کوئی حال مست ‘کوئی مال مست ‘کوئی چال مست۔مگر پاکستان آج کہاں کھڑا ہے؟مقروض قوم کے دانش کدوں میں اس موضوع پہ گفتگو نہیں ہوتی۔ہم دنیا کا وہ واحد ملک ہیں جس میں گفتگو اور ڈائیلاگ‘ تحقیق اور پلاننگ کہیں پیچھے رہ گئے اور ہم ہیں اور ہمارے ہاتھ میں پسندیدہ بیانیہ کی بریانی نما پلیٹ۔ بیانیہ بھی ایسا جسے سوچتا کوئی اور ہے‘ لکھا کہیں اور جاتا ہے‘جبکہ اُس کو پھیلانے کے لیے templates بنانے والا سرمایہ کار ہمیشہ سے نامعلوم چلا آرہا ہے۔امریکہ سے آنے والے ہمارے پسندیدہ cypherکی طرح۔
جب سے کراچی میں فیئر ‘فری اور ٹرانسپیرنٹ ضمنی الیکشن اور پھر اُس کے بعد مقامی حکومتوں کے ''آہ‘زا‘ دانہ‘‘ الیکشن ہوئے ہیں‘ یار لوگوں کو ایک بات کی سمجھ آگئی‘یہی کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کس قدر خطرناک ہوتی ہے۔فرض کریںاگر کراچی والے ضمنی الیکشن میں ای وی ایم استعمال ہوجاتی تو اس ملک ‘قوم اور اُس کے ہمدردوں کا کَکھ نہ بچتا۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر پڑنے والا ہر ووٹ‘ڈرائی بیٹری سے چلنے والے الیکٹرک کائونٹر پر ساتھ ساتھ گنتی ہوتا رہتا ہے۔ادھر الیکشن ختم ہوا ‘اُدھر سارے پولنگ ایجنٹ مشین کے پاس آگئے۔ پولنگ آفیسر نے ای وی ایم کا بٹن دبایا ‘ سامنے کی بڑی سکرین پر ہر انتخابی نشان والے امیدوار کی تصویر اور اُس کی پارٹی کا نام آگیااور یہ جا‘ وہ جا ‘100فیصد درست نتیجہ مرتب ہوگیا۔اگر کسی امیدوار کا کوئی پولنگ ایجنٹ ای وی ایم سے خوفزدہ ہوکر اُس کا نتیجہ چیلنج کرڈالے تو پھر اُسی ای وی ایم کے نیچے رکھے ٹرانسپیرنٹ باکس کو نکال کرpaper trail(یعنی علیحدہ علیحدہ پڑنے والے ووٹ)باہر نکال کر اُن کی manual گنتی کی جاسکتی ہے۔
کراچی کے ضمنی الیکشن میں دوامیدواروں‘ ونر اور رنر اَپ کے مابین چند سینکڑے نہیں‘ بلکہ کچھ درجن ووٹوں کا فرق کئی گھنٹے تک ٹی وی سکرینوں پر رپورٹ ہوتا رہا۔یہ کمنٹری بالکل ویسی ہی تھی جیسی ہماری مرحوم ہاکی کے کھیل کے عظیم ماضیٔ مرحوم میں گیند‘ کلیم اللہ سے سمیع اللہ اور پھر وہاں سے شہناز جونیئر سے شہناز سینئر کے ہاتھ میں جاتی ہوئی بتائی جاتی تھی۔کراچی کے ضمنی الیکشن کی کمنٹری کے دوران پھر یکا یک کچھ دیر کے لیے سکرینوں پر سناٹا چھاگیا۔جس کے بعد نتیجہ حسبِ استطاعت نکلا‘ حسبِ فرمائش یا پھر حسبِ ضرورت۔ مگر نتیجہ یوں تھا‘وہی سہاگن جو پیا من بھائے۔
میں کچھ دنوں سے اپنے آبائی گائوں کہوٹہ میں ہوں۔جس کی وجہ پنجاب اسمبلی کے حلقہ PP-7میں ضمنی الیکشن تھے۔ پی ٹی آئی نے مجھے ضمنی الیکشن کے معاملات دیکھنے کے لیے کہوٹہ بھجوایا۔آج کا وکالت نامہ کہوٹہ کی خوبصورت وادیوں اور اُن سنگلاخ چٹانوں کے درمیان گھومتے ہوئے تخلیق ہوا جو بھارت کی طرف سے پاکستان پر حملے کی راہ میں حائل ہیں۔ صوبہ پنجاب کے 20حلقوں میں ضمنی الیکشن کے دوران صرف تین موضوعات پبلک کی لنگر گپ میں چھائے رہے۔ ان میں سے پہلا موضوع بیرونی سازش اور مداخلت کے خلاف عمران خان کا بہادرانہ موقف تھا۔ دوسرا موضوع الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ادارہ جاتی اہلیت‘اور ظاہر ہے تیسرا موضوع تھا 35‘ 35کروڑ والے لوٹے۔
اب بھی ذکر چل رہا ہے الیکشن کمیشن کا ‘اس لیے بار بار کے اس ذکر نے مجھے الیکشن کمیشن کی ایک کہانی یاد کرا دی۔یہ کہانی مراٹھی زبان میں لکھی گئی۔ مراٹھی زبان Indo-Aryan Language کہلاتی ہے جو موجودہ بھارت کی ریاست مہاراشٹرا میں بولی جاتی ہے۔ مہاراشٹرا کا مطلب ہے عظیم گھمسان کی جنگ میں دوڑنے والا شہ سوار اور گھوڑا۔اسے بھی آپ محض اتفاق سمجھیں ہمارے ہاں ضمیر فروشی سے ووٹ فروشی اور ووٹ کی خریداری کے بزنس کو ہارس ٹریڈنگ کہتے ہیں۔ یہ کہانی سابق بھارتی چیف الیکشن کمشنر کی ہے ‘جس کا نام تھا شری T.N. Seshan۔ الیکشن کمشنر صاحب اُترپردیش کے سرکاری دورے پر روانہ ہونے لگے تو اُن کی لاڈلی بیگم نے ساتھ جانے کی ضد کر دی۔مسٹر اینڈ مسز سی شان سڑک کے ذریعے اُتر پردیش کے سفر پر چلے۔ راستے میں وہ ایک باغ کے قریب رُک گئے۔ اس باغ کے درختوں پر پرندوں کے بے شمار گھونسلے نظر آرہے تھے۔الیکشن کمشنر کی بیگم نے میاں سے فرمائش کی کہ آپ مجھے باغ کے کسی درخت سے کوئی گھونسلا اُتروادیں۔ میں واپسی پر اُسے اپنے گھر میں سجائوں گی۔شری سی شان نے سکیورٹی میں موجود پولیس اہلکاروں کو بیگم کی فرمائش بتائی اور کہا کہ کوئی جا کر ایک گھونسلا اُٹھا لے آئے۔پولیس والوں نے ادھر اُدھر دیکھا تو اُنہیں قریب ہی ایک لڑکا نظر آگیا جو اپنی گائے چرا رہا تھا۔پولیس والے نے 10روپے کا نوٹ نکالا اور لڑکے کو نوٹ دیتے ہوئے کہا کہ بچے درخت پر چڑھ کر ایک گھونسلا اُتار لائو۔لڑکا پہلے پولیس والے کی بات سن کر حیران ہوا ‘پھر اُس نے گھونسلا لانے سے انکار کردیا۔ اسی دوران شری سی شان نے لڑکے کو 10کے بجائے 50روپے کا نوٹ لے کر گھونسلا اُتارنے کے لیے کہا ‘لیکن پھر بھی لڑکا پرندے کا گھونسلا چوری کرنے سے انکاری رہا۔اصرار پر لڑکے نے جواباً سی شان کو کہا ''جناب!گھونسلے میں پرندوں کے بچے رہتے ہیں۔ جب شام کو پرندے کھانا لے کر واپس آئیں گے ‘تو گھونسلے میں اپنے بچوں کو نہ دیکھ کر اُنہیں بہت دکھ ہوگا۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ اس غلط کام کا مجھے کتنا معاوضہ دیتے ہیں۔میں کسی کا گھونسلا توڑ کر آپ کو خوش نہیں کر سکتا‘‘۔ شری سی شان سخت شرمندہ ہوئے۔انہیں عمر بھر بچے کی حساسیت اورسوچ تڑپاتی رہی کہ جو بات چھوٹا سا چرواہا سمجھ سکتا ہے وہ ہندوستان جیسے بڑے ملک کے الیکشن کمشنر اور اُن کی بیوی کو کیوں سمجھ نہیں آئی۔سی شان اس پہ ہمیشہ رنجیدہ رہے کہ انہوں نے اتنی تعلیم کس لیے حاصل کی ‘فطرتِ سلیم تو اَن پڑھ بچے کے پاس تھی جس سے وہ محروم تھے۔ انہوں نے دوستوں سے کہا کہ میرا قد اُس بچے کے سامنے گھٹ کر سرسوں کے دانے جتنا رہ گیا۔
میں کہوٹہ میں تھا کہ اسد عمر ‘عمر ایوب اور الیکشن سیل نے 40لاکھ زندہ ووٹروں کو مردہ خانے میں ڈالنے پر قانونی راستہ نکالنے کی ایڈوائس مانگی۔اسی مقدمے میں لاہور ہائی کورٹ کے روبرو الیکشن کمیشن کے مشینی شعبے کا آفیسر پیش ہوا۔کمال ادائے بے نیازی سے بولا :مشین کی غلطی نے چلتے پھرتے زندہ ووٹروں کو مردہ خانے بھجوادیا۔کتنے آدمی تھے؟صرف چار ملین پاکستانیوں سے کچھ اوپر۔
ہم یہاں کھڑے ہیں!!