ذکر ہو رہا تھا غلام ہندوستان میں، 89 سالہ اِمپورٹڈ فرنگی راج کا (1858 تا 1947) جس کے دوران ہماری تقدیر کے فیصلے ہندوستان کی مقبوضہ سرزمین پر نہیں بلکہ انگلستان کے غاصبانہ استعماری (colonial) ایوانوں میں ہوتے تھے۔ بند کمروں کے اندر‘ اونچی دیواروں کے پیچھے، جہاں صرف استعمار کی تاریخ لکھنے والے منشی اور درباری رپورٹرز کو رسائی دی جاتی۔ 18ویں صدی میں لندن پلان والے فرنگی ہماری تقدیر کے فیصلے لے کر ہندوستان آنا شروع ہوئے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے تباہ کُن لندن پلان کی تاریخ میں نہ جائیں تو پھر بھی 19ویں صدی کے 4 سے زیادہ عشروں میں لندن پلانز کی پوری سیریز تاریخِ ہند کے صفحات میں محفوظ ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسلامیانِ ہند کو گداز دل مفکّر حضرت علامہ اقبالؒ کی شکل میں دیا۔ علامہ صاحب وکیل تھے، اِس لیے خواب کو تعبیر میں ڈھالنے کا فن اُنہیں آتا تھا۔ مفکّر پاکستان کی مسلسل کاوشوں سے تحریکِ پاکستان کی قیادت حضرتِ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے آہنی حصار میں آگئی‘ جس کا نتیجہ برٹش راج اور ہندو لیڈرشپ کی سازشوں اور گٹھ جوڑ کے باوجود دنیا کے نقشے پر پاکستان کی صورت میں طلوع ہوکر رہا۔ آئیے لندن پلانز میں سے صرف 2 پر نظر ڈال لیں۔
فرنگی راج کا پہلا لندن پلان: تقسیمِ ہند سے 5 سال پہلے یہ مارچ کا مہینہ ہے، اور سال 1942۔ دوسری جنگِ عظیم‘ جو یکم ستمبر 1939 کو شروع ہوئی تھی، میں جرمنی کے فیوہرر ایڈولف ہٹلر کا پلڑا بھاری تھا۔ اُس صدی کی جنگوںکا اصل ایندھن بے شناخت نوجوان فوجیوں کے لاشے تھے۔ نوخیز، نوعمر، نوجوان، حسرت زدہ مائوں کے ایسے مسخ شدہ غنچے جو گنتی سے ماورا تعداد میں بِن کھلے مرجھا رہے تھے۔ لندن پلان پر عمل دَرآمد کے لیے آنے والے مشن کا سربراہ Sir Richard Stafford Cripps جیسا مکار تھا‘ جس کے سر پر کئی hat سجے ہوئے تھے۔ موجودہ استعمار راج کے سب سے تازہ ترین امپورٹڈ، شہباز شریف والے hats کی طرح۔
اِس لندن پلان کے دو بنیادی مقاصد طے کیے گئے۔ پہلا، ہندوستان سے مزید فوجیوں کی بھرتیاں‘ جبکہ دوسرا مقصد مقبوضہ ہندوستان کے اندر نئے الیکشن کے ذریعے Self Governance کے لبادے میں Dominion Status دینا تھا۔ یہ پلان آگے نہ بڑھ سکا۔
فرنگی راج کا دوسرا لندن پلان: پہلے لندن پلان کے صرف 4 سال بعد لندن سے ہماری تقدیر کا فیصلہ لے کر ایک عدد ''Cabinet Mission‘‘ برٹش انڈیا پہنچا۔ اِس لندن پلان کو Transfer of Power مشن کہا گیا‘ جس میں Lord Pethick Lawrence (Secretary of State for India)
Sir Stafford Cripps (President of the Board of Trade)، اور A.V. Alexander (First Lord of the Admiralty) انگلستان سے غلام ہندوستان میں پہنچے۔ اُس وقت کے وائسرائے آف انڈیا، لارڈ ویول نے بھی سیاسی ملاقاتوں اور گفتگوئوں میں اِس لندن پلان کے فوائد اپنے غلاموں کو بتائے‘ جن میں یہ بھاشن بھی شامل تھا کہ 3 سطحی حکومتوں میں مسلم اقلیت متعصب ہندو اکثریت کی بالادستی کو قبول کرلے۔ لندن سے آنے والے کیبنٹ مشن پلان کی Steam جلد ہی خارج ہو گئی کیونکہ حضرتِ قائد اعظمؒ نے انڈین نیشنل کانگریس کے حمایت شدہ کسی بھی پلان پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔ لندن پلان کی اِس ناکامی کے نتیجے میں تاجِ برطانیہ کو لارڈ ویول کی جگہ ہندوستان کے لیے نئے وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن کو سامنے لانا پڑ گیا۔ اس طرح کیبنٹ مشن والا وہ لندن پلان، جو برٹش پرائم منسٹر Clement Attlee کے دور میں بنا، مقبوضہ انڈیا کے مقامی سہولت کاروں اور استعماری فرنگیوں کے اِس پلان کا مرکزی نکتہ اور مقصد صرف ایک ہی تھا۔ یہی کہ ماضی کے حکمران مسلمانوں کو فرنگی راج کی غلامی سے نکال کر متعصب اکثریت یا ہندوتوا راج کے حوالے کردیا جائے۔
وطنِ عزیز میں اِن دنوں ایک بار پھر لندن پلان کی تاریخ دہرائی جارہی ہے، وہ بھی Reverse Mode میں۔ اِس وقت ایسے لیڈر پاکستان میں برسرِ اقتدار ہیں، جن کے انتہائی مہنگے، پرائم لوکیشن اثاثے اور جائیدادیں، سینٹرل لندن، فرانس اور نیویارک میں ہیں۔ وہ تازہ کیبنٹ مشن کا حصہ ہیں، جو اِن دنوں خاندانِ غلاماں کی حیثیت سے، آزاد پاکستان سے کیبنٹ مشن لیکر برٹش راج کے کیپٹل میں موجود ہے‘ جہاں اِس مشن کا مستقل سربراہ پاکستانی عدالتوں سے مفرور، تاحیات نااہل سزا یافتہ مجرم ہے۔پارٹیشن آف انڈیا ایکٹ پچھلی صدی کے چوتھے عشرے میں پاس ہوا جس کے بعد مطالعہ پاکستان کی تاریخ میں یہ منظر پہلی بار دیکھا جارہا ہے کہ ایک امپورٹڈ وزیر اعظم نے اپنی کیبنٹ انگلستان ایکسپورٹ کردی۔ اِس کیبنٹ مشن کو priority پر ٹاپ سیکرٹ رکھا گیا۔ اِس قدر ٹاپ سیکرٹ کہ اِس کی فارمیشن میں 12 عدد اتحادیوں کی ٹولی میں سے کوئی ایک کیبنٹ ممبر بھی شامل نہیں۔
حالیہ لندن پلان کے کچھ حصے کریمنل ریکارڈ ہولڈرز، بلکہ سنگین جرائم میں under trial ملزمان نے اپنی زبان سے خود قوم کے سامنے رکھے۔ اِن اعترافی پالیسی سٹیٹمنٹس کے دو حصے قابل توجہ ہیں۔ ایک براہِ راست چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو مخاطب کرکے دی جانے والی سنگین دھمکیاں ہیں۔ دوسرے حصے میں ماڈل ٹائون اَٹیک کی زبان میں پُرامن عوام کو اشتعال دلا کر خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے والے ایکشن ری پلے کا عندیہ شامل ہے۔ سادہ لفظوں میں یہ سری لنکا کے راجہ پاکسے خاندان والا پلان ہے جس کے 4 افراد ملک کے 4 کلیدی عہدوں پر براجمان تھے۔ پہلا بھائی Gotabaya Rajapaksa صدر، دوسرابھائی Mahinda Rajapaksaوزیر اعظم، تیسرا بھائی Chamal Rajapaksa منسٹر فار ہوم افیئرز، جبکہ چوتھا بھائی Basil Rajapaksa فنانس منسٹر تھا۔سری لنکا ماڈل امپورٹڈ حکومت والے شریف خاندان کو کیسے پسند نہ آئے؟ جس خاندان کا بڑا بھائی مفرور مگر De Facto پرائم منسٹر۔ چھوٹا بھائی فوجداری پرچے میں ضمانت پر، مگر امپورٹڈ وزیر اعظم‘ جس کا بیٹا حاضر ملزم بر ضمانت مگر امپورٹڈ سی ایم پنجاب۔ چوتھی، بڑے بھائی کی بیٹی جو پولیس، رینجرز اور سکیورٹی پروٹوکول کے مطابق Convicted Co-Prime Minister ہے۔
پاکستان کی امپورٹڈ کابینہ کے ایکسپورٹڈ کیبنٹ مشن کی دو کارروائیاں سلیکٹڈ میڈیا رپورٹ کررہا ہے۔ پہلی پاکستان میں آٹا سستا کرنے کے لیے لندن سے انتہائی مہنگے برانڈ کے کپڑوں کی خریداری ہے۔ دوسرے نمبر پر انتہائی خفیہ فیصلے۔ گزشتہ ہفتے کے روز اِن خفیہ فیصلوں کا پہلا حتمی سرکاری نتیجہ سیالکوٹ سے موصول ہوا‘ جہاں پی ٹی آئی کے خالی ہاتھ لیڈروں اور نہتے ورکرز پر سرکاری مشینری، ڈی پی او کی قیادت میں مبینہ طور پر پولیس، ایریل فائرنگ، آنسو گیس شیلنگ، لٹھ ماری کے زور پر سیالکوٹ جلسہ آگنائز کرنے والے کارکنوں کوگھسیٹاگیا اور پیٹا بھی گیا۔ لندن پلان کے سرکاری نتیجے کی سیالکوٹ سے وصولی کے بعد، اُمت مسلمہ اور پاکستانیوں کی سب سے معتبر، آزادی پسند آواز عمران خان خم ٹھونک کر سامنے آئے۔ امپورٹڈ حکومت کی طرح confuse، چِڑے اور اُلجھے ہوئے نہیں‘ پُرعزم اور سلجھے ہوئے انداز میں قوم کو اعتماد میں لیا۔ قتل کی ایک گھنائونی سازش کے بارے میں جو پاکستانی تاریخ میں تسلسل سے چلی آتی ہے۔ غیرملکی منصوبہ سازوں اور اندرونِ ملک کے سہولت کاروں پر مشتمل قتل کی اِس سازش پر عمران خان آن ریکارڈ آ گئے۔ یہ تفصیل جاننے کے قابل ہے۔ (ختم)