پاکستان کے دستوری نظام میں حاکمیت اعلیٰ اللہ رب العزت کے پاس ہے جبکہ اقتدار کی جنت کی چابی عام آدمی کے ہاتھ میں تھمائی گئی ہے۔ 1973ء کے آئین کا آغاز ہی ان دو اصولوں سے ہوتا ہے۔ پہلا یہ کہ تمام کائنات پر حکمرانی اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے جبکہ پاکستان میں Ultimate Soverign پاکستان کی پبلک ہے‘ ووٹر ہیں‘ خواتین ہیں‘ اقلیتیں ہیں‘ مزدور ہے‘ کسان ہے۔ کوئی سرکاری محکمہ‘ کوئی پبلک سرونٹ ہرگز نہیں۔ آپ ابھی گوگل کریں اور شہری کی حیثیت سے اپنی یہ طاقت ‘جس کی گارنٹی ہمارے دستور کے Preamble یعنی دستور ی اساس اور بنیاد میں تحریری طور پر دی گئی ہے‘ اُسے پڑھ لیں۔ شہریوں کا یہ حقِ اختیار اور ریاستی امور میں مکمل بالادستی ناقابلِ تنسیخ ہے۔ یہ اختیار چھین کر اگر کوئی ماورائے آئین طاقت کے بل بوتے پر مقتدر بننا چاہے تو پاکستان کے لوگو ں کا یہ آئینی حق بنتا ہے کہ وہ اُس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ تاریخِ اسلام کا بنیادی اصول بھی یہی ہے۔ ذوالحج 60 ہجری سے شروع ہونے والی سید الشہدا امام حسینؓ کی تحریک بھی یہی تھی۔ حضرت خواجہ معین الدین حسن اجمیریؒ نے اس تاریخ کو ان الفاظ میں بیان کیا:
سر داد‘ نہ داد دست در دستِ یزید
حقّا کہ بنائے لا الٰہ است حسینؓ
پچھلے ہفتے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے 13 رکنی بڑے بینچ کے گیارہ جج صاحبان نے پاکستان تحریک انصاف کو ایک دستوری سیاسی جماعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ PTI ایک سیاسی پارٹی تھی اور سیاسی پارٹی ہے۔ ساتھ ہی PTI کو اس کے چوری شدہ مینڈیٹ میں سے خواتین اور اقلیت کی سیٹیں واپس کرنے کا حکم جاری کیا۔ فیصلے کے بعد کا منظر نامہ یوں سامنے آیا۔
ماورائے دستور مؤقف کا پہلا بیانیہ: چوری شدہ مینڈیٹ والی فارم 47 رجیم نے سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔ ایک صوبے کی وزیراعلیٰ نے عدلیہ کو دھمکی دی کہ اگر اُنہیں پانچ سال تک اُن کی جعلی حکومت سمیت برداشت نہ کیا گیا تو وہ آہنی ہاتھوں یعنی لوہے کے ہاتھوں سے نمٹیں گی۔ قانون کی وزارت نے بھی فیصلہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس فیصلے کے ذریعے 1973ء کا آئین تبدیل یعنی Re-write کر دیا۔ یادش بخیر! مقتدرہ کی امیدِ پاکستان نواز شریف بھی بول اُٹھے اور کہا کہ ملک کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا۔ سڑک پر پھرتے شخص کو کہا گیا آئو! ہم تمہیں انصاف دیں گے۔ لیکن نواز شریف نے یہ نہیں بتایا کہ لندن والے مے فیئر کی سڑک پر پھرنے والے سزا یافتہ شخص کو کس نے پاکستان بلایا تھا اور اُسے کس نے کہا تھا آئو! ہم تمہیں انصاف دیتے ہیں اور اُس کے سارے مقدمات کس کے کہنے پر ختم ہو گئے اور کس نے اُس کی تاحیات نااہلی کو ہوا میں اُڑا دیا۔
ماورائے دستور مؤقف کا دوسرا بیانیہ: رجیم 47 کے وزیر دفاع نے کہا: ملکی نظام خطرے میں ہے اور ہم اپنی Space کے ایک ایک انچ کی حفاظت کریں گے۔ مگر اُس نے یہ نہیں بتایا کہ 8 فروری کا الیکشن ہارنے کے بعد رجیم47 کو یہ Space دی کس نے ہے؟ اور وہ کون ہے جو اس Space کو اب ختم کرنا چاہتا ہے اور اُس دلبری سے اس دل شکنی کی وجہ کیا ہے؟
