76 سالہ تاریخ کی بات رہنے دیتے ہیں‘ وہ تو طے ہو چکا کہ ہماری ایلیٹ مافیا تاریخ کا سبق سیکھنے سے انکاری ہے‘ پوری مستقل مزاجی کے ساتھ‘ لیکن سبق سکھانے کے لیے مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں۔ آئیے تازہ ترین کی طرف چلیں اور پہلے جم خانہ مال روڈ لاہور سے واہگہ بارڈر تک کا تقریباً 23کلو میٹر سفر طے کرتے ہیں۔ ہماری سرحدِ آزادی کی دوسری جانب بغیر کسی عالمی شور شرابے کے اور بلا احتجاج معلوم انسانی تاریخ کے سب سے بڑے الیکشن کا عمل جاری ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ذرا دیکھ لیجیے کہ انڈین الیکشن کا یہ مرحلہ وار پروسیجر ہے کیا‘ جسے الیکشن کمیشن آف انڈیا نے پول ایونٹس کے فیز کا نام دیا ہے۔
انڈین پول ایونٹ کا پہلا مرحلہ: 2024ء کے بھارتی الیکشن کے کل سات فیز ہیں جن میں سے پولنگ کا پہلا فیز 20 مارچ کو شروع ہوا۔ 28مارچ کو دوسرا‘ 12 اپریل کو تیسرا‘ 18 اپریل کو چوتھا‘26 اپریل کو پانچواں‘ 29 اپریل کو چھٹا اور 7 مئی 2024ء کو ساتواں اور دنیا کے سب سے بڑے الیکشن کا آخری فیز شروع ہوا ہے جو اَب تک جاری ہے۔
انڈین پول ایونٹ کا دوسرا مرحلہ: اس پول ایونٹ کا دوسرا مرحلہ کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے کا مرحلہ تھا۔ ہمارے ہاں اس مرحلے کے لیے مشکل سے ڈیڑھ دن دیا گیا جس میں 25کروڑ عوام میں سے الیکشن امیدوار درجنوں لمبے سوالوں پر مشتمل غیرضروری تفصیلات والے کاغذاتِ نامزدگی داخل کروائیں۔ اس سازشی مشق کا مقصد سب سے بڑی انتخابی پارٹی کو الیکشن سے باہر رکھنا تھا۔ اس کے مقابلے میں الیکشن کمیشن آف انڈیا نے اوپر درج سات نوٹیفیکیشنز میں سے پہلے مرحلے کے لیے 27 مارچ یعنی آٹھ دن مقرر کیے۔ جس کے بعد باقی چھ مراحل کے لیے بھی آٹھ‘ آٹھ مکمل دن یعنی 14مئی تک لوک سبھا کے امیدواروں کو کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے کا معقول وقت اور موقع دیا گیا۔
انڈین پول ایونٹ کا تیسرا مرحلہ: پولنگ ایونٹ کے تیسرے مرحلے میں ہر مرحلے کے لیے علیحدہ سے کاغذاتِ نامزدگی کی سکروٹنی کا ایک دن یعنی 24 گھنٹے مقرر کیے گئے۔ چوتھے مرحلے میں 30مارچ سے شروع کرکے 17مئی تک ساتویں پول ایونٹ فیز کے لیے علیحدہ علیحدہ مکمل دن مقرر کیا گیا۔ یہ ساری مشق ڈیٹ آف پول یعنی انتخابات کے انعقاد کی تاریخ پر جا کر ختم ہوئی۔ جو پہلے مرحلے کے لیے 19اپریل مقرر تھی اور ساتویں مرحلے کے لیے یکم جون 2024ء کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ ہمارے جیسے انتخابات منعقد کرانے والے افراد اور اداروں کو یہ سن کر اپنے اپنے گربیان میں جھانکنا چاہیے کہ آج 24 مئی کی تاریخ آچکی ہے اور ہمسایہ ملک میں جہاں جہاں الیکشن ہوئے ہیں‘ وہاں سے کسی پولنگ افسر‘ کھلے ہاتھ یا کسی خفیہ ہاتھ کی طرف سے عوام کی رائے کو تبدیل کرنے‘ دھاندلی‘ دھونس‘ ریاست کی طاقت استعمال کرنے کی شکایت نہیں کی گئی۔ الیکشن کے اس سب سے بڑے گلوبل ایونٹ کی پہلی ووٹنگ بھارتی لوک سبھا کے 101 حلقوں میں 19 اپریل کو مکمل ہو چکی۔ لوک سبھا کے باقی حلقوں میں یکم جون کو ووٹنگ کا پراسیس ختم ہو جائے گا۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کا کہنا ہے کہ انڈین لوک سبھا کی 543 نشستوں والی اسمبلی میں 97 کروڑ ووٹر ووٹ ڈال سکیں گے۔اس وقت بھارت میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد ایک ارب چار کروڑ سے زیادہ ہے۔
