایا کہ اصل خود مختاری ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہم انتخاب کر سکتے ہیں کہ ایک دوسرے سے تعاون کریں‘ مدد کریں اورایک دوسرے کو سہارا دیں۔ یا خود غرض ہو جائیں‘ ذخیرہ اندوزی کریں‘ صرف اپنے بارے میں سوچیں۔ بے شک‘ ہماری اصل شکل مشکلات میں ہی پہچانی جاتی ہیں۔ 
10 :وائرس کہتا ہے کہ ہم صبر کریںیا گھبراجائیں۔ہم یہ تو سمجھتے ہیں کہ ایسی صور ت ِحال دنیا میں پہلے بھی کئی بار پیدا ہو چکی ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی گزر جائے گی۔ اگر پریشان ہوکردنیا کا خاتمہ سوچیں تو فائدے سے زیادہ نقصان کرلیں گے۔
11 :یہ ہمیں اس بات کی یاد دہانی کروا رہا ہے کہ یہ مشکل یا تو خاتمہ ہے یا ایک نئی شروعات ہے۔ یہ سوچنے اور سمجھنے کا وقت ہو سکتا ہے اورہم اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ یا پھر یہ ایک ایسے دور کا آغاز ہے جو تب تک جاری رہے گا جب تک ہم اپنا سبق نہ سیکھ لیں۔
12: وائرس بتاتا ہے کہ ہماری دھرتی بیمار ہے۔ یہ ہمیں یاد دلا رہا ہے کہ ہمیں درختوں کی کٹائی کے ریٹ پر ‘ٹائلِٹ پیپر کے غائب ہونے سے زیادہ فکر کرنی چاہیے۔ہماری زمین بیمار ہے تو ہم بیمار ہیں۔ 
13: وائرس کا سبق ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔یہ ایک سائیکل ہے۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں کیوں کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔
14: جہاں بہت سے لوگ کورونا وائرس کو تباہ کُن سمجھتے ہیں‘وہاں میں اسے اصلاح کُن سمجھتا ہوں۔یہ اس لیے بھیجا گیا ہے کہ ہمیں زندگی کے ضروری سبق کی یاد دیانی کروا کرسکے‘ جو ہم بھول گئے ہیں اور اب بھی اس بات کا دارو مدار ہم پر ہے کہ ہم اس سے سبق لیتے ہیں یا نہیں۔شاید ہمیں کوئی بھولا ہوا ضروری سبق یاد آجائی ‘‘۔ـ
بلائوں اور وبائوں کے ہنگام میں اللہ اور رسولﷺکے بعد بچھڑنے والے پیارے یاد آتے ہیں۔
میں وہ محرومِ عنایت ہوں کہ جس نے تجھ سے
ملنا چاہا تو بچھڑنے کی وبا پھوٹ پڑی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں