امپورٹڈ، رجیم چینج کی بنیاد کو تلاش کرنے کے لیے ہمیں ایک بار پھر گزرے ہوئے سال میں واپس جانا ہوگا تاکہ جھوٹ، بزدلی اور فیک نیوز کی کالی آندھی کے پیچھے چھپے ہوئے وہ واقعات تلاش کیے جا سکیں جن کی بنیاد پر ہم Witness to Surrender یا پھر Absolutely Not کے مرحلے تک آن پہنچے تھے۔ اس کے لیے ہمیں کسی کھوجی کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہیں بلکہ ''دستاویزی کُھرے‘‘ ہمیں از خود سچ تک پہنچانے کے لیے موجود ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ سچ تک پہنچے بغیر حق کو نہیں پہچانا جاسکتا۔ اس وقت جو غیرعلانیہ سنسرشپ بڑے پیمانے پر چل رہی ہے اُس میں بھی سچ اور حق کے روشن چراغ دیکھے جا سکتے ہیں۔
آج کا پیش منظر یہ ہے کہ پی ڈی ایم اور اس کے پروموٹرز اور سہولت کار الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھ کر کہتے ہیںکہ امریکہ نے سرے سے فوجی ہوائی اڈے مانگے ہی نہیں۔ اُن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ عمران خان نے موشن آف نو کانفیڈنس اسمبلی فلور پر آنے کے بعد دوعدد کہانیاں خودگھڑ لی ہیںجن میں سے پہلی کہانی یو ایس اے کی جانب سے پاکستان کے فوجی ہوائی اڈے مغربی پڑوسی پر حملے جاری رکھنے کے لیے مانگنے کی ہے جبکہ دوسری کہانی عمران خان کا اپنا تیار کردہ Letter Gate سکینڈل ہے۔ 'امپورٹڈ‘ حکومت کے چیف ایگزیکٹو کا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئی خط باہر سے (ماسوائے دوعدد قطری خطوط کے) کبھی آیا ہی نہیں۔ لیٹر گیٹ کی یہ سازش پی ٹی آئی گورنمنٹ نے خود تیار کی تاکہ گرتی ہوئی حکومت کو بچایا جا سکے۔
یہ دونوں دعوے کتنے سچے ہیں؟ اس بیانیہ میں کتنی جان ہے؟ ان دونوں سوالوں کے جواب پی ڈی ایم کے دونوں دعوے، رپورٹ شدہ واقعات کی کسوٹی پر پرکھے بغیر نہیں دیے جا سکتے؛ چنانچہ اس Litmus Test کی طرف جانے سے پہلے ایک lego-constitutional ٹیسٹ دیکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ 2016ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے مصطفی امپیکس کیس میں ریاستِ پاکستان کا ایگزیکٹو سسٹم چلانے کے لیے گورنمنٹ آف پاکستان کی تشریح کر رکھی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے آئین کے آرٹیکل 90 اور 91 کو interpret کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ وفاقی حکومت کا مطلب Cabinet of Ministers اور پرائم منسٹر ہے۔
موجودہ حکومت 11 اپریل کو قوم پر نازل کی گئی۔ یہ سطریں لکھتے وقت اس حکومت کا ساتواں/ آٹھواں دن ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں وزیر اعظم نے اب تک جو اکیلے فیصلے کیے وہ سارے غیر آئینی ہیں۔ آپ یہ جملے ریکارڈ پر رکھ لیجئے، اس حکومت کے آٹھ دنوںکے فیصلوں کی طرف بعد میں آئیں گے۔ آئیے دیکھتے ہیں، سچ کہاں لکھا ہوا ہے اور حق نوشتہ کس جگہ پہ؟
اولین سچائی: ذرا آرکائیو کھول لیجئے، تاریخ ہے 6جون 2021ء اور امریکہ بہادر کا اخبار ہے نیو یارک ٹائمز، دن سوموار کا، شہر واشنگٹن۔ نیو یارک ٹائمز رپورٹ کرتا ہے کہ امریکہ خطے (جنوب مشرقی ایشیا) میں فوجی اڈے حاصل کرنے کے لیے پاکستان پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ اس کے باوجود بھی کچھ امریکی حکام کا خیال ہے کہ اس وقت پاک یو ایس اڈا مذاکرات impasse کی حد کو پہنچ چکے ہیں۔
تصدیقی سچائی: نیو یارک ٹائمز کی اسی رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ یو ایس ایڈمنسٹریشن کے کچھ ذمہ دار حکام نے اخبار کو تصدیق کی ہے کہ اڈے حاصل کرنے کا آپشن اب بھی میز پر موجود ہے اور اس مقصد کے لیے ایک معاہدہ ہونا ممکن ہے۔