ماورائے دستور مؤقف کا تیسرا بیانیہ: شہبازِ اعلیٰ نے انتہا کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی کے دبائو میں نہیں آئیں گے اور سرکاری عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے۔ ساتھ ہی کہا: ہم ٹیکنو کریٹ نظام قبول نہیں کریں گے۔ وہ بھول گئے کہ ان کا امپورٹڈ وزیر خزانہ ٹیکنو کریٹ ہے۔ ان کے قریبی ترین وزیر اور مشیر جو بدعنوانی کے کئی مقدمات میں ان کے شریک جرم رہے‘ وہ سارے سابق سرکاری ملاز م اور پنشن یافتہ ٹیکنو کریٹ ہیں۔ شہباز شریف نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کون ہے جو ان پر دبائو ڈال رہا ہے۔
ان تین نکات کے پیٹ سے فیصلے کے تین دن بعد ایک پرانا کیڑا برآمد ہوا۔ قیدی نمبر 804 نے اڈیالا جیل کی کال کوٹھڑی میں بیٹھ کر Status Quo کے گماشتوں کو پورے 351 دن جو مسلسل پھینٹا لگایا ہے اُس کی ہر بات درست اور ہر قدم صحیح سمت میں ثابت ہوا۔ وہ سمت ہے 24 کروڑ لوگوں کو ایلیٹ مافیا کی گرفت سے حقیقی آزادی دلانے کی۔ عمران خان درست کہتا ہے کہ ایک تو یہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں اور دوسرا یہ سیکھتے بھی نہیں۔
اب یہ بات طے ہو چکی ہے کہ Status Quo کے شکار اپنی قوم کی آزادی کے پچھلے 77 سال‘ جن کے پورا ہونے میں محض 23 دن رہ گئے ہیں‘ کے ناکام تجربے پر شرمندہ ہونے اور کسی ندامت بھری تاریخ سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ پرانے کیڑے کی تازہ انگڑائی میں سے تحریک ِانصاف پر پابندی لگانے کی درباری خواہش سامنے آئی ہے۔
میں نے ہفتے کے دن عمران خان سے ملاقات کی‘ اتوار کو وکالت نامہ لکھ رہا ہوں۔ ایسے میں تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا دور دور تک کوئی نام ونشان نظر نہیں آتا۔ اگرچہ موجودہ غیر نمائندہ نظام عمران خان کو توڑنے اور PTI پر پابندی لگانے کی خواہش میں پہلے بھی کئی بار نشانِ عبرت بنا مگر یہ خواہش کہیں نہ کہیں پھر سر اُٹھاتی ہے۔ اس سعیٔ بے مرام میں عمران خان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے نیچے ایک کینگرو کورٹ سے سائفر سزا سنائی گئی۔ اس سزا کو نظام عدل اور قوم کی بھاری اکثریت نے مسترد کر کے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ سائفر کیس کامطلب عمران خان کو غدار ثابت کرنا تھا۔ اس کیس کے ری ایکشن میں پورا ملک‘ نہ وہ باغی‘ نہ غدار قیدی نمبر 804 کے نعروں سے گونج اٹھا۔ پھر عدت کیس کی شکل میں ایلیٹ مافیا نے تمغۂ ذِلت اپنے گلے میں ڈال لیا۔ خواتین کے حوالے سے معلوم تاریخ میں اس طرح کی بے رحمانہ بے شرمی پر مبنی درخواست بازی پہلے کبھی کسی عدالت نے دیکھی نہ ہی احاطۂ وکالت میں آئی۔
رہا سوال PTI پہ پابندی کی خواہش یا سازش کا‘ تو یہ اندھے کو بھی نظر آ رہا ہے اور دیوانے کی سمجھ میں بھی آ رہا ہے کہ جس جماعت کو سپریم کورٹ نے اس ہفتے ایک باقاعدہ سیاسی جماعت قرار دیا اُس پہ پابندی اتنا ہی بڑا لطیفہ ہے جتنا بڑا نواز شریف کا یہ تازہ بیان کہ لوگ بجلی کا بل نہیں دے سکتے۔ اہلِ پاکستان ویسے تو نہیں کہتے‘ ائوے تُسی کون لوگ او۔ خود مہنگی بجلی کے پروجیکٹ لگاتے ہو‘ از خود بجلی کے بل بڑھاتے جاتے ہو‘ اقتدار میں بھی خود بیٹھے ہو‘ سرکاری خرچ پر چلنے والے گھروں میں بیٹھ کر کہتے ہو لوگ بجلی کا بل نہیں دے سکتے۔ یہ تو مداریوں کے پیٹ پر سیدھی لات ہے۔
کیا جانے کب ساگر اُمڈے‘ کب برکھا آ جائے
بھوک سروں پر منڈلائے‘ منہ کھولے‘ پر پھیلائے
آج ملا سو اپنی پونجی‘ کل کی ہاتھ پرائے
تنی ہوئی بانہوں سے کہہ دو‘ لوچ نہ آنے پائے‘ لوچ نہ آنے پائے