انڈین پول ایونٹ کے اگلے مرحلے پر ایک دفعہ پھر پاکستانی الیکشن کرانے والوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت پڑے گی۔ یہ ''گریبان جھانک‘‘ مرحلہ دنیا کے سب سے بڑے الیکشن پر سامنے آیا‘ جہاں پہ پہلے پولنگ فیز کو ایک مہینے سے زیادہ دن گزر چکے ہیں۔ پوری دنیا میں کسی بڑے سے بڑے نیوز ٹی وی چینل یا رائے عامہ کو متاثر کرنے والے بڑے اخبار؍ میگزین کو یہ جرأت تک نہیں ہوئی کہ وہ صرف ایک ایگزٹ پول شائع کر دے۔ ہر وقت شور مچانے والوں کو پڑوس سے سیکھنا چاہیے کہ ادارے ہوتے کیا ہیں؟ قوم کو آزاد اور مختار ہونے کی امید‘ یقین اور عملی احساس صرف ادارے دلاتے ہیں۔ اگلی چند باتیں بھی سیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ جن میں سے پہلی یہ کہ ساری بھارتی ریاستوں میں پولنگ مکمل ہونے کے بعد لوگ گنتی کا عمل شروع کرنے کے لیے چار جون تک انتظار کرتے رہیں گے۔ پھر الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر ڈالے گئے ووٹ امیدواروں‘ اُن کے نمائندوں اور میڈیا کی موجودگی میں گنے جائیں گے اور ہر پولنگ سٹیشن کا نتیجہ سامنے آجائے گا۔ نہ کوئی عبوری گنتی کا قضیہ ہے اور نہ ہی حتمی گنتی کا دھاندلا‘ جس کے ذریعے گنتی کے ہیر پھیر میں عوام کو شکست دی جاتی ہے۔ بھارت میں 1950ء سے لے کر 1989ء تک الیکشن کمیشن صرف ایک رکنی چیف الیکشن کمشنرپر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ سال 1989ء میں الیکشن کمیشن میں دو اراکین کا اضافہ کر دیا گیا۔ ان تین حضرات کے نیچے بھارت کی ریاستوں میں چیف الیکٹرول آفیسر انتخابی عمل منعقد کراتے ہیں۔ بھارت کے انتخابات میں کبھی الیکشن سے غیرمتعلقہ کسی ادارے نے پولنگ سٹیشن پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اسی لیے عام لوگ انتخابی عمل پر یقین کرتے ہیں اور سیاسی جماعتیں انتخابی عمل کو تسلیم کرتی ہیں۔
عام لوگوں کے اعتماد کے ذکر سے بھارت کا دھیرو بھائی یاد آتا ہے۔ دھیرو بھائی گجرات کے انتہائی خستہ حال اور غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ تعلیمی میدان میں میٹرک تک بھی نہ پہنچ سکا۔ 16 سال کی عمر میں دھیرو گجرات کی بندرگاہ سے یمن کی بندرگاہ عدن پر پٹرول بیچنے والے پمپ پہ ملازم ہو گیا۔ دھیرو بھائی کے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ ان میں سے ایک بیٹا مُکیش امبانی ہے‘ جس کا شمار آج دنیا کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے جبکہ دوسرے بیٹے کا نام انیل امبانی ہے‘ جس کو کاروبار میں دیوالیہ پن کا سامنا کرنا پڑا۔ دھیرو بھائی نے 24 سال کی عمر میں عدن سے واپس آکر دن رات کی محنت سے جو کچھ کمایا تھا وہ سب بھارت کے اندر ریلائنس کمپنی میں لگا دیا۔ ذرا اپنے ہاں نظر ڈالیں‘ جن کو بار بار اقتدار پر گھسیٹ کر بٹھایا جاتا ہے وہ دبئی تو کیا برطانیہ‘ بلجیم‘ فرانس اور امریکہ میں بھی جائیدادیں رکھتے ہیں۔ جو جائیدادیں عہدوں پر آکر بنائی گئیں اور ان کو بچانے کے لیے اپنی پارٹنر شپ پکی کرکے پھر اقتدارمیں بیٹھتے ہیں۔ ہماری کرنسی افغانستان سے پیچھے کیوں ہے؟ ہماری معیشت بھارت کے مقابلے میں صفر اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں پستہ قامت کیوں ہے؟ یہ سب ظاہر ہے۔ ان وجوہات پر دنیا کے بڑے بڑے لکھاریوں نے کتابیں لکھ رکھی ہیں۔ ہماری ساری کی ساری فتوحات اندرونی ہیں۔ غریبوں کی زمینیں‘ بے آسروں کا روزگار‘ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے پلاٹ۔ کیا یہ قوم سازی اور مستقبل سازی کا منصوبہ ہے یا پھر Recipe of Disaster؟