انکشافی سچ: NYT کے مطابق یو ایس سپائی ماسٹر CIA کے ڈائریکٹر William J. Burns نے حال ہی میں پاکستان کے ذمہ دار حکام کے ساتھ ملاقاتیں کرنے کے لیے اسلام آباد کا غیر علانیہ دورہ کیا۔ اس دورے سے پہلے امریکی وزیرِ دفاع Lloyd J. Austin نے بھی انہی حکام سے افغانستان کی سرزمین پر مستقبل میں امریکی کارروائیوں کے لیے پاکستان کی مدد حاصل کرنے کے بارے میں اکثر ٹیلی فون کر کے گفتگو کی ہے۔
براہِ راست سچائی: New York Times کو واشنگٹن کا ترجمان سمجھا جاتا ہے۔ 6جون 2021ء کو چھپنے والی اس رپورٹ کو کبھی یو ایس ایڈمنسٹریشن نے غلط نہیں کہا۔ اس رپورٹ کا ایک حصہ یہ ہے ''مسٹر آسٹن کی کچھ بات چیت زیادہ براہِ راست رہی‘‘۔
اب آئیے ایک بہت بڑے‘ تاریخی ٹوئسٹ کی جانب جو پی ٹی آئی کی حکومت میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں آیا۔ اس Foreign Policy Paradigm Shift کا انکشاف کسی پاکستانی میڈیا ہائوس نے نہیں کیا بلکہ نیو یارک ٹائمز نے یہ حقائق یو ایس ایڈمنسٹریشن کے بڑوں کے منہ سے براہِ راست سن کر واشنگٹن سے براہِ راست رپورٹ کر دیے۔ ذرا ذہن میں رکھیے گا کہ عمران خان نے 19 جون 2021ء کو امریکہ کو اڈے دینے کے سوال پر کھلے لفظوں میں دنیا کے سامنے کہا تھا: Absolutely Not جبکہ نیو یارک ٹائمز کی یہ رپورٹ اس سے 14 دن پہلے چھپ چکی تھی۔ New York Times پاکستان کی خود مختار اور اینٹی وار فارن پالیسی شفٹ کا کئی حصوں اور حوالوں سے اعتراف کرتا ہے۔
امریکہ کا پہلا اعتراف: امریکہ کو اڈے پیش کرنے میں پاکستانی حکومت کی ہچکچاہٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں ''اسلام آباد میں موجود حالیہ حکومت کا طالبان کے خلاف کسی ایسے امریکی حملے پر دستخط کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے جو پاکستان میں موجود کسی بھی اڈے سے Launch کیے گئے ہوں‘‘۔
امریکہ کا دوسرا اعتراف: یو ایس ایڈمنسٹریشن کے کچھ بڑوں کی رائے کو ان لفظوں میں بیان کیا گیا ''ملک میں رائے عامہ (Public Opinion) پاکستان کے اندر امریکہ کی کسی بھی طرح کی نئی موجودگی کے خلاف ہے اور اس پہ بہت ہی سخت موقف رکھتی ہے‘‘۔
امریکہ کا تیسرا اعتراف: عمران خان حکومت کے وزیر خارجہ کی فارن پالیسی سٹیٹمنٹ پر یو ایس ایڈمنسٹریشن کو سخت تشویش ہوئی جو پارلیمنٹ میں حکومتی موقف کی صورت میں بیان کی گئی۔ نیو یارک ٹائمز نے اسے ان لفظوں میں رپورٹ کر رکھا ہے ''پی ایم عمران خان جب تک اقتدار میں موجود ہیں وہ کسی بھی امریکی اڈے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے‘‘۔
امریکہ کا چوتھا اعتراف: اس رپورٹ میں خاص طور سے نوٹ کیا گیا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے ''پبلک ہوکر یہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے کہ وہ سی آئی ا ے کو پڑوسی ملک میں کارروائیوں کی اجازت دے رہی ہے‘‘۔
ان چشم کشا حقائق پر مبنی اس امریکی پریس رپورٹ میں پاکستان کی نئی فارن پالیسی کا بنیادی نکتہ یوں بیان کیا گیا ہے ''Pakistan's government will want to proceed cautiously‘‘۔
اس تناظر کا اگلا جائز سوال یہ ہے کہ کیا NYT کی رپورٹ پاکستان میں خفیہ ہے یا یہ پبلک ہو چکی ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ سوال تو لازماً بنتا ہے کہ سچا کون ہے اور جھوٹا سودا بیچنے پر اصرار کس کو؟ اس پر فیصلہ قوم دے چکی، اپنے اجتماعی شعور کے اظہار کے ذریعے عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوکر‘ سازشوں کے اس امپورٹڈ نگر میں عمران کا قصور صرف اتنا ہے:
یہی کہا تھا میری آنکھ دیکھ سکتی ہے
کہ مجھ پہ ٹوٹ پڑا سارا شہرِ نابینا
آئیے سازش کی اگلی کڑی دیکھیں، پھر مداخلت دیکھ لیں گے۔ (جاری)