اس سے پہلے کہ ملک کی سب سے بڑ ی عدالت میں امپورٹڈ حکومت کے پیش کردہ اس موقف کی طرف جائیں جس میں بتایا گیا کہ 25مئی 2022ء کے دن عمران خان کے ساتھ کتنے آدمی اسلام آباد آئے‘ آپ سے دوتازہ معاملات پر بات ضروری ہے۔ مجھے پشاور ہائی کورٹ سے عمران خان کے لیے Protective Bail Orderلینا تھاکیونکہ 26 مئی کو سابق وزیراعظم کے خلاف اسلام آباد کے11پولیس سٹیشنز میں 14 عدد ایف آئی آرز کاٹی گئی ہیں‘ لہٰذا مجھے فاضل پشاور ہائی کورٹ میں پیشی اور اُس کی تیاری کے لیے دودن وہیں رکنا پڑا۔ جہاں ''امپورٹڈ‘‘ حکومت کے وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ‘ وزرا‘ ایک مفرور قائد اور اُن کی بیٹی کا ایک بیان ہر جگہ زیرِ بحث ملا‘ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن میں بھی۔ یہی کہ عمران خان ''فتنہ‘‘ ہے اور پاکستان کو ہر قیمت پر اس سے نجات دینے کے لیے اس کا ''خاتمہ‘‘ کرنا پڑے گا۔ ان میں سے کچھ''امپورٹڈ‘‘ نے تو یہاں تک بھی کہہ رکھا ہے کہ عمران خان پاکستان میں ''فساد فی الارض‘‘ ہے۔ یہ خالصتاً مذہبی کارڈ کھیلا گیا ہے جس کے ذریعے سیاسی خیالات کا زبانی کلامی اظہار نہیں ہوتا بلکہ اس کا صاف ظاہر مقصد‘ اُن کی زندگی کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ براہِ راست بھی اور بالواسطہ بھی۔
دوسرے معاملے پر اہم بات‘ ''امپورٹڈ‘‘ حکومت کا یہ کہنا ہے کہ عمران خان کے حقیقی آزادی مارچ کا خاتمہ ہو گیا۔ اب عمران خان اسلام آباد میں گھس کر دکھائے۔ ان دونوں صورتوں میں ایک بات جو مشترک ہے‘ وہ ہے ''امپورٹڈ‘‘ سرکار کے لیے اسلام آباد میں عمران خان کی واپسی کا خوف۔ کوئی ایسا شخص جس کے ساتھ پورے ملک میں سے باہر نکلنے والے صرف 10سے 20 بندے ہوں‘ وہ کہیں بھی آئے یا جائے‘ اس سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے؟ ایون فیلڈ کے ''مے‘‘ اور ''فیئر‘‘محلات میں مقیم ایکسپورٹڈ حکمران خاندان کے امپورٹڈ حکومت کارو ں کی اطلاع کے لیے عرض ہے‘ عمران خان کی رہائش گاہ اسلام آباد میں ہے۔ بھلا گھر آنے سے اُسے کون روک سکتا ہے اور کس قانون کے تحت؟
سپریم کورٹ آف پاکستان میں ''امپورٹڈ‘‘ سرکار‘ پورا زور لگا رہی تھی کہ عمران خان کو شاہراۂ سری نگر کے سیکٹر G-9اور H-9کے وسیع و عریض علاقے میں احتجاج کے لیے آنے کی اجازت نہ دی جائے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے میرا مؤقف تھا کہ عمران خان کی حکومت میں جولائی 2019ء اور مارچ 2022 ء میںجے یو آئی ایف کو دومرتبہ یہیں پہ احتجاج کی اجازت دی گئی‘ جس کے جواب میں ''امپورٹڈ‘‘ سرکار نے 10سے 20 آدمیوں والا موقف بڑے دلچسپ انداز میں یو ٹرن لے کر چھوڑ دیا۔ ''امپورٹڈ‘‘حکومت نے کہا‘ یہ گرائونڈ بہت چھوٹا ہے‘ اس میں صرف 15سے 20ہزار لوگ سما سکتے ہیں‘ اس لیے یہ گرائونڈ پی ٹی آئی کو نہ دیا جائے۔
جب آپ یہ وکالت نامہ پڑھ رہے ہوں گے‘ عمران خان پشاور سے واپس اسلام آباد پہنچ چکے ہوں گے۔ ''امپورٹڈ‘‘حکومت کا 20ہزار لوگوں کے حمایت یافتہ عمران خان کو Containکرنے کا پلان یوں ہے کہ دزدِ نیم شب کی طرح بنی گالا پر شب خون مارا جائے۔ عمران خان کو عوام کی پہنچ سے دور کردیا جائے۔ اس طرح دو ایک راتوں میں اپنی قوم اور عمران خان کے درمیان کوئی ناقابلِ عبور شگاف ڈال دیا جائے۔ احمد فراز کے بقول:
مرا قلم نہیں اوزار اُس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
مرا قلم نہیں اس دزدِ نیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے
یہاں بہت بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان کے ساتھ 20آدمی تھے جو بے رحم طاقت کے استعمال سے کم ہوکر صرف 10رہ گئے تو پھر سابق پرائم منسٹر کو گرفتار کرنے کی منصوبہ بندی کا مقصد کیا ہے؟ آپ کی طرح میں بھی سوچ رہا ہوں کہ اس بنیادی سوال کاجواب خود امپورٹڈ منصوبہ ساز ہی دے سکتے ہیں۔ لیکن کچھ زمینی اشارے دیوار پر لکھے نظر آرہے ہیں۔ اس لیے اُن سے نظر چرانا ممکن نہیں۔
پہلا اشارہ: جب مرحوم چیف جسٹس پنجاب خواجہ شریف کے قتل کا مبینہ منصوبہ لیک کیا گیا‘ تو اس کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی سربراہی میں ہائی پاور جوڈیشل کمیشن بنا جس کو جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب ہیڈ کررہے تھے۔ جس سرکاری ملازم پر فالس فلیگ آپریشن کا الزام آیا‘ اُسے کسی بھی انتظامی عہدے پر کبھی نہ لگانے کا حکم جاری ہوا۔ آج ''امپورٹڈ‘‘ حکومت نے اُس حکم کو پسِ پشت ڈال دیا۔ پنجاب پولیس کے چُنے ہوئے پسندیدہ کردار‘ ماڈل ٹائون سانحہ کے نامزد لوگ‘ اسلام آباد میں خصوصی طور پر لائے اور لگائے گئے۔ آخر کیوں؟
دوسرا اشارہ: امپورٹڈ سرکار نے اسی ہفتے پنجاب Constabulary اور پنجاب پولیس سے 17ہزاراہلکار چن چن کر اسلام آباد میں Accomodate کرنے کا اعلان کیا۔کیا صرف 20 لوگوں کو سنبھالنے کے لیے؟یا پھر ماڈل ٹائون ری پلے کی خاطر؟
ان دنوں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پی رہے ہیں (پلیز مجھ سے مت پوچھئے گا کہ بکری کون ہے؟)‘ اس لیے پٹرولیم کی قیمتوں میں ایک ہفتے کے اندر اندر 60روپے اضافہ‘ گیس کی قیمت میں 45 فیصد‘ لوڈشیڈنگ والی بجلی کے ریٹس میں 30 فیصد اضافہ‘ غریبوں کے جھونپڑوں کی طرف لپکتے ہوئے افراطِ زر کے شعلے۔ تیل‘گھی‘ آٹا‘ چینی‘ دال تک عام آدمی کی پہنچ کا ذکر ہی کیا۔ اب تو واقعی ''شہباز تیری پرواز سے جلتا ہے ہر گھرانہ‘‘ والی کیفیت کا ثبوت ہر گھر تک پہنچ چکا ہے۔ ہر ایسا گھر جہاں بجلی کا بلب جلتا ہے‘ ڈیزل سے ٹریکٹر چلتا ہے‘ مٹی کے تیل سے چولہا جلتا ہے یا جن کا نان و نفقہ دہاڑی داری پر بنتا ہے۔
ایف آئی اے‘ Good Governanceکے دو عظیم شاہکاروں کی گرفتاری کے لیے ترس رہی ہے۔ ''امپورٹڈ‘‘باپ بیٹا کی لوکل عبوری ضمانت ہے کہ سال ہا سال سے چلتی ہی چلی جارہی ہے۔ اور دونوں کی فردِ جرم انصاف کے ہاتھوں سے پھسلتی چلی جارہی ہے۔ دوسری جانب جب بھی شیر اور بکری ایک ساتھ ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے ہیں‘ بے چارہ مردِ ایوان کسی نہ کسی بحران میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ اب بھی باقی سب بچ گئے 'تنِ تنہا‘ ایک اکیلے پر فردِ جرم لگ گئی۔ یہ تقدیر کا لکھا نہیں بلکہ نئے این آر او کے قلم سے لکھی گئی تحریر کا حصہ ہے۔
قلم سے پھر احمد فراز یا د آتے ہیں۔
مرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے
مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا زبان تیر کی ہے
میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا
(ختم)