دو دن پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان میں عدالتی وقفے کے دوران لائبریری میں جانا ہوا‘ جہاں کراچی اور پشاور کے کچھ سینئر وکلا پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے درمیان پُرجوش بحث چل رہی تھی جس کا موضوع مجھے معلوم نہیں تھا۔ پوچھا: کیا چل رہا ہے؟ تو پتا چلا کہ اس نکتے پر بحث ہورہی ہے کہ کیاکسی واردات کا ملزم اس کے جرم سے متعلقہ قانون کو تبدیل کرکے اپنے آپ کو بری کر سکتا ہے‘ یا نہیں؟ مجھے خلیل جبران ( 6جنوری 1883ء تا 10اپریل1931ء) یاد آ گئے۔
جبران خلیل جبران‘ عرب لبنانی مفکر تھے۔ جن کے افکار کی سچائی‘ گیرائی اور گہرائی کا عالم یہ ہے کہ امریکی ایکیڈیمیا اُنہیں لبنانی امریکی کہنے میں زیادہ فخر محسوس کرتی ہے۔ خلیل جبران سلطنتِ عثمانیہ کے عہد میں پیدا ہوئے۔ اس وقت لبنان سلطنتِ عثمانیہ کا خوبصورت اور پُرامن سیاحتی مقام تھا جس کے ایک چھوٹے سے پہاڑی گاؤں میں 6جنوری 1883ء کے روز خلیل کی ولادت ہوئی۔ خلیل جبران کا خاندان جبلِ لبنان متاسری فاتح کے گاؤں بشاری میں رہتا تھا۔ ان کے والد خلیل سعد جبران اور والدہ کا نام کاملہ رامع تھا۔ خلیل کی والدہ عیسائی تھیں اور اُن کا تعلق Maronite Christianفرقے سے تھا۔ کاملہ کی عمر 30 برس تھی‘ جب خلیل جبران ان کے گھر پیدا ہوئے۔ جبران کی دو بہنیں تھیں‘ ماریانہ اور سلطانہ۔ خلیل جبران نے اپنی ابتدائی تعلیم بشاری گاؤں کے ایک چھوٹے سے سکول میں حاصل کرنا شروع کی جہاں روایتی استاد انہیں سلیبس کے ساتھ ساتھ زندگی کی حقیقتوں سے بھی آشنا کرتے تھے۔
خلیل جبران کے فلسفیانہ علمی مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں اُنہیں Philosopherکا ٹائٹل دیا گیا‘ جو انہوں نے از خود مسترد کردیا۔ خلیل جبران کا شمار انتہائی متاثر کن عالمی شعرا میں بھی کیا جاتا ہے۔ Authorاور رائٹر کی حیثیت سے ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے کہ 1923ء یعنی آج سے 99سال پہلے ان کی کتاب The Prophetپہلی بار یو ایس اے سے پبلش ہوئی۔ خلیل جبران کی اس کتاب کو دوعالمگیر اعزاز حاصل ہوئے‘ جو شاید ہی کسی دوسرے مصنف کے حصے میں آئے ہوں۔ ان میں سے پہلا اعزاز یہ کہ خلیل جبران کی کتاب دنیا میں آج بھی One of the best selling books of all timesکہلاتی ہے۔ اس کتاب کا دوسرا اعزاز یہ ہے کہ اس کا اب تک دنیا کی 100سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اسی وجہ سے خلیل جبران کی یہ تصنیف One of the most translated books in historyبھی کہلائی۔
جبران خلیل جبران 10اپریل1931ء کو فوت ہوئے۔ ان کی وفات کے تقریباً دوسال بعد خلیل جبران کی دوسری کتاب The Garden of the Prophetکے ٹائٹل کے ساتھ شائع ہوئی۔ اس کتاب کی صرف ایک شاہکار تخلیق نے دنیا کے لٹریچر میں تہلکہ مچا دیا۔ صرف کتابی حد تک نہیںبلکہ بڑے بڑے ایوان کہیں اس کتاب کے ذکر سے گونج اُٹھے اور کہیں اس کے اشعار کی کاٹ سے تھرا گئے۔
میں نے خود خلیل جبران کا صرف نام سنا ہوا تھا اور دور سے ہلکا پھلکا تعارف بھی‘ لیکن سال1979ء سے جب میں کنگ سعود یونیورسٹی میں پہنچا‘ اس کے بعد جبران خلیل جبران کو براہ راست عرب نوجوانوں سے جاننے کا موقع ملا۔ ساتھ ساتھ خلیل جبران کے ایک شامی پڑوسی دُرید لحّام سے بھی متعارف ہوا۔ دُرید visual arts کے باغی عرب فنکار‘ ڈرامہ نگار‘ سکرپٹ رائٹر اور آزادی پسند مصنف تھے۔ اُن کا ایک شاہکار ڈرامہ وہ تھا جس میں طارق بن زیادکو زنجیریں پہنا کر امیر ترین عرب شیخوں کی عدالت میں بطورِ مجرم پیش کیا جاتا ہے‘ جہاں غربت کے زمانے میں عرب قوم کی قیمتی کشتیاں جبرالٹر کے مقام پر بلاوجہ جلا دینے کا مقدمہ چلتا ہے۔ دُرید لحّام کا تعارف عرب دنیا سے باہر خال خال ہے لیکن خلیل جبران ہر علاقے‘ ہر کلچر اور ہر زبان میں ان کا صرف نام ہی کافی ہے۔
پاکستان میں ترقی پسند اور جدیدیت پسند‘ جنہیں سرکار کے درباری باغیانہ خیال رکھنے والے لوگ کہتے ہیں‘ ان حلقوں میں خلیل جبران ہمیشہ Quoteکیے جاتے رہے لیکن یہاں بلاشبہ جناب جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کے ایک تاریخی فیصلے نے خلیل جبران کو ایک نیا جنم دیا۔ نئے بدلے ہوئے سماج میں اور خاص طور پہ پاکستان کی نئی نسل میں۔ جسٹس کھوسہ نے اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف فیصلے میں چھ صفحات پر پھیلا ہوا ایڈیشنل نوٹ تحریر کیا۔ جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 77 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر ہوا جس کے ساتھ جسٹس کھوسہ نے Pity the Nationمیں 321الفاظ کا اضافہ کیا۔ ساتھ ہی خلیل جبران کے نام معذرت نامہ ''An apology‘‘ کے نام سے لکھا۔ جسٹس کھوسہ نے اس فیصلے میں John Donne کے ''For Whom the Bell Tolls‘‘ میں سے ایک Quote بھی مستعار لیا۔ جس کے خوبصورت الفاظ یہ ہیں۔
Each man's death diminishes me
ہر فرد کی موت مجھے ختم کرتی جا رہی ہے۔
For I am involved in mankind
اس لیے کہ میں انسانوں میں سے ایک ہوں۔
Therefore, send not to know
یہی وجہ ہے‘ مجھ سے مت پوچھو
For whom the bell tolls,
گھنٹا گھر کس کے لیے گونجا ہے
It tolls for thee
گھنٹی کی یہ آواز تمہارے لیے ہی گونجی ہے
ان دنوں سوشل میڈیا پر خلیل جبران کی Pity the Nation کا ایک ترجمہ جناب فیض احمد فیض سے منسوب بھی پایا جاتا ہے جس کے ترجمہ شدہ اشعار کا انگریزی ورژن سابق C.J.P آصف کھوسہ صاحب نے اپنے حصے کے فیصلے میں خوب صورتی سے استعمال کیا۔ جس کے بعد جناب کھوسہ سوشل میڈیا پر Dissenting judge کہلائے۔ خلیل جبران کے ادب کے عظیم فن پارے کو شہ پارے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے جسٹس کھوسہ نے لکھا کہ مجھے اپنے فاضل بھائی جسٹس ناصر الملک صاحب کے فیصلے سے مودبانہ اتفاق ہے۔ میں اپنی طرف سے ایڈیشنل نوٹ مجوزہ فیصلے میں شامل کرتا ہوں۔ پھر پیرا گراف نمبر دو میں کہا کہ اس حوالے سے مجھے خلیل جبران کے ناقابلِ فراموش الفاظ یاد آ گئے جو ہمارے آج کے حالات کی تصویر کو پینٹ کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں؛ اگرچہ یہ بڑی بدقسمتی ہے۔ جسٹس کھوسہ پھر Pity the Nation کے کچھ اشعار کی طرف آئے۔ جن کا آغاز خاصہ چشم کشا ہے۔
Pity the nation whose statesman is a fox,
whose philosopher is a juggler,
and whose art is the art of patching and mimicking