تاریخ اپنے آپ کو کبھی نہیں چھپاتی۔ ہاں البتہ ہم اُسے ''مٹی پائو‘‘ پالیسی کے نیچے دباتے آئے ہیں۔ Human History گلیمر سے بھرپور کوئی فکشن فلم نہیں‘ اس لیے ضروری ہے کہ تاریخ کو واقعات (events) سمجھ کر دیکھا‘ لکھا اور پڑھا جائے۔ تاریخ نویسی اصل میں سچائی کی گواہی ہے۔ رانا سعید دوشی نے ایسی بے لاگ گواہی کا خوفناک انجام بیان کیا۔ باقی بعد میں‘ پہلے اُن کے دو معرکہ آرا شعر پڑھ لیں؎
میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر
گواہی دی تو عدالت میں مارا جائوں گا
میرا یہ خون میرے دشمنوں کے سر ہو گا
میں دوستوں کی حراست میں مارا جائوں گا
1947ء کے بعد پاکستان کی تاریخ تین جگہ ڈھونڈی جا سکتی ہے۔ پہلے انصاف کے ایوانوں میں‘ دوسرے اقتدار کی غلام گردشوں میں اور اس کا تیسرا میدان سازش اور مداخلت کے واقعات ہیں۔ آپ اسے واقعہ کہیے یا تیرہ بختی‘ میری عملی زندگی کے چار سے زیادہ عشرے اسی دشت کی سیاحی میں گزرے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے کئی ایک معروف وکیل‘ ریٹائرڈ چیف جسٹس‘ سیاست کار اور قلم کار مجھے ہمیشہ کتاب لکھنے کا مشورہ دیتے آئے ہیں‘ بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ مہرباں‘ نامہرباں بہت سارے۔ مہربانوں میں سے خورشید ندیم‘ رئوف کلاسرا‘ آصف محمود‘ فرخ سہیل گوئندی‘ ارشاد عارف‘ بریگیڈیئر باسط شجاع اور بہت سے دوسرے۔ مگر شاید پورا سچ لکھنے اور سننے کی سٹیج ہمارے سماج میں ابھی نہیں آئی۔
سلسلہ وار Imported, Yet Again لکھنے کی تحریک یو ایس اے میں پاکستانی سفارت خانے میں سے موصول ہونے والے cipher سے ملی۔ میں نے سوچا جو سچ قابلِ برداشت ہے‘ اُسے تو سامنے لایا جائے۔ ایسے ہی دو واقعات‘ جن کے گواہ دو ٹی وی شو کرنے والے معتبر اینکرز ہیں‘ بیان کردیئے جائیں۔
پہلا واقعہ: یہ 2021ء کی عیدالفطر کے بعد کے دن ہیں۔ کراچی کے معروف اینکر جلد ملنے کا اصرار کرکے اسلام آباد تشریف لائے۔ جناح ایونیو کے مغربی حصے میں شہرِ اقتدار کے سب سے بڑے شاپنگ مال کے سامنے سیکٹر F-8/4 میں لاء آفس میں ملاقات ہوئی۔ ملاقاتی کی Adrenaline نکتہ عروج پہ تھی۔ دھمکی کی حد تک پُرجوش لہجہ۔ کہنے لگے: آپ کس طرف کھڑے ہیں؟ میں نے عرض کیا: آپ کے بالکل سامنے۔ پوچھنے لگے: نہیں سیاسی طور پر آپ کا مستقبل کہاں کھڑا ہے؟ پھر وہ بولتے ہی چلے گئے۔ اُن کی 35‘ 40 منٹ کی گفتگو کا لبِ لباب میرے لیے ایک دلکش پیکیج والا Gift Hamper تھا۔ انہوں نے عمران خان کے اقتدار سے گھر جانے کا فیصلہ سنایا‘ پھر مجھے سیاسی مستقبل بچانے کا نسخہ کیمیا بتلایا۔ جب میرے جوابات سے مایوس ہوئے تو کسی اہم میٹنگ کا کہہ کر چائے پیئے بغیر اُٹھ گئے۔ شام تک لائن بھی کٹ گئی۔ اُن کے لمبے چوڑے ٹیکسٹ میسجز کی بھرمار‘ درجۂ عدم برداشت کراس کرتی چلی گئی‘ اس لیے مجھ مجبورِ محض کو فون نمبر بلاک کرنا پڑگیا۔
دوسرا واقعہ: مارچ 2022ء کے دوسرے ہفتے کا ہے‘ جس کا ذکر میں نے صرف دو افراد سے کیا۔ پہلی شخصیت غیرسیاسی ہے‘ جس کا اشارہ دینا بھی مناسب نہیں۔ دوسرے کراچی ہی کے ایک نوجوان اینکر ہیں جو پی ایم عمران خان کے پاس سائیفر کا بچشمِ خود ملاحظہ کرنے کیلئے آنے والے صحافیوں میں سے ایک تھے۔ پی ایم عمران خان نے سائیفر کے ایک حصے کی وضاحت کیلئے مجھے بھی بولنے کو کہا۔ میٹنگ ختم ہوئی۔ میں پی ایم ہائوس کی بیرونی راہداری سے گاڑی پکڑنے کیلئے Main Porch کی طرف گیا تو اُن سے ملاقات ہوگئی۔ میری آفر پر وہ میری ہی گاڑی میں ساتھ بیٹھ گئے۔ اُس سے دودن پہلے میرے اسمبلی کے Ministerial چیمبر میں میرے خلاف ہونے والی واردات میں نے اُن سے شیئر کردی۔ اُنہیں تشویش اور حیرانی بھی ہوئی‘ پوچھا: آپ نے پی ایم کو بتایا؟ میرا جواب تھا: جی نہیں‘ میں panic کی لہر نہیں پھیلانا چاہتا۔ پڑھے لکھے‘ بھلے مانس بولے: جب یہ واقعہ quote کرنے کا موقع آیا توپہلے آپ سے پوچھ کر اس پر پھر بولوں گا۔ میں نے اس professionalism پر اُن کا شکریہ ادا کیا۔ اسی طرح ماضی قریب کا ایک واقعہ‘ رئوف کلاسرا کی کتا ب''قتل جو نہ ہو سکا‘‘ کی بنیاد بنا‘ جس میں بڑی مہارت سے دی گئی سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر موسٹ جج جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کی زیرِ قیادت‘ اُس وقت کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل جوڈیشل کمیشن کی فائنڈنگ ہے۔
ذکر ہورہا تھا Agartala Conspiracy Case کا۔ اس سازش کا آغاز نارتھ ایسٹرن انڈین ریاست تریپورہ سے ہوا جس کے معروف شہر اگرتلہ میں شیخ مجیب الرحمن اور ایک ایجوکیٹر محمد علی رضا بنگلہ دیش بنانے کیلئے انڈین سپورٹ لینے گئے تھے۔ سازش کی اطلاعات پر سال 1967ء میں 1500بنگالی ملزمان گرفتار ہوئے جس کے نتیجے میں جنوری 1968ء میں آٹھ لوگوں کر گرفتار کیا گیا‘ جن کے ریمانڈ کے دوران شیخ مجیب الرحمن کا کردار بے نقاب ہوا‘ جسے 9 مئی 1968ء کے روز گرفتار کرلیا گیا۔ 100پیراگراف پر مشتمل فردِ جرم سازش کے ملزموں پر لگی۔ 227 گواہوں میں سات سلطانی گواہ بھی شامل تھے۔ اس خوفناک سازش کو بہت lightly لیا گیا‘ جس کے نتیجے میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا این آر او جاری ہوا۔ 22 فروری 1969ء کے دن حکومتِ وقت نے اگرتلہ سازش کیس واپس لے لیا اور ملک توڑنے والے غدار رہا ہوکر ایوانِ اقتدار کی طرف دوڑ پڑے۔ ملک توڑنے والے باقی چہرے اور اُن کے مکروہ کردار کی باقی کہانی آپ کی جانی پہچانی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ بھارت کے اندر سے جس سازش کا آغاز ہوا تھا‘ ایسٹ پاکستان کی سرزمین پر موجود سازش کے سہولت کاروں نے چند سال میں اُسے سقوطِ ڈھاکہ کے تکلیف دہ مرحلے تک پہنچاچھوڑا۔ پاکستان توڑنے کی اس سازش اور مداخلت کاری کا ایک زندہ کردار شوکت علی بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ کا ڈپٹی سپیکر ہے۔ اُس نے ایک پوائنٹ آف آرڈر لیا۔ اگرتلہ سازش کا شریک مجرم اور مداخلت کا آلہ کار بولا ''جو فردِ جرم پڑھ کر سنائی گئی تھی وہ صحیح اور درست تھی‘ ہم نے اگرتلہ میں بیٹھ کر بھارت کی مدد سے Shangram Parishad (action force) بنائی جس کا سنگل پوائنٹ ایجنڈا پاکستان کے مشرقی بازو کو توڑنا تھا‘ جو ہم نے توڑ کر دکھا دیا‘‘۔ یَاحسرتا!
ابھی چند دن پہلے تازہ سازش کی نقاب کشائی کا فائنل رائونڈ امریکہ میں ہوا۔ آخرکار امریکہ کی سابق صدارتی امیدوار اورکانگریس وومن Cynthia McKinney نے پاکستان میں رجیم چینج والی سازش/ مداخلت کی بلی تھیلے سے نکال کر باہر دے ماری۔ 16 اپریل کو کانگریس وومن نے آفیشل ٹویٹ میں یہ اعتراف کیا:
"The US had a big hand in the overthrow of Imran Khan of Pakistan. He refused to condemn Russia, and would not join the sanctions war. In addition he would not let the CIA use his country for their bases, and finally, he was an ardent support of Palestinians as was Cuba,Iran ..."۔ (جاری)