"SBA" (space) message & send to 7575

یہ وطن تمہارا ہے؟ …(1)

وطنِ عزیز میں 76 سال کی فسطائیت‘ مظالم اور ریاستی ملازموں کے مالک بننے کی خواہش نے دو چیزوں میں تفریق ختم کر ڈالی‘ قاتل و مقتول اور محکوم و مخدوم۔ دور نہیں جاتے ہر رنگ کی بیورو کریسی‘ عدلیہ و مقتدرہ کے لیے سات بنیادی ضرورت کی چیزوں کے خرچ کا بوجھ عوام برداشت کرتے ہیں۔ ان میں سب سے بنیادی چیز گھر‘ پھر علاج‘ تیسری بجلی‘ چوتھی گیس‘ پانچویں پٹرول؍ ڈیزل‘ چھٹی ذاتی گاڑی اور ساتویں سفر بالکل مفت ہے۔ لیکن المیہ دیکھیے‘ یہی سات چیزیں پاکستان میں 25 کروڑ عوام کو انتہائی مہنگی بیچی جاتی ہیں۔ اس کے باوجود‘ جو اِن سات چیزوں کے علاوہ تنخواہ‘ پنشن‘ TADA اور لاتعداد سہولتیں‘ بے شمار مراعات لیتے ہیں‘ اُن کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ عوام کے خادم ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگوں کو بے وقوف سمجھ کر اپنے آپ کو عوام کا خادم کہنے والے آپس میں کہتے ہوں‘ خادم نہیں کھا... ہر دم۔ آپ جس مارکیٹ میں جائیں یا ہر چوک چوراہے پر تیسری چوتھی گاڑی سرکاری نمبر پلیٹ والی نظر آتی ہے۔ جیپ بھی‘ ٹرک بھی‘ پراڈو بھی اور لگژری V8 بھی۔ آپ کے پٹرول پر چلنے والی‘ عام آدمی کی جیب کاٹ کر خریدی گئی ان سرکاری گاڑیوں میں اکثر ریاست کے نوکروں کے ملازم‘ ان کی فیملی یا ان کے بچے بیٹھے ہوئے ملیں گے ۔ جس وقت وہ ملازم‘ جو سرکاری گاڑی سے اتر کر ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں عوام کے بجٹ سے ٹی بریک کر رہا ہوتا ہے‘ عین اسی وقت یہ گاڑیاں بیوٹی پارلر‘ مین بلیو وارڈز برانچ والے مہنگے کھابہ ہاؤسز کے سامنے نظر آتی ہیں۔ ان ملازموں میں سے اگر کوئی یہ کہے کہ وہ آپ کی خدمت کرتا ہے‘ آپ کی نوکری کرتا ہے‘ اپنا وقت اور آپ کا سرمایہ ''قومی امور‘‘ پر لگاتا ہے تو پہلے آپ قہقہہ ماریں اور پھر جان لیں یہ دوصدیوں کا سب سے بڑا جھوٹ ہے جو آپ سے بولا جاتا ہے۔
اس وقت پاکستانی معیشت گردن تک اور پاکستا ن کے 25 کروڑ عوام ناک تک قرض کی دلدل میں ڈوب چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کا قرض‘ ورلڈ بینک کا قرض‘ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کا قرض‘ تاجِ برطانیہ کا قرض‘ شاہِ سعودیہ کا قرض‘ متحدہ عرب امارات کے امیر کا قرض‘ چین کا قرض‘ بیرونی قرض‘ اندرونی بینکوں کا قرض۔ قرض‘ قرض‘ قرض اور مقروض۔ اس کے باوجود ہمارے لیڈروں کی ہمت ہے کہ وہ نت نئی زبانوں میں خوشامد کا فن سیکھ کر مختلف براعظموں کے لیڈروں سے قرض کی بھیک مانگیں۔ قرض کے اس مرض میں مبتلا بین الاقوامی بھکاری بہت جلد بنگالی‘ سنسکرت اور پشتو اور دری زبان بھی سیکھیں گے تاکہ بنگلہ دیش‘ بھارت اور افغانستان سے قرض مانگا جائے۔ اس سے بھی زیادہ ہمت یا بے شرمی کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم نے کشکول توڑ دیا۔ 76 سال بعد جس ملک کا نظام اور اس کے منیجرز انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے دروازے کے سامنے قطار لگا کر بھیک میں بیل آئوٹ پیکیج مانگتے ہیں‘ وہ قوم کو اس سوال کا جواب ضرور دیں کہ جب اُن کے اپنے مال منال‘ بینک اکائونٹس‘ انویسٹمنٹ اور کاروباری مفادات عرب و عجم کے ملکوں میں ہیں اور پاکستان کے کرپٹ مافیا کو ساری دنیا جانتی اور اچھی طرح سے پہچانتی بھی ہے‘ ایسے میں کون سی حکومت ہے جواس بات کا رسک لے گی کہ جس ملک کے کرسی نشین اپنے ہی ملک میں باہر سے اپنی انویسٹمنٹ نہیں لانا چاہتے‘ وہ آ کر ایسی اکانومی میں انویسٹمنٹ کرے؟ جہاں کے بڑے اپنے ملک میں انویسٹمنٹ کرنے سے ڈرتے ہیں۔
اس Scenario میں دو چشم کشا تفصیلات ایسی ہیں جو ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی رہیں گی۔ اس بات پر کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اس پہ بھی کہ ہم کدھر جا رہے ہیں؟
پہلی تفصیل: ہمیں سعودی عرب کی معیشت کے بارے میں دو پبلک خبروں پر توجہ کرنی ہو گی۔ پہلی خبر کے مطابق نیوم سٹی‘ جسے ڈیزرٹ لائن سٹی بھی کہتے ہیں‘ اس کا دورانیہ محدود کر دیا گیا ہے۔ دوسری رپورٹ کے مطابق اس سال سعودی عرب میں FDI یعنی فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کا حجم سات ارب ڈالر کے قریب بتایا گیا ہے۔ ایسے میں جو سعودی ڈالر ہمارے خزانے میں محض امانت کے طور پر پڑے ہوئے ہیں کیا اُنہیں ہم بیرونی سرمایہ کاری کہہ سکتے ہیں؟
دوسری تفصیل: ہم نے اپنی خود مختاری اور آئینی نظام کا حلیہ بگاڑ کر آئی ایم ایف سے جس بیل آئوٹ پیکیج کی امید لگا رکھی تھی اُ س کے بارے میں شہرِ اقتدار کی خبر یہ ہے کہ صرف اشیائے تعیش پر نہیں بلکہ گوشت اور دھنیے پر بھی 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) لگانے کی ڈیمانڈ کی گئی ہے۔ اس ڈیمانڈ کا اصل مطلب یہ ہوا پاکستان میں کسی طرح کی کوئی معاشی سرگرمی‘ اندونِ ملک بچتیں یا پھر انڈسٹریل گروتھ ایسی نہیں ہے جس کی وجہ سے معیشت کو سہارا دیا جا سکے‘ لہٰذا پاکستان میں بیٹھے ہوئے معاشی ہٹ مین نے ایک دفعہ پھر آئی ایم ایف سے کہا ہے کہ ہم 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس کے ذریعے آپ کوغریبوں کا گلا کاٹنے کا وعدہ کرتے ہیں۔
گلا کاٹنے کا ذکر آیا تو انقلابِ فرانس کے ظہور کا باعث بننے والا بڑا کردار جنرل روہان یاد آیا۔ جنرل روہان کو بادشاہ نے ذمہ داری دی تھی کہ تم انقلابیوں کو کچل ڈالو‘ اس لیے جب یہ آدم خور عام آدمیوں کو پکڑتا تھا تو اُن کی بے بسی کا لطف بھی لیتا تھا۔ قیدی کو موت کے گھاٹ اتارنے لگتا تو عام لوگ زندگی کی بھیک مانگنے لگتے‘ تو وہ کہتا: احتجاج کیوں کرتے ہو؟ لوگ کہتے: دس دن کے بھوکے ہیں‘ اس لیے احتجاج ہم حق سمجھ کرکرتے ہیں۔ جنرل روہان کی کمینگی اُسے روکنے کے بجائے اور آگے بڑھنے پر مجبور کر دیتی اور وہ قیدی کو آگے سے کہتا: پیرس میں بڑی گھاس ہے تم گھاس کیوں نہیں کھاتے؟ انقلابیوں نے جب اُسے کو ڈھونڈ کر گرفتار کیا تو اُسے ہزاروں لوگوں کے سامنے گلوٹین کے پاس کھڑا کیا اور اُس کے آگے گھاس رکھی گئی اور گھاس کھانے پہ مجبور کیا گیا اور پھر اُس کے منہ میں گھاس ٹھونس دی گئی۔ اس کے بعد فرانس کے انقلابیوں نے اپنے دشمن کو گلوٹین پہ لٹایا اور اُس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔ فرانس کے انقلابی نعرہ لگا رہے تھے‘ یہ وطن ہمارا ہے۔ تاریخ آنسو بھری آنکھوں سے یہ منظر دیکھ کر عجیب خوں آشام پیغام دے رہی ہے‘ جسے احمد فراز نے ان لفظوں میں پرویا:
وہ دن بھی آئے کہ صلیب گر بھی صلیب پر ہوں
یہ شہر اک روز پھر سے یوم حساب دیکھے
(جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں