"FBC" (space) message & send to 7575

اختلافِ رائے کو کیسے دیکھا جائے؟

ملکِ عزیز میں آج کل لوگ معزز عدلیہ کے اہم فیصلوں کو گہری دلچسپی سے سنتے اور پڑھتے ہیں۔ موجودہ سنسنی خیز سیاسی حالات میں یہ دلچسپی اور بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ وطنِ عزیز میں اب کسی بڑے مقدمے کا فیصلہ سننے اور پڑھنے کے ساتھ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس مقدمے میں کسی معزز جج نے کیا 'ڈیسنٹنگ‘ (dissenting) رائے دی ہے۔ کسی بھی معزز جج کی اس رائے کو سادہ زبان میں اختلافی رائے کہا جاتا ہے۔ اختلافی رائے سے مراد اکثریتی جج صاحبان کی طرف سے کیے گئے فیصلے کے خلاف رائے رکھنا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے تناظر میں کسی بھی معزز جج کی اختلافِ رائے کی تعریف کیا ہے۔ اختلافِ رائے عدالت میں کسی ایک یا بہت سارے جج صاحبان کے ذریعے دیا جاتا ہے‘ جو عدالت کی اکثریت کی رائے کے خلاف دلائل پر مبنی ہوتا ہے۔ اس اختلافِ رائے کے ذریعے‘ جج صاحبان اپنی دلیل دیتے ہیں کہ وہ کیوں مانتے ہیں کہ اکثریت کی رائے غلط ہے۔ اختلافی رائے‘ اکثریتی رائے یا پھر متفقہ رائے کے متضاد ہوتی ہے۔ اکثریت کی رائے وہ رائے ہوتی ہے جس پر معزز جج صاحبان کی اکثریت کسی خاص فیصلے کے بارے میں متفق ہوتی ہے۔ متفق رائے اکثریتی جج صاحبان کی طرف سے لکھی گئی رائے ہے‘ جس میں وہ وضاحت کرتے ہیں کہ وہ اکثریت کی رائے سے کیوں متفق ہیں لیکن وہ اکثریت کی رائے کے استدلال کے لیے مزید تفصیلات بھی فراہم کر سکتے ہیں۔ اختلافِ رائے دنیا بھر کے سپریم کورٹس یا اعلیٰ عدالتوں میں عام نہیں ہے۔ عام سے مراد اختلافی رائے کا کھلے عام اظہار ہے۔ یقینا اختلافی رائے ہر جگہ پائی جاتی ہو گی مگر بعض ممالک میں ان کے اظہار پر پابندی عائد ہے۔ اٹلی اس ضمن میں ایک بڑی مثال ہے جو عدالتی فیصلوں کو ابہام سے بچانے کے لیے اختلافی رائے کے اظہار پر قدغن عائد کرتا ہے۔ البتہ یہ اصول دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف حیثیت کا حامل ہے۔ آج ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ایک طرف سول لاء کے نظام کا استعمال ہوتا ہے‘ جو اختلافِ رائے کو روکتا ہے اور دوسری طرف کامن لاء کے نظام پر بھی انحصار کیا جاتا ہے‘ جہاں ہر جج اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔ شروع شروع میں امریکی سپریم کورٹ میں عام روایت یہ تھی کہ جج صاحبان اپنی الگ الگ رائے کا اظہار کرتے تھے۔ جب مشہور جسٹس جان مارشل چیف جسٹس بنے تو انہوں نے ایک ہی رائے میں فیصلوں کا اعلان کرنے والی عدالت کی روایت شروع کرنے کا فیصلہ کیا‘ جسے اکثریتی رائے کہا جاتا ہے۔ اس طرح سپریم کورٹ نے ایک رائے کو قانونی حیثیت دینے میں مدد فراہم کی؛ تاہم‘ ہر جسٹس کے پاس اب بھی یہ اختیار تھا کہ اگر وہ ضرورت محسوس کرے‘ تو الگ رائے لکھ سکتا ہے‘ خواہ وہ متفق ہو یا اختلافی رائے ہو۔
کسی بھی عدالت کے لیے مثالی منظر نامہ وہ ہوتا ہے جہاں عدالت کی طرف سے ایک متفقہ فیصلہ دیا گیا ہو‘ جو یہ واضح پیغام دیتا ہے کہ فیصلہ عدالت کا متفقہ اور بہترین انتخاب تھا۔ تاہم‘ ایک بار جب جج اختلافی رائے لکھنا شروع کر دیتے ہیں تو یہ اکثریت کی رائے پر مبنی فیصلوں کے بارے میں شکوک پیدا کر سکتا ہے اور آنے والے وقتوں میں تبدیلی کے لیے ایک دروازہ کھول دیتا ہے۔ اگر کوئی معزز جج اختلافِ رائے کے ساتھ آگے بڑھتا ہے‘ تو وہ اپنی رائے کو ہر ممکن حد تک دلائل سے واضح کرتا ہے۔ بہترین اور مدلل اختلاف سامعین کو یہ سوال کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ آیا اکثریت کی رائے درست ہے یا نہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اختلافِ رائے منصف کے لیے اپنی الگ سوچ کے اظہار کا صرف ایک طریقہ ہے لیکن یہ حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ آگے کی اور اہم بات ہوتی ہے۔ عموماً اختلافی فیصلے بنیادی طور پر اس امید پر لکھے جاتے ہیں کہ مستقبل کے معزز منصف صاحبان عدالت کے سابقہ فیصلے پر نظر ثانی کریں گے اور مستقبل کے مقدمے میں ایسے فیصلوں کو بدلنے کے لیے کام کریں گے۔
اختلافِ رائے رکھنے والے عام طور پر اکثریتی فیصلے کی تشریح میں خامیوں اور ابہام کو نوٹ کرتے ہیں اور ایسے حقائق کو اجاگر کرتے ہیں جن کو اکثریت نے اپنی حتمی رائے میں نظر انداز کیا ہو۔ اختلافِ رائے عدالت کے فیصلے کو تبدیل کرنے کی بنیاد رکھنے میں بھی مدد کرتا ہے۔ مستقبل میں جج اپنی اکثریت‘ ہم آہنگی یا اختلافِ رائے کی تشکیل میں مدد کے لیے اختلافِ رائے کا استعمال کر سکتے ہیں۔ اس اختلافِ رائے کا اثر نظر ثانی یا اپیل کی کارروائی پر بھی پڑ سکتا ہے۔ اور اگر فیصلوں میں قانون یا حقیقت کی کوئی غلطی ہو تو اسے درست کرنے کا امکان ہوتا ہے۔ ان اختلافی فیصلوں سے قانون ساز ادارے بھی رہنمائی لیتے ہیں اور اگر قانون میں کوئی سقم سامنے آئے تو اس کی درستی کے لیے اقدامات کرتے ہیں۔
اس کی ایک مشہور ترین مثال ایک امریکی مقدمہ ہے۔ یہ مقدمہ ایک خاتون نے طاقتور اور امیر ٹائر کمپنی گڈایئر کے خلاف کیا تھا۔ خاتون کا مقدمہ یہ تھا کہ اسے عورت ہونے کی وجہ سے مردوں کے برابر تنخواہ نہیں دی جاتی۔یہ کیس Ledbetter v. Goodyearٹائر اور ربڑ کمپنی (2007ء) کے نام سے مشہور ہے۔ اس کیس میں‘ للی لیڈ بیٹر نے خود اور کمپنی میں مردوں کے درمیان 1964ء کے سول رائٹس ایکٹ کی شق VII میں صنفی مساوات کے تحفظات کا حوالہ دیا۔ سپریم کورٹ نے گڈائیر کے حق میں فیصلہ دیا کیونکہ للی لیڈ بیٹر نے اپنا کیس تاخیر سے دائر کیا تھا‘ جس کے لیے اس وقت کی 180دن کی مدت گزر چکی تھی۔ اس کیس میں اختلافی رائے سامنے آئی‘ جس نے تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔ جسٹس روتھ بدر گینسبرگ نے فیصلے سے اختلاف کیا اور کانگرس سے کہا کہ وہ اس قانون کو بہتر الفاظ میں سامنے لائیں تاکہ للی لیڈ بیٹر کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو روکا جا سکے۔ یہ اختلاف بالآخر للی لیڈبیٹر فیئر پے ایکٹ کی تخلیق کا باعث بنا‘ جس نے مقدمہ دائر کرنے کے لیے مزید وقت فراہم کرنے کے لیے حدود کے قانون کو تبدیل کر دیا۔ اگر یہ جسٹس روتھ کی اختلاف رائے نہ ہوتی تو یہ قانون منظور نہ ہوتا۔ جس نے امریکہ میں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو بدل دیا۔ پاکستان میں بھی ایسے کچھ مقدمات میں‘ جن میں بعض معزز جج صاحبان نے اختلافی نوٹ لکھے‘ ان میں سے بعض اتنے اہم ہیں کہ آنے والے وقتوں میں عدالتوں‘ وکلا اور قانون ساز اسمبلیوں نے اکثریتی رائے کی نسبت اس اختلافی رائے کو زیادہ اہمیت دی۔ ان میں مولوی تمیزالدین کیس سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو کیس تک چند مقدمات اہم اور قابل ذکر ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں