گزرے جمعہ کے روز شہرِ اقتدار میں میری تین اہم ملاقاتیں ہوئیں۔ پہلی ملاقات غاصب سکیورٹی سٹیٹ اسرائیل کے خلاف بیت المقدس کی آزادی کی جنگ لڑنے والے فلسطینیوں کے سفارت خانے میں تھی‘ جس تک پہنچنے کے لیے اسلام آباد کے ریڈ زون کے اندر مزید ریڈ زون میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ سفیرِ فلسطین سے ملاقات کا وقت صبح 10بجے مقرر تھا۔ میں 15منٹ پہلے ڈپلومیٹک انکلیو کے پریزیڈنسی گیٹ کی طرف سے پہنچ گیا۔ جہاں تعینات اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں نے کہا کہ سر آپ کو 15منٹ رکنا پڑے گا کیونکہ آپ کی ملاقات کا وقت 10بجے طے ہے۔ اس سے پہلے ہم آپ کو اِنٹری کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اتنے میں ایک سینئر سکیورٹی اہلکار میری طرف آگیا۔ علیک سلیک ہوئی اور میں نے اس سے پوچھا کہ یہاں سے فلسطین ایمبیسی تک پہنچنے میں کتنا ٹائم لگے گا؟ جواب ملا یہی کوئی 8‘ 10منٹ۔ پھر اہلکار ہنسنا شروع ہو گیا اور کہنے لگا سر آپ کو پتہ ہے آج کے دن ہمیں لوگوں کو روکنے کا آرڈر ملا ہوا ہے۔ تھوڑی دور جا کر اس نے کسی سے کھُسر پھُسر کی اور انکلیو کے اندر لے جانے والے راستے کا بیریئر کھول دیا۔ یہاں سے ہم 1970-80ء کے عشرے والے قائداعظم یونیورسٹی کیمپس روڈ پر مڑے۔ یہ راستہ اب یونیورسٹی کیمپس جانے والے طالب علموں اور اساتذہ کے لیے بند ہو چکا ہے۔ بھول بھلیوں سے گزر کر بری امام درگاہ کے جنوبی طرف ڈپلو میٹک انکلیو ایکسٹینشن پہنچے جہاں پہ عراقی ایمبیسی اور فلسطین ایمبیسی ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ ان دونوں ملکوں کے قومی پر چم بھی آپس میں خاصی مماثلت رکھتے ہیں۔ مین دروازے پر ایمبسیڈر جناب احمد الجواد ربیعی ہیڈ آف مشن اور دیگر عملے کے ساتھ تپاک سے ملے۔ بورڈ روم کے وسط میں دو بڑے پرچم آویزاں تھے۔ سفیر کی کرسی کے پیچھے فلسطینی پرچم اور میرے لیے لگائی گئی چیئر کے پیچھے اُسی سائز کا پرچمِ ستارہ وہلال تھا۔
آج کا وکالت نامہ فلسطین اسرائیل جنگ کے دسویں روز آپ کے ہاتھ میں پہنچا۔ آج فلسطینی سفارت خانے کے ڈپٹی ہیڈ جناب نادر کے الترک نے اسرائیل سرکار کے بڑے ترجمان صہیونی ٹی وی چینل 13کی ایک رپورٹ بھجوائی ہے جو اس چینل نے تازہ اسرائیل فلسطین جنگ کا نتیجہ کے عنوان سے نشر کی۔ آئیے پہلے اس کا لفظ بہ لفظ اردو ورژن پڑھ لیں۔
''اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ غزہ کا وجود دنیا کے نقشے پر کبھی تھا ہی نہیں‘ تب بھی ہم غزہ کے لڑاکوں کے خلاف موجودہ جنگ شروع دن سے ہارنا شروع ہو گئے تھے۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کے حصے میں صرف ایک فتح آئی ہے۔ وہ ہے Coalition war Government۔ دوسری جانب غزہ کے نوجوان یہ جنگ پہلے روز سے جیتتے چلے جا رہے ہیں۔ غزہ کے نوجوانوں نے ہماری معیشت برباد کر دی۔ ہماری بے شمار لاشیں گرائیں اور ہزاروں اسرائیلیوں کو زخموں سے چور کر دیا۔ فلسطینی نوجوانوں نے اسرائیل میں داخل ہو کر کرفیو نافذ کیا‘ ہمارے ہوائی اڈے بند کر ڈالے۔ اسرائیل کے شہریوں کو اغوا کرکے جنگی قیدی بنا لیا۔ وہ بھی اس قدر آسانی کے ساتھ کہ جیسے غزہ کے لڑاکا سیر و سیاحت کے ٹرپ پر آئے ہوئے ہوں۔ غزہ کے لڑاکے اسرائیل میں اس طرح سے گھس آئے جیسا کہ وہ وڈیو گیم کھیل رہے ہیں۔ ان کو اسرائیل کی گلیوں اور راستوں کا اسرائیلی آباد کاروں سے زیادہ اچھی طرح پتہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ وہ بھاری رقمیں کہاں گئیں جو اسرائیلی فوج تنخواہ میں لیتی ہے؟ اگلا سوال یہ ہے کہ اسرائیلی فوجی اتنی زیادہ تنخواہیں کیوں وصول کر رہے ہیں؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کہاں گئی وہ مہنگی ٹیکنالوجی اور سب سے مہنگے جنگی ہتھیار جن کا شور مچایا جاتا تھا؟ اسرائیل کے لیے بہتر یہ ہے کہ جنگی قیدی اسرائیلی جرنیلوں کو غزہ میں قید چھوڑ دیا جائے کیونکہ وہ ہماری فوج کے لیے شرم اور ذلت کا چلتا پھرتا ثبوت ہیں۔ اسرائیلیوں کو اپنے قیام سے لے کر آج تک اس طرح کی عبرتناک شکست کبھی نہیں ہوئی۔ آج بھی روزانہ راکٹ کے حملے بڑھتے جا رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر اسرائیلی ڈیفنس فورس (IDF) کے فوجی پہلے سے زیادہ مارے جا رہے ہیں۔ اسرائیلی حکومت بتائے کہ فلسطینی لڑاکے غزہ سے اٹھ کر Negevاور Ashdodکے شہروں پر موٹر سائیکلوں کے ذریعے پہنچنے کے بعد کس طرح قابض ہوئے۔ اسرائیلی فوج کا غزہ بریگیڈ کہاں مر گیا۔ ہماری ایلیٹ فورسز کہاں گم ہیں۔ غزہ کے لڑاکے اسرائیل میں پیرا شوٹ کے ذریعے سے لینڈ کرتے رہے اور ہماری ایجنسیوں کو پتہ تک نہ لگا۔ IDFجواب دے کہ غزہ کے نوجوان کس طریقے سے ہمارے سکیورٹی سسٹم میں داخل ہوئے اور ہمارے سکیورٹی کوڈ کس طریقے سے ان نوجوانوں نے ہیک کر لیے؟ ہم سب کو اس ساری شکست پر شرم آنی چاہیے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سویلین فلسطینی آبادی کو قتل کرنے سے کوئی فتح حاصل نہیں ہو گی۔ غزہ کے جنوب سے شہری انخلا کر جائیں مگر وہ نوجوان جن کے خاندان اس جنگ کی آگ میں جل گئے‘ ہر حال میں اپنی سرزمین کو آزاد کروا لیں گے۔ آج وہ صرف بدلا لینے کے لیے اسرائیل میں داخل ہوئے۔ ہمیں یہ قیمت لازماً ادا کرنی ہے۔ یاد رکھوکہ اس جنگ میں دنیا کے سارے ملک بھی اسرائیل کو سپورٹ کرنا شروع کر دیں تب بھی وہ ہماری شکست اور فلسطینیوں کی فتح کا راستہ نہیں روک سکتے جس کی ایک ہی وجہ ہے۔ اسرائیلی چینل 13کی رپورٹ کا آخری جملہ یہ ہے۔ These Palestinian fighters love death as much as we love life‘‘۔
یہ ایک رپورٹ شیئر ہونے کے بعد میں نے کچھ دوسرے عربی ذرائع ابلاغ دیکھے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل چو مُکھی لڑائی کے بھنور میں پھنستا جا رہا ہے۔ غزہ‘ اسرائیل جنگ کے نویں دن پر اسرائیل پہ لبنان کی حزب اللہ نے بھی حملے شروع کر دیے ہیں۔ کچھ لڑاکے شام سے اسرائیل میں داخل ہونے کی خبر ملنے پر اسرائیل نے شام کے اندر ہوائی اڈّے پر ایئر اٹیک کیا۔ گولان کی پہاڑیاں مارٹر گولوں کے دھویں سے بھری ہوئی ہیں۔ اس علاقے میں اسرائیل کے ٹینک اور Humveeآگ میں جلتی ہوئی سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ امریکہ کے سیکریٹری خارجہ سمیت دو عسکری بڑے بھی مڈل ایسٹ میں موجود ہیں۔ برطانیہ کا وزیر دفاع بھی یہیں ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس اور یورپ کے کئی ملکوں کی وار انڈسٹری کے سی ای اوبھی اسرائیل میں ہیں۔
فارن منسٹرز کے اجلاس میں کئی وزرا خارجہ نے کھل کر کہا کہ ایک سال سے زیادہ کے عرصے میں ہم یوکرین جنگ لڑ لڑ کر تھک چکے ہیں۔ امریکی اور برطانوی وار انڈسٹری ہمیں نئی جنگ میں دھکیل رہی ہے۔ مصر نے غزہ سے امریکی شہریوں کو نکالنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس دلیری کی سیسی حکومت سے توقع نہ تھی۔ مصر ڈٹا ہوا ہے کہ پہلے انسانی امداد اور خوراک کا کوریڈور بنے گا۔ جب خوراک اور دوائیں غزہ میں پہنچیں گی تب ہم امریکی شہریوں کو مصری سرزمین سے نکلنے کی راہداری دیں گے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اسلام آباد کا ذکر کہاں گیا۔ یہ شہرِ اقتدار ہمارا ہے‘ القدس بھی ہمارا ہے۔ اس شہر میں القدس یکجہتی کی ریلی نکالنے کے الزام میں پاکستان تحریک انصاف کے مظاہرین گرفتار کیے گئے۔ کوئی بتائے کہ اسلام آباد آخر کھڑا کس کے ساتھ ہے؟ شورش کاشمیری نے مسلمان کے عنوان سے سانحۂ کربلا پہ نوحا لکھا‘ مطلع یہ تھا:
سوچتا ہوں کہ اُسی قوم کے وارث ہم ہیں
جس نے اولادِ پیمبر کا تماشا دیکھا