کینسر ہسپتال کی ضرورت

کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہر سال دنیا میں ایک کروڑ افراد کینسر کا شکار ہوتے ہیں۔صرف پاکستان میں ہر سال تقریباتین لاکھ افراد کینسر کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ ان میں سے ستر فیصد مریضوں کی تشخیص سٹیج تین یا چار میں ہوپاتی ہے‘ جبکہ ہمارے ہاں کینسر کے علاج کے لیے صرف ایک سو چالیس ڈاکٹرز اور چند ایک تربیت یافتہ نرسیں موجود ہیں۔ان حالات میں صرف چالیس ہزار مریض علاج کی سہولیات سے فائدہ اٹھا پاتے ہیں اور باقی ماندہ علاج سے محروم رہتے ہیں ۔کینسر دوسرے امراض سے مختلف ہے۔ یہ چار سو کے لگ بھگ مختلف امراض کااجتماعی نام ہے۔ یہ مرض مرحلہ وار بڑھتا ہے اور اس کے صرف ابتدائی دو مراحل میں مکمل شفایابی کی شرح نوے فیصد سے زیادہ ہے جبکہ تیسرے اور چوتھے مرحلے کے مریضوں میں شفایابی کا تناسب انتہائی کم ہے۔ ان مریضوں کی بیماری کو دو سے پانچ سال تک روکا جا سکتا ہے۔آخری مرحلے کے مریضوں پر توجہ نہ دی جائے تو انہیں انتہائی شدید درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور زندگی موت سے بھی بدتر ہو جاتی ہے۔ایسے مریضوں کے لیے باقاعدہ ایک الگ وارڈ اور معالج کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح کے وارڈ وطن عزیز میں کسی جگہ موجود نہیں۔ اعدادو شمار کے مطابق پنجاب میں پانچ سو سے بھی کم بستر اور پچاس سے بھی کم ڈاکٹر موجود ہیں۔ اتنے محدود بستروں‘ ڈاکٹروں اور نرسوں کی کمی کے باعث روزانہ دو سو سے زائد کینسر کے مریض بغیر علاج کے زندگی سے محروم ہو رہے ہیں۔ یاد رکھیں ہر دس میں سے ایک شخص اپنی زندگی میں کینسر کا شکار ہو سکتا ہے۔ ہمیں اس موذی مرض سے مقابلے کے لیے ایک ایسا جدید ہسپتال قائم کر نا ہو گا جہاں ہر مرحلے کے کینسر کا علاج ہو۔جہاں ہر غریب آدمی کو علاج کا موقع فراہم کیا جائے۔ یہ ساری باتیں کینسر ہسپتال کے روح رواں ڈاکٹر شہر یار نے کی ہیں۔ ان کے سامنے ممتاز شاعر ،ادیب براجمان تھے۔ہم ڈاکٹر شہر یار کی کینسر کے بارے میں گفتگو سن کر مزید اداس ہو گئے۔وجہ یہ تھی کہ ہم تو بارش،سیلاب اور دہشت گردی کے علاوہ مہنگائی ،غربت اور لوڈ شیڈنگ کے مسائل پر کُڑھ رہے تھے۔جم خانہ کے باہر موسلادھار بارش جاری تھی۔سڑکیں دریا دکھائی دے رہی تھیں۔ فرحت پروین (کینسر ہسپتال کی ڈائریکٹر آف آرٹ اینڈ کلچر)کی دعوت پر ممتاز اہل قلم موسم کی خرابی کے باوجود یہاں موجود تھے۔ڈاکٹر شہر یار اپنے شعبہ کے بہترین ماہرین میں سے ایک ہیں اور گفتگو کے دھنی بھی۔ انہوں نے فکر انگیز گفتگو سے سبھی کو سنجیدہ کر دیا ۔بہت سے احباب نے سوالات بھی کیے۔ ڈاکٹر شہر یار نے بتایا کہ لاعلاج اور خصوصاََ تیسرے چوتھے مرحلے کے مریضوں اور ایسے مریضوں کے لیے جنہوں نے اس مرض کی تکالیف ابھی تین چار برس برداشت کرنی ہیں‘ الگ سے کینسر کیئر ہسپتال درکار ہے‘ جس کا آغاز کینسر کے ڈاکٹرز نے کر دیا ہے ۔ یہ ہسپتال لاہور میں بنایا جا رہا ہے ۔اس میں کینسر کے مریضوں کا ہر سطح پر نہ صرف علاج کیا جائے گا بلکہ ان کی مناسب دیکھ بھال اور بقیہ زندگی کو قدرے بہتر بنانے پر توجہ دی جائے گی۔ڈاکٹر شہر یار اور ڈاکٹر عریشہ زمان نے ایسے بہت سے واقعات بھی بیان کیے ہیں جن میں لوگ کینسر کی تشخیص ہوتے ہی اپنے عزیزوں اور پیاروں کو موت سے بھی بدتر زندگی گزارنے کے لیے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں ۔بعض تو ہسپتال کے دروازے تک چھوڑ کر غائب ہوجاتے ہیں۔ کیا ایسے مریضوں کو معاشرہ اسی طرح نظر انداز کر دے؟ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے لاعلاج مریضوں کی جتنی بھی زندگی باقی ہے‘ اسے آسان بنانے کے لیے سہولیات مہیا کرنے کی کوشش کی جائے۔ ڈاکٹر شہر یار نے بتایا ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ہمارے ڈاکٹر دوسرے ممالک میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔چونکہ ہمارے ہاں کینسر کے ہسپتال نہیں ہیں وہ سب وطن عزیز میں آنا چاہتے ہیں‘ مگر ان کے لیے یہاں کوئی جاب نہیں ہے۔ہمارے ہاں تو عام ہسپتالوں کے ڈاکٹر بھی بے روزگاری اور نا قدری جیسے مسائل کا شکار ہیں۔کینسر سپیشلسٹ کہاں جائیں۔ ہمیں ہر شہر میں چار پانچ سو بستروں کے کینسر ہسپتال بنانے پڑیں گے تاکہ کروڑوں کی آبادی کے اس ملک میں کینسر کے مریضوں کی بجا طور پر دیکھ بھال ہو سکے۔ ہمارے ہاں مخیر حضرات کی کمی نہیں لیکن اس شعبے میں آنے والے عموماً اپنے ماں باپ اور عزیزوں کے نام پر ہسپتال بنا کر نام و نمود کی خواہش میں لگ جاتے ہیں۔ ہم سب کینسر کے ڈاکٹر ہیں،ہم بھی اپنے اپنے کلینکس بنا کر دولت اکٹھی کر سکتے ہیں‘ مگر ہم اس ملک اور عام لوگوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تاکہ کینسر کے دھتکارے ہوئے مریض نہ صرف کینسر کے دکھ درد سے نجات پا سکیں بلکہ آخری مرحلہ کے مریض بھی خصوصی توجہ حاصل کر کے بقیہ زندگی بہتر طور پر گزار سکیں‘ کیونکہ ایسے مریضوں کو درد کُش دوائی مور فین کے ساتھ دوسری ادویات کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔انہیں کھانے پینے اور سانس لینے میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں ۔جس کے لیے مناسب سہولیات اور ذہنی اور روحانی سکون بھی بے حد اہمیت اختیار کر جاتا ہے‘ سو ایسے مریضوں کے لیے ایک الگ وارڈ اور تربیت یافتہ خصوصی معالج درکار ہوتے ہیں ۔ڈاکٹر شہر یار نے کینسر سے بچنے کے لیے اہل قلم کے سوالات پر بعض مفید مشورے دیتے ہوئے کہا کہ ہفتے میں پانچ روز آدھ گھنٹہ پیدل چلنے کی عادت اپنانی چاہیے ۔اور چالیس برس کی عمر سے ہی یہ عادت پختہ کر لی جائے تواس بیماری کے علاوہ کئی دیگر امراض سے بھی نجات حاصل ہو سکتی ہے۔ خواتین کو چھاتی کے کینسر سے بچائوکے لیے باقاعدہ چیک اپ پر توجہ رکھنی چاہیے ۔ڈاکٹر صاحب اپنی گفتگو جاری رکھے ہوئے تھے اور ہم سوچ رہے تھے کہ دو نمبر خوراک اور جعلی ادویات کے اس دور میں عام بیماریوں سے بچنا محال ہے تو ہم کینسر جیسے موذی مرض سے بچائو کے لیے اپنی صحت پر دھیان رکھنے کا وقت کہاں سے نکالیں ۔کیونکہ آج کے انسان کی مصروفیت نے مت مار رکھی ہے۔مشینوں کے اس دور میں مرغن غذائوں کے شوقین ہمارے بیشتر لوگ زیادہ وقت بیٹھ کر گزارتے ہیں ۔تن آسانی نے ہمیں برائلر مرغ بنا دیا ہے‘ جو اپنے پنجرے(دڑبے) میں اپنے پائوں پر بھی کھڑا نہیں ہو سکتا اور ہم ہیں کہ مرغ مسلم بڑے شوق سے کھاتے ہیں…

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں