مر گئے‘ لُٹ گئے‘ برباد ہوگئے! چولہے بجھ گئے‘ کسان اُجڑ گیا۔ یہ تھا بیانیہ یکم جون 2021ء سے لے کر یکم مارچ 2022ء کی تاریخ تک کا۔ مخصوص آزاد بیان بازوں کا اور اُن کے آرکسٹرا پر بجنے والے فری اینڈ فیئر سازوں کا۔ جو مکمل طور پر خود مختار ہیں‘ قلم کار ہیں‘ اور اس بیانیہ کے تخلیق کار بھی ہیں۔ 10مہینے کے اس عرصہ میں سرکاری اعداد و شمار جو رپورٹ شدہ ''پبلک فیکٹس‘‘ ہیں‘ اُن کے مطابق پٹرول کی قیمت میں 38فیصد اضافہ کیا گیا۔ غیرملکی تیل کمپنیوں کی تابع فرمان آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کا ایک ایسا ریگولیشن ہے جس کے ذریعے ہر 14ویں کی نصف شب کو عام آدمی کے سر پر پٹرول بم گرایا جاتا ہے۔
اس 10ماہ کے سارے عرصہ کے دوران پٹرول پرائس میں کل اضافہ 41.3روپے فی لٹر بنتا ہے‘ جس کا سادہ حساب یہ کہ ہر مہینے میں پٹرول کی قیمت میں 4روپے 13پیسے کا اضافہ کیا گیا۔ چونکہ ریگولیشن کے مطابق یہ اضافہ ہر دو ہفتے بعد کیا جاتا ہے‘ اس لیے عمران خان کی حکومت نے پٹرول میں ہر 15دن 2روپے ساڑھے 6پیسے لٹر کے ریٹ پہ اضافہ کیا۔ اس دوران مہنگائی کا ڈھول پیٹنے والوں نے ہزاروں ٹن کاغذ پر کالم لکھے۔ ریڈیائی لہروں پر کروڑوں گھنٹے چیخ چیخ کر قوم کو بتایا کہ عمران اور پاکستان ساتھ نہیں چل سکتے۔ بالکل ویسے ہی جیسے نیب اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔
اُن دنوںایسا لگ رہا تھا‘ جیسے پٹرول دھنیے سے بنتا ہے‘ مٹی کا تیل پودینے سے‘ جبکہ ڈیزل ملک میں اُگنے والی بھنگ سے۔ پٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ یا اس کے بین الاقوامی ریٹس‘ سب عمران خان کی تیار کردہ سازشی کہانیاں ہیں۔ ایک صاحب‘ جو رینٹ اے کراؤڈ کے لیے خاصے مشہور ہیں‘ انہوں نے اپنے کراؤڈ میں ایک شخص کو کفن پہنا کر داخل کیا جو پٹرولیم کی قیمتوں میں 4روپے کے اضافے کو موت کا منظر بنا کر پیش فرما رہے تھے۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر میم بنانے والے ملین کے حساب سے کفن پوش کی تصویر لگا کر ساتھ اشتہار لکھ رہے ہیں کہ اس کو کہیں سے ڈھونڈھ کر لاؤ۔ تاکہ موت کا منظر دکھانے والے کو یہ بتایا جا سکے کہ جب تصویری مہنگائی کے بجائے تباہی والی مہنگائی آتی ہے تو پھر معیشت کے مرنے کے بعد ہوتا کیا ہے۔
ویسے آپس کی بات ہے‘ جب سے یو ایس اے بہادر نے رینٹ اے کراؤڈ کا تجربہ کار سفارت کار پاکستان بھجوایا ہے‘ تب سے یہ صاحب ڈی سے ڈپلومیٹک چوک کے دوسری جانب پبلک میں باہر نکلنے کو تیار ہی نہیں۔ کیونکہ ہر روز پی ٹی آئی حکومت پر سوالوں کی کمنٹری کرنے والے کے لیے ہمت کے ساتھ 1عدد سوال کا سامنا کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ حالانکہ سوال بہت سادہ ہے‘ معصومانہ بالکل نہیں۔ یہی کہ جب ایک پارٹی کا حکومت آتا ہے‘ تو مہنگائی آتا ہے لیکن جب 13پارٹی کا حکومت آتا ہے تو مہنگائی میں 13 سو فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔ کسی ایسے ہی ماحول میں نجیب احمد نے کمال کے سوال پوچھے۔چند یوں ہیں؛
کس نے وفا کے نام پہ دھوکا دیا مجھے
کس سے کہوں کہ میرا گنہگار کون ہے
سب نے گلے لگا کے گلے سے جدا کیا
پہچان ہی نہیں کہ ریاکار کون ہے
پھر یوں ہوا کہ مجھ پہ ہی دیوار گر پڑی
لیکن نہ کھل سکا پسِ دیوار کون ہے
محبوس سب ہیں مصلحتوں کے حصار میں
لیکن خود اپنی دھن کا گرفتار کون ہے
ہر آنکھ میں نجیبؔ ہیں سپنے بسے ہوئے
اس جاگتے دیار میں‘ بیدار کون ہے؟
پی ڈی ایم کا انتہائی لذیذ مہنگائی مارچ تو آپ کو یاد ہی ہوگا۔ تب اس تجربہ کار ٹیم کے سارے ماہرین کہتے نہیں تھکتے تھے کہ عمران خان نے پٹرول کی قیمت میں 67روپی فی لٹر کا مصنوعی اضافہ کر رکھا ہے۔ موجودہ پرائم منسٹر نے تب لرزتی ہوئی آواز بناکر ڈرامائی وڈیو ریلیز کی۔ جس میں دعویٰ کیا‘ حکومت میں آتے ہی 67روپے فی لٹر پٹرول سستا کرنے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ مہنگائی مارچ کامیاب ہوگا اور ہم مہنگائی کا خاتمہ کرکے نااہل وزیراعظم عمران خان کو ایکسپوز کردیں گے۔ سائیفر کا کرنا ایسا ہوا کہ پھر امپورٹڈ رجیم چینج آگئی ۔ عمران خان کی پارٹی میں نقب لگا کر لوٹوں کی 2ٹکڑیاں اُچک لی گئیں۔ آج بھی اُن 2لوٹیائی ٹکڑیوں کے سر پر ہی وفاق اور صوبہ پنجاب کی حکومتیں کھڑی ہیں۔ باپ بیٹے کی ایسی حکومتیں جو کھل کے طاقت کے غیر پارلیمانی مراکز سے کہتی ہیں کہ ہمیں بٹھایا تھا تو اب چلانا بھی تمہاری ذمہ داری ہے۔
آئیے 2اور دلچسپ حقیقتوں پر نظر ڈال لیتے ہیں۔
پہلی حقیقت: موجودہ حکومت نے 2ہفتے میں پٹرول‘ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمت کو سونے کے پر لگا دیے۔ پبلک کو بتایا‘ آپ کا خزانہ خالی ہے اس لیے تیل کی قیمت بڑھائے بغیر ملک کو نہیں چلایا جا سکتا۔ اگر کوئی ایسا Investigative ''پتر کار‘‘ موجود ہو‘ جو موجودہ سرکار کے رجیم چینج کے بعد دفتروں اور بنگلوں میں جاری فرنیچر چینج‘ سوئمنگ پول چینج‘ وال ہینگنگ چینج‘ لان گملا چینج‘ فلور ٹائل چینج‘ ڈورکلرز چینج‘ الماری چینج‘ کچن چینج اور گاڑی چینج مہم کی رپورٹنگ کرسکے تو کامران خان کے بقول عجب کرپشن کی غضب کہانی کی پوری میگا سیریز سامنے آئے گی۔ بالکل ویسی ہی‘ جیسی گوجرانوالا سے (ن) لیگ کے امپورٹڈ وفاقی وزیر نے ٹی وی پر خود سنا دی ہے۔ موصوف فرماتے ہیں‘ اگر رجیم چینج نہ کرتے تو سال کے آخر تک ہمارے خلاف منی لانڈرنگ اور کرپشن کے سارے کیسز کے فیصلے ہو جاتے۔ ہم سب جیل میں بند ہوتے۔ امپورٹڈ منسٹر نے اِس Brilliant چوائس میں نومبر والی چوائس کا اضافہ بھی کردیا۔
دوسری حقیقت: یہ بھی اپنی طرز کا پہلا کمال ہے‘ جس میں سابق وزیراعظم پر الزام یہ لگا کہ وہ غریبوں کو سستا تیل‘ ڈیزل اور پٹرول بیچتا تھا۔ عمران خان کی اِس ''سَست پائی‘‘ کو بارودی سرنگوں کا نام دیا گیا۔ 67روپے فی لٹر پٹرول سستا کرنے کا دعویٰ ہوا میں اُڑ گیا۔ اب کسان کے ٹریکٹر کا ڈیزل پہلے سے 82فیصد بڑھ گیا ہے۔ منڈی مزدور‘ کھیت کسان امپورٹڈ حکومت کے ریڈار میں ہی نہیں۔ اس امپورٹڈ نظامِ خواص کو 3لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ ایلیٹ کی حکومت‘ ایلیٹ کے ذریعے‘ ایلیٹ کے لیے۔
اب خیر سے مہنگائی انٹرنیشنل ہوگئی ہے‘ تیل کی قیمت ڈالروں میں بڑھتی ہے اور نیا امپورٹڈ بیانیہ یہ ہے۔ پٹرول کی قیمت نہیں بڑھائی‘ پرائس ایڈجسٹمنٹ ہوا ہے۔ مہنگائی ہے کہاں‘ ہم تو مشکل فیصلے کررہے ہیں۔ پٹرول مہنگا ہونے سے پریشانی کی کیا بات؟ چائے پینا چھوڑ دیں۔ روٹیاں تو موٹا کرتی ہیں‘ٹافیاں کھائیں۔