"SBA" (space) message & send to 7575

مجرم کون؟

اگلے روز اسلام آباد میں پاکستان عوامی تحریک کے سیمینار سے Key-Note گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ جس میں ہمارے دوست شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کے فرزند‘ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری میزبان تھے۔ جن کی معاونت ابرار رضا ایڈووکیٹ صدر PAT اسلام آباد اور اظہر محمود اعوان صدر PAT راولپنڈی نے کی۔ ''پاکستان کا سیاسی بحران اور اس کا حل‘‘ اس سیمینار کا فُوڈ فار تھاٹ تھا۔ پی ڈی ایم حکومت کے علاوہ مختلف سیاسی و مذہبی شخصیات اور پیر صاحبان شریک ہوئے۔ ڈھائی‘ تین ہزار کا مجمع تھا جس میں منظم طریقے سے ایک سائیڈ پر خواتین اور دوسری طرف مرد حضرات براجمان ہوئے۔
عوامی تحریک کے اس بھرپور اجتماع میں ماڈل ٹائون قتلِ عام کے زخم اب بھی ہرے نظر آتے رہے۔ قانونِ فطرت یہ ہے کہ جب تک ملزم کیفرِ کردار تک نہ پہنچے۔ تب تلک مظلوم فریق کی آہیں‘ سسکیاں اور درد بھرے نوحے یہ زخم کریدتے رہتے ہیں۔ اسی ماحول میں میری گزارشات کا نقطہ آغاز یوں تھا کہ ملک میں سہ جہتی بحران ہے۔ ایسا شدید بحران جس نے ہر طرف ہیجان پیدا کر رکھا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں ایسا ہماری تاریخ میں پہلے کبھی نہ ہوا۔
پہلا بحران آئینی ہے۔ 1973ء کا آئین اسلامی ہے‘ جمہوری ہے‘ وفاقی ہے مگر اس قدر غیر مؤثر اور کمزور کہ اپنے تخلیقِ کار کو عدالتی قتل سے بھی نہ بچا سکا۔ اس پاکستانی آئین کی ساری جمہوری اور پارلیمانی شقوں پر امریکہ کا سائیفر بھاری ہے۔ ریاست کے اندر اشرافیہ اور مافیا دونوں نے اپنی اپنی ریاستیں بنا رکھی ہیں۔ آئین ان ریاستوں میں موم کی گڑیا جبکہ طاقتور کے ہاتھوں میں محض پُتلی تماشاکے لیے رہ جاتا ہے۔ ریاست‘ پولیس سٹیٹ بن چکی ہے۔ کمزور کے گھر میں راشن ہے نہ ہی اُمید کا کوئی دِیا روشن۔ سیاسی بحران توہینِ آئین سے شروع ہوتا ہے‘ اسے احترامِ آئین سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے‘ کسی اور راستے سے ہرگز نہیں۔ ہر زور آور پر جب تک آئین و قانون حاوی نہیں ہو جائے گا تب تک سلطنت ڈانواں ڈول رہے گی۔
دوسرا بحران:
قدرتی آفت‘ سیلاب کا ہے جو ہر عشرے میں ایک دو بار آ کر لاکھوں گھرانے‘ کروڑوں مویشی‘ چرند پرند‘ ان گنت جھونپڑے‘ گھروندے‘ لاکھوں میل سڑکیں‘ گلیاں‘ راستے‘ تاراج کرکے گزر جاتا ہے۔ پچھلے 40‘45 سال میں سیلاب Contain کرنے کے لیے نہ ہم نے پانی کے ذخیرے بنائے نہ IRSA (Indus River System Authority)کو قومی ضرورتوں کے مطابق منظم کیا گیا۔ بس ہمارا ردِ عمل یا ہیجانی ہوتا ہے یا ایمانی۔ اسی کو انگریزی محاورہ Knee-jerk reaction کہتے ہیں۔
ہمارے ملک کے ماتھے پر 2010ء کے سیلاب کے دوران بے ایمانی کے تین بڑے داغ لگائے گئے۔ وہ بھی عالمی سطح پر‘ جن کی بازگشت آج بھی ہمارا پیچھا کررہی ہے۔
پہلا داغ ترکی کے صدر طیب اردوان کی اہلیہ Emine Erdogan کے جذبۂ ایثار پر لگا۔ فرسٹ لیڈی آف تُرکیہ سیلاب کے متاثرین کے غم میں اس قدر ڈوبیں کہ انہوں نے اپنا ہار اتار کر سیلاب زدگان کو عطیہ کر دیا۔ اس ہار کی قدر و قیمت بڑھانے میں گڈ گورننس نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس لیے یہ ہار سابقہ پاکستانی خاتونِ اوّل کے گلے سے اتار کر برآمد کرنا پڑا۔
دوسرا داغِ ندامت ہالی ووڈ کی معروف اداکارہ اور اقوام متحدہ کی ایمبیسیڈر انجلینا جولی کے دورے نے لگایا۔ انجلینا جولی ان دنوں ایک بار پھر پاکستانی سیلاب کے حوالے سے خبروں میں اِن ہیں۔
ایسا لگتا ہے جیسے جُولی اور ہماری گورننس کا چولی دامن والا ساتھ ہے۔ ایک سیاسی خاتون نے سیلابی متاثرین کے لیے 65 گاڑیوں کے پروٹوکول والا دورہ کیا۔ سوشل میڈیا نے جُولی والی چولی پہچان کر خوب مذاق کیا جبکہ سیلاب سے اُجڑے ہوئے لوگوں کو ایک فوٹو شوٹ کی ماڈلنگ کے علاوہ کچھ نہ ملا۔
انجلینا جولی نے ہماری سیلابی یادداشتوں کے بارے میں لکھا: میں پاکستانی وزیروں کے قیمتی لباس دیکھ کر حیران رہ گئی۔ کھانے کی میز پر جتنی بڑی تعداد میں کھانے لگوائے گئے تھے اس نے مجھے پریشانی کے سمندر میں غرق کر دیا۔ انجلینا جولی کو بتایا گیا کہ اس وقت کے وزیراعظم کی فیملی ساؤتھ پنجاب سے سرکاری جیٹ طیارے پر اس کا استقبال کرنے آ رہی ہے۔ جُولی سخت صدمے میں واپس گئی۔ کہتی ہے جس قوم کو سیلاب نے گھیر رکھا ہے۔ اس کے نیتا‘ متاثرین کے ساتھ کس قدر مخلص اور نیک نیت ہیں۔
تیسرا بحران:
پاکستان میں 12سال پہلے آنے والا سیلاب مدر آف آل کرائسس بن کر سامنے آیا۔ کرائسس آف کریکٹر اینڈ کانفیڈنس‘ جس کے نتیجے میں سیلاب کے مارے ہوئے لوگوں کے لیے آنے والی غیر ملکی امداد کھلے عام بازاروں میں فروخت ہوئی۔ دریائے سندھ کے کنارے بڑے زمینداروں نے اپنی فصلیں بچانے کے لیے اپنے ہم وطن انسانوں اور ان کے گھرانوں پر حفاظتی بند توڑ کر سیلاب چھوڑ دیا۔
بعض بین الاقوامی اداروں نے جو امداد دی تھی اس پر بھی یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ وہ عام عوام کی جھولی میں جانے کے بجائے خاص خاص پاکٹ ماروں کی جیب میں چلی گئی۔
اس تناظر میں حالیہ سیلاب کے آثار جون‘ جولائی میں نظر آنا شروع ہو گئے تھے۔ متعلقہ ماہرین بھی حد سے زیادہ بارشوں کی وعید سنا چکے تھے لیکن حکمران پاور پلے میں مصروف رہے۔ اربوں روپے لگا کر اشتہار بازی کی۔ پروپیگنڈا ویڈیوز اتنی چلیں کہ جتنے ٹینٹ بھی متاثرین تک نہ پہنچ سکے۔ ابھی کرائسس اینڈ کانفیڈنس کا اوپر ذکر آیا تھا۔ جس میں اضافے کا عالم یہ ہے کہ کہتے ہیں‘ ہمارا ایک سب سے قریبی دوست جو شہد جتنا میٹھا اور اس کے برادرانہ ارادے ہمالیہ سے بلند تھے‘ ہمیں امداد دینے سے گریزاں ہے۔
اس نئے زمانے کے‘ آدمی ادھورے ہیں
صورتیں تو ملتی ہیں‘ سیرتیں نہیں ملتیں
پہچانئے! مجرم کون۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں