یہ صدیوں پرانے ماضیٔ بعید کے کل کی داستانِ رفتگاں نہیں‘ بلکہ آج کی زمینی حقیقت پر مبنی دو منہ بولتے فیصلے ہیں۔ ایسے فیصلے جن سے دونوں سپریم کورٹ اور اُن کی ورکنگ عیاں ہوتی ہے۔
چلیے پہلے اپنی بات کر لیتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے آج سے 44 سال قبل عدالتی انصاف کی تاریخ میں پہلی بار Murder of Trial کو نظریۂ ضرورت کے تحت جوڈیشل کَور دیا تھا۔ حوالے کے لیے PLD1979 سپریم کورٹ صفحہ نمبر 53 پڑھ لیں۔ آج سے تقریباً 12سال پہلے جب میں وفاقی وزیرِ قانون بنا تو میرے سامنے پانچ بڑے مقاصد تھے۔ پہلا مقصد خطۂ پوٹھوہار میں علیحدہ ہائی کورٹ قائم کرنا تھا۔ الحمدللہ جو آج اسلام آباد ہائیکورٹ کی شکل میں موجود ہے۔ دوسرا مقصد ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنز کو انصاف تک رسائی کے پروگرام سے منسلک کرنا تھا۔ اس کے لیے میں نے پہلے لیگل پریکٹیشنرز اور بار کونسل ایکٹ میں ترمیم کرائی۔ پھر پاکستان بھر کی بار ایسوسی ایشنز میں خود پہنچا اور موقع پر مسائل حل کرائے۔ مجھ سے پہلے اور بعد میں منسٹری آف لاء اینڈ جسٹس‘ پاک سیکرٹریٹ کے ''S‘‘ بلاک تک محدود رہی۔ وکیلوں اور ججز کی یہ منسٹری‘ میں بیوروکریٹس زون سے اٹھا کر بار ایسوسی ایشن میں ان کے گھر لے گیا۔ تیسرا نشانِ منزل 18ویں آئینی ترمیم تھا۔ چوتھا مقصد اسلام آباد میں دو اضلاع کا قیام‘ ان کے لیے علیحدہ علیحدہ جوڈیشل سسٹم اور سیشن جج کے نیچے پورا ضلعی نظامِ عدل بنانا تھا‘ جو بنایا بھی اور آج کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ پانچواں مقصد ضیا دور کی مارشل لاء زدہ عدلیہ کے عدالتی مقتول ذوالفقار علی بھٹو کو بعد از مرگ انصاف دلانا تھا۔ جس کے لیے میں نے وزیرِ قانون کی حیثیت سے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا۔ جس کی پہلی سماعت فُل کورٹ نے کی۔ اس موقع پر میں نے وزارتِ قانون سے بنچ نمبر ایک کے سامنے کھڑا ہو کر استعفیٰ دے دیا۔ میرے لیے ملکی تاریخ کے اس بے رحم فیصلے کو بدلنا وزیرِ قانون والے پروٹوکول سے بڑا مقصد تھا‘ وہ مقصد‘ جو میرے استعفے کے 12 سال بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے چیف جسٹس بننے کے بعد پورا ہوا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے نہ صرف بھٹو ریفرنس کی سماعت کے لیے لارجر بینچ بنا کر اسے سماعت کے لیے مقرر کیا بلکہ فاسٹ ٹریک پر بھٹو ریفرنس کی سماعت مکمل کرکے شارٹ آرڈر کے ذریعے اس ناانصافی کو کھلی بے انصافی بھی کہا۔
بھٹو ریفرنس کا فیصلہ بدھ کے روز آیا۔ اُس سے پچھلی رات پاکستان بار کونسل نے جسٹس سردار طارق مسعود کے اعزاز میں الوداعی عشائیہ دیا جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مجھ سے پوچھا کہ آپ بھٹو ریفرنس میں کیوں پیش نہیں ہوئے۔ اس سے پہلے وہ کھلی عدالتی سماعت میں بھی ایسے ہی ریمارکس دے چکے تھے۔ میں اس نجی گفتگو کو پبلک نہیں کر سکتا لیکن اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ سپریم کورٹ سے بھٹو ریفرنس کے شارٹ آرڈر‘ مورخہ 4 مارچ 2024ء میں چونکا دینے والا انکشاف ہوا ہے جس کے آخری پیراگراف میں سوال نمبر چار کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ سوال پاکستان کے کرمنل جسٹس سسٹم میں بنیادی ریفارم لانے کے لیے اُٹھایا گیا تھا۔ سوال اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے تناظر میں تھا لیکن اس کا اصل حوالہ آئین کے آرٹیکل 227 سے تعلق رکھتا ہے۔ جس میں قرآن و سنت کو قانون کا سب سے بڑا مآخذ اور قانون و انصاف کا بنیادی جُز قرار دلوانا تھا۔ سپریم کورٹ نے مختصر حکم میں یہ سوال ان لفظوں میں کوٹ کیا:
Question (4): Whether the decision in the case of murder trial against Shaheed Zulfikar Ali Bhutto fulfils the requirements of Islamic laws as codified in the Holy Quran and the Sunnah of the Holy Prophet (SAW)? If so, whether present case is covered by doctrine of repentance specifically mentioned in the following Suras of Holy Quran: (a) Sura Al-Nisa, verses 17 and 18; Sura Al-Baqarah, verses 159, 160 and 222; Sura Al-Maida, verse 39; Sura Al-Aaraaf, verse 153; Sura Al-Nahl, verse 119; Sura Al-Taha, verse 82; as well as (b) Sunan Ibn-e-Maaja, Chapter 171, Hadith No 395.
What are effects and consequences of doctrine - Re: Repentance.
سوال نمبر چار میں نقطہ یہ اُٹھایا گیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں قرآن و سنت کے قوانین میں موجود انصاف کے سٹینڈرڈ کو مدنظر رکھا گیا تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ قرآن کریم میں انصاف اور میزان قائم رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ ساتھ ساتھ نبی آخرالزماں حضرت محمدﷺ نے اس نظامِ انصاف کو عملاً نافذ کرنے کے لیے راستے استوار کر دیے۔
ہمارا دستور پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیتا ہے۔ اتنے بڑے مقدمے کی ہائی پروفائل سماعت میں سوال نمبر چار ہمارے آج کے حالات کے اعتبار سے سب سے اہم سوال تھا۔ المیہ یہ ہوا کہ اس سوال کا جواب ہی نہیں دیا گیا۔ آپ یقینا جاننا چاہیں گے کہ بھٹو ریفرنس کے شارٹ آرڈر کے مطابق اس سوال کے جواب میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنی رائے کیوں نہیں دی۔ اس سوال میں واضح طور پر پوچھا گیا تھا کہ اگر بھٹو کے خلاف قتل کے الزام میں سزا دینے کے لیے اسلامی کریمنل جسٹس سسٹم کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔ اس کی وجہ سپریم کورٹ نے مختصر حکم نامے میں ان لفظوں میں بیان کر چھوڑی ہے؛
Opinion, We were not rendered any assistance on this question, therefore, it would be inappropriate to render an opinion.
آپ نے سپریم کورٹ کے شارٹ آرڈر میں جواب پڑھ لیا ہے کہ متعلقہ وکلا اور عدالتی معاونین نے بھٹو ریفرنس کی سماعت کرنے والے بینچ کی اس حوالے سے سرے سے کوئی معاونت کی ہی نہیں۔ اس طرف پھر آئیں گے۔
اب چلیے دوسری سپریم کورٹ کے دوسرے فیصلے کی طرف۔ یہ فیصلہ امریکی سپریم کورٹ نے 4 مارچ 2024ء کے روز جاری کیا۔ یہ امریکہ کی تاریخ کا ایسا مقدمہ تھا جس میں پنٹاگون کی اسٹیبلشمنٹ‘ امریکن میگا میڈیا ہاؤسز‘ صدر بائیڈن ایڈمنسٹریشن‘ وائٹ ہاؤس‘ کیپٹل ہِل‘ نکی ہیلی سمیت نجانے کون کون تھا۔ دوسری جانب ایک اکیلا ڈونلڈ جے ٹرمپ۔ امریکی کیپٹل ہِل کا بہانہ گھڑ کر ڈونلڈ جے ٹرمپ کے خلاف امریکہ کی تین مختلف ریاستوں میں بڑے دلچسپ مقدمے دائر کیے گئے۔ جن میں عجیب و غریب ریلیف مانگا گیا۔(جاری)