''فرشتے‘‘ نے اشارہ کیا‘ مجھے لائٹ سے ہٹ کر گفتگو کرنے کا کہا‘ اور لائٹ کٹ گئی۔ پیام تھا: عمران خان کی گرفتاری کا پلان B۔ اس دوران لاء آفس کا کچھ سٹاف نکل گیا تھا۔ میں واپس پہنچا تو یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری کے اس پلان کو ناکام بنانے کا ایک ہی طریقہ ہے‘ یہی کہ یہ دو لوگوں کے درمیان رہے۔ میں نے کلائنٹ سمیت کسی کو ٹیلی فون تک نہ کیا؛ چنانچہ کام مکمل کر کے گھر واپسی کے لیے نکلا تو کوہِ مری کی پہاڑیوں سے صبحِ کاذب نمودار ہو رہی تھی۔
شہرِ اقتدار کے'' فرشتے‘‘ بھی کمال ہیں۔ ان ''فرشتوں‘‘ کا کوئی خاص رنگ یا ملبوس نہیں ہوتا مگر فوجداری وکالت نے ہمیں Demeanour کو پہچاننے کا گُر سکھا چھوڑا ہے۔ Demeanour کا مطلب ہے The way a person behaves towards other people.
کئی عشرے پہلے‘ شہید بی بی کی وکالت کے زمانے کا دور یاد آ رہا ہے‘ اس سے ملتا جلتا واقعہ تھا۔ یہی خاندان تب بھی برسرِ اقتدار تھا۔ ایک ''فرشتہ‘‘ بی بی کو مشورہ دے کر نکلا تو انہوں نے مشورے کے لیے مجھے بُلا لیا۔ باقی گفتگو وکیل کلائنٹ کا راز ہے‘ اس لیے نہیں لکھ سکتا۔ ہاں! البتہ مجھ سے کلائنٹ نے پوچھا: آپ بتائیں جو مشورہ مجھے دیا گیا‘ اُس پر میرا تبصرہ کیا ہے؟ میرا جواب تھا: یقینا مشورہ صرف آپ کو ہی نہیں دیا گیا۔ اسلام آباد میں مشورہ ایک ہوتا ہے جسے مشرق‘ مغرب‘ شمال‘ جنوب کے سیکٹروں میں پہنچانے والے '' فرشتے‘‘ الگ الگ۔
اگلی صُبح طے شدہ وقت پر ہم بنی گالا سے نکلے تو راستے میں‘ میں نے پہلی بار کلائنٹ کو پلان B کے بارے میں بتایا۔ ساتھ یہ بھی کہ آپ کو آج ایک عدالت میں نہیں‘ دو عدالتوں میں پیش ہونا ہے۔ اس طرح وہ مقدمہ‘ جسے سرکار نے سرپرائز کے طور پہ چھپا رکھا تھا‘ اس کی درخواستِ ضمانت ہمارے ATC میں پہنچنے سے پہلے ہی دائر ہو چکی تھی۔
سرکار سے یاد آیا‘ ہم انگریزی زبان سے بھی گمشدہ والا سلوک کرتے ہیں‘ سرکار کا انگریزی ترجمہ گورنمنٹ ہے جبکہ ریاست کو انگریزی میں سٹیٹ کہتے ہیں۔ دونوں نے جب کبھی ایک دوسرے کے پیچھے چھپنا ہو تو ریاست کا ترجمہ سرکار ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایف آئی آر کے ملزم کا ٹرائل ہو یا ضمانت‘ اپیل ہو‘ نگرانی یا رحم کی درخواست‘ ہر فورم پر The State Vs Imran Khan ہی لکھا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ میں نے تو چار عشروں کی وکالت کے بعد یہ سوچنا چھوڑ دیا۔ آپ چاہیں تو غور فرما لیں۔
وصی شاہ کے بقول ؎
زندگی اب کے میرا نام نہ شامل کرنا
گر یہ طے ہے کہ یہی کھیل دوبارہ ہو گا
قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ خواہشوں کے غلام اپنے پلان اور اُس کی تشہیر پر اٹھنے والے خرچے سمیت خوار ہو گئے۔ یاد رکھنے والی بات ہے‘ یہ آخری رائونڈ نہیں‘ اس لیے کہ Get Imran کی مہم تین جگہ سے فرمائشی طور پر منظم کی گئی ہے اور فنڈڈ بھی۔
تقریباً دو ہفتے پہلے وفاقی حکومت نے ایس آر او جاری کر کے آئین کے آرٹیکل 19 (اے) میں دیا گیا شہریوں کا ایک حق چپکے سے ضبط کر لیا۔ یہ حق Right of Access to Information Act, 2017 کے نام سے آج بھی آئین میں لکھا ہے۔
"Every citizen shall have the right to have access to information held by public bodies subject only to reasonable restrictions imposed by law"
عوامی اہمیت کے ہر معاملے پر پاکستان کے ہر شہری کو معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے۔ آئین کی اس کمانڈ کے نتیجے میں قانون بھی بنایا گیا۔ جہاں ایک درخواست فارم داخل کرنے اور تھوڑے سے پیسے جمع کرانے سے مطلوبہ معلومات مل جاتی تھیں۔ شریفانہ گورننس ماڈل نے انٹرنل آرڈر جاری کر کے اس حق کو کیبنٹ ڈویژن میں ہونے والے گھپلوں کی حدود سے باہر نکال دیا۔ اس سے پہلے ایک ''باریک‘‘ واردات کیبنٹ میں بھی ہوئی۔ جس میں پاکستان کے قومی اداروں کی پرائیویٹائزیشن کا قانون Privatisation Commission Ordinance, 2000 غیر مؤثر کر دیا گیا۔
پھر فیصلہ ہوا کہ پاکستان کا کوئی بھی قومی اثاثہ‘ حکومت جسے چاہے اپنی مرضی کے ریٹس پر لٹا دے۔ مسابقتی کمیشن کا کردار زیرو۔ نہ کوئی ٹینڈر کی ضرورت نہ International Bidding کا عمل۔ ٹرانسپیرنسی موہنجو داڑو میں دفنا دی گئی۔ ملک کے سب سے اچھے ایڈمنسٹریٹر کی یہ تاریخی کامیابیاں شریف قوم اور اس کے انتہائی شریف پروموٹرز کو مبارک ہوں۔ اس بلامقابلہ لوٹ سیل کا پہلا مکمل نتیجہ نکل آیا ہے جس کے مطابق قوم نے قطری خط ون اور قطری خط نمبر دو کے احسانات اتار ے۔ نیویارک کے روزویلٹ ہوٹل کی فروخت طے ہو گئی۔ ماضی میں بھی قومی اثاثوں کی ایسی ہی شاندار لوٹ سیل ہوئی تھی۔ تب بھی حکومت یہی تھی۔ جس نے قومی بینک اور کئی دیگر قومی ادارے لٹا دیے۔ بدلے میں پاکستان کو نہ اثاثوں کی قیمت ملی نہ ہی طے شدہ معاہدوں پر عمل ہوا۔ اس حوالے سے چلنے والے کئی مقدمات میں مَیں بطورِ وکیل پیش ہوتا آیا ہوں۔ اس پہ تفصیلی معلومات پھر سہی۔
Get Imran نعرہ نہیں ایجنڈا ہے۔ اس ایجنڈے کی شانِ نزول سے شناسائی کی بات کُو بہ کُو پھیل چکی ہے۔ ساتھ کچھ سوال بھی۔ سیلاب ''بلا‘‘ ہے تو کورونا کیا موج میلہ تھا؟ سیلاب زدہ علاقوں کے علاوہ باقی جگہ خان کے جلسے حرام ہیں۔ کووڈ جو ہزاروں انسان اور پورے ملک کی اکانومی بہا لے گیا‘ اُس کے عروج پر پی ڈی ایم کے جلسے عین حلال تھے کیا؟
تھانوں‘ کچہریوں‘ عدالتوں‘ چھاپوں اور گرفتاریوں کے طوفان میں عمران خان اپنے لوگوں کے درمیان کھڑا ہے۔ پوچھنا یہ تھا‘ وہ وڈیو والی فیکٹری کی مالکن اور اُن کے ابا‘ سندھ میں مرسوں مرسوں کہنے والے نعرہ باز لیڈر‘ ان دنوں سیلابی پانی والے علاقوں میں قدم رکھنے سے کیوں ڈر رہے ہیں؟ لوگوں کو Rasputin والا آخری زارِ روس اور فرانس کی ملکہ یاد ہیں۔ یہ دونوں اُس اشرافیہ کی نمائندگی کرتے تھے جنہیں بھوک کے تڑپائے ہوئے لوگوں میں رتی بھر انقلاب نظر نہ آیا۔ آج بھی سرکاری وسائل پر حفاظتی حصار کی قیدی عیاش اشرافیہ‘ لوگوں کا موڈ پڑھنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ ایک دوسرے کو یہی سمجھاتے ان کی شب بیداریاں گزرتی ہیں۔ Imran will get you